قوم ملک سلطنت

مبین مرزا  اتوار 15 اکتوبر 2017
سیاست اگر اعتدال اور توازن کے راستے پر ہے تو سماج کے طبقات میں ہم آہنگی ہوگی۔ فوٹو : فائل

سیاست اگر اعتدال اور توازن کے راستے پر ہے تو سماج کے طبقات میں ہم آہنگی ہوگی۔ فوٹو : فائل

گزشتہ سے پیوستہ

دوسری طرف عمران خان اور اُن کی تحریکِ انصاف ہے۔ اس سچائی کا اعتراف کیا جانا چاہیے کہ عمران خان اور اُن کی جماعت نے اپنے وجود کا احساس ایک ابھرتی ہوئی عوامی قوت کے طور پر کرایا ہے، جو عوام کی دیرینہ خواہش کو آواز عطا کرتے ہوئے انصاف اور مساوات کا سوال کرتی ہے اور ملک کے سیاسی نظام کو بدلنا چاہتی ہے۔اس لیے کہ اس نظام کی خرابیوں نے ملک کو تباہی کے راستے پر دھکیلا ہے۔

اس جماعت کے منشور میں بلاشبہہ اُن نکات اور مسائل پر خصوصی توجہ دی گئی ہے جو اس وقت ہماری قومی ضرورت کے زمرے میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ اسی بنیاد پر عمران خان اور اُن کی پارٹی نے عوام میں مقبولیت حاصل کی اور ان کے اثرورسوخ میں غیرمعمولی اضافہ ہوا۔

2013ء کے انتخابات میں یوں تو تحریکِ انصاف نے اپنی توقعات سے  کم نشستیں حاصل کیں، لیکن ملک کے سیاسی منظرنامے پر نظر رکھنے والے لوگ یہ کہتے ہیں، اور درست کہتے ہیں کہ تحریکِ انصاف کسی بھی قسم کی سیاسی کارگزاری کے بغیر مرکز میں جو نشستیں حاصل کرنے میں کام یاب رہی، وہ اتنی ضرور ہیں کہ اس پارٹی کے سیاسی وزن کی نفی نہیں کی جاسکتی۔ یوں ایک قوت کے طور پر مرکزی دھارے میں شامل ہونے کے بعد آئندہ الیکشن میں تحریکِ انصاف کا ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھرنا خارج از امکان نہیں رہا تھا۔

تاہم اس کے لیے ایک بنیادی شرط تھی اور وہ یہ کہ عمران خان اور اُن کی پارٹی عوامی خدمت اور واضح مقصدیت کو سامنے رکھے اور جن نعروں کو اُس نے سیاسی سفر میں استعمال کیا ہے، انھیں ہر ممکن عمل میں ڈھال کر دکھا دے، اور یہ ثابت کردے کہ اُس کے نعرے صرف الیکشن کی کام یابی کا ذریعہ نہیں تھے، بلکہ اُن کی عملی تعبیر اُس کا سیاسی نصب العین ہے۔ گویا اُس کی تمام تر توجہ تعمیری سیاست پر مرکوز ہوجانی چاہیے۔ اُس کی ایک اور خوش قسمتی یہ بھی رہی کہ 2013ء کے انتخابات کے بعد اپنی کارکردگی کے بہترین مظاہرے کے لیے اُسے خیبرپختونخواہ کا صوبہ مل گیا تھا۔

اب دیکھا جانا چاہیے کہ عمران خان اور تحریکِ انصاف نے اُس صوبے میں جہاں اُن کی حکومت ہے، مکمل اختیار و اقتدار کے اس دورانیے میں اصلاح اور ترقی کا وہ نقشہ کام یابی سے پیش کردیا ہے جسے وہ ملکی سطح پر نئے پاکستان کا نام دے کر ابھارتے رہے ہیں؟ اس نکتے پر ہم آگے چل کر ذرا سی تفصیل کے ساتھ بات کریں گے۔ اس سے پہلے کچھ اور ضمنی نکات ہیں جو عمران خان اور تحریکِ انصاف کے ملک میں سیاسی کردار اور رویوں کو سمجھنے میں مدد دے سکتے ہیں، اُن کو ہم پہلے دیکھے لیتے ہیں۔

مثال کے طور پر عمران خان اور ان کے ساتھی ملک کے نوجوانوں کو سیاست میں متحرک کردار کے ساتھ شامل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، اوّل تو یہ دعویٰ غلط ہے کہ اُن سے پہلے یہ کام ذوالفقار علی بھٹو اور پیپلز پارٹی نے کیا تھا، چلیے پھر بھی انھیں اس بات کی داد دی جاسکتی ہے کہ ضیاء الحق کے زمانے میں طلبہ تنظیموں پر پابندی عائد کرکے اُن کی مرکزی سیاسی دھارے میں شرکت کا جو راستہ روکا گیا تھا، تحریکِ انصاف نے ایک بار پھر اُس کو کھول دیا ہے۔

اس کریڈٹ کے بعد اُن سے یہ ضرور پوچھا جائے گا کہ وہ جن نوجوانوں کو سیاست میں لانے کی بات کرتے ہیں، کیا اُن کی نظریاتی کردارسازی اور سیاسی و ذہنی تربیت کے لیے انھوں نے کچھ کیا؟ اگر نہیں تو پھر یہ نوجوان کس طرح مثبت قومی و سیاسی قوت میں ڈھل سکتے ہیں؟ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ بڑی سیاسی قوت کے طور پر ابھرنے والی جماعت اتنے اہم کام کو بھلا کیسے فراموش کرسکتی۔ اُس نے یقیناً اس کے لیے کوئی واضح حکمتِ عملی اختیار کی ہوگی۔ ٹھیک ہے تو پھر دیکھنا چاہیے کہ کیا خود تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کا اپنا مزاج اور اندازِ سیاست اس تربیت اور تعمیر کے لیے کوئی مثالیہ بنتا ہے؟

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نہیں۔ اس لیے کہ اُن کے اندر سے ایک جذباتی شخص لپک کر باہر آنے کے لیے ہر لمحہ بے چین نظر آتا ہے، جسے دیکھتے ہوئے یہ کہنا ضروری محسوس ہوتا ہے کہ اوروں کے لیے نمونہ تو وہ بعد میں بنیں گے پہلے تو خود انھیں تحمل، متانت اور بردباری کے سبق کی ضرورت ہے۔

بات یہاں بھی ختم نہیں ہوتی۔ اس سے آگے بھی کچھ سوالات ہیں، مثلاً یہ کہ عمران خان جن کرپٹ سیاست دانوں کے خلاف مہم چلا رہے ہیں، کیا اُن کی قبیل کا کوئی شخص ان کی اپنی صفوں میں تو نہیں ہے؟ جس پاناما کو انھوں نے بنیاد بنا کر نوازشریف کے خلاف دھرنے دیے، جلسے کیے، جلوس نکالے اور عدالت سے اُن کی برطرفی کا فیصلہ حاصل کرنے میں کام یاب ہوئے، کیا اُسی پاناما کے ریکارڈ میں اُن کا اپنا یا اُن کے کسی ساتھی کا نام تو نہیں؟ یقیناً ہے اور ایک سے زائد کا ہے۔ یہی نہیں، بلکہ اس کے علاوہ بھی عمران خان کے خلاف جو مقدمات عدالت میں دائر ہیں وہ اُن کے کردار پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔

چلیے، ایک لمحے کے لیے فرض کیے لیتے ہیں کہ اُن کی نوعیت محض سیاسی دباؤ بڑھانے والے حربوں کی سی ہے۔ اس صورت میں بھی کم سے کم عدالت کا فیصلہ آنے تک کچھ بھی کہنا نامناسب ہوگا۔ اگر عدالت ایک مقدمے میں نواز شریف کو وزیرِاعظم کی حیثیت سے معزول کرتی ہے تو پھر عمران خان اور اُن کے ساتھیوں کے معاملے میں بھی عدالت کے فیصلے کو حرفِ مانا جائے گا۔

البتہ اِس دوران میں یہ تو ضرور دیکھنا چاہیے کہ اپنے مقدمات کے حوالے سے عمران خان اور ان کے ساتھیوں کا ردِعمل کیا ہے؟ خیال رہے، فی الوقت یہاں جو بھی سوالات اور مسائل پیشِ نظر رکھے گئے ہیں، ان کا تعلق عمران خان اور اُن کی جماعت کے اجتماعی اور ظاہری حوالوں سے ہے، عمران خان کی ذات کے حوالے سے منظرِ عام پر آنے والے بعض دیگر مسائل، مثلاً سیتا وائٹ سے عائشہ گلالئی تک اور برطانیہ میں میئر کے انتخاب کی مہم میں ان کی شمولیت اور گفتگو وغیرہ میں سے کسی کو بھی موضوع نہیں بنایا گیا۔

ویسے اگر سیاسی راہنما کی حیثیت سے اُن کے بارے میں ان سوالوں کو بھی اٹھایا جائے تو بہرحال بے جواز نہ ہوگا۔ اس لیے کہ تھرڈ ورلڈ کے یحییٰ خان سے لے کر فرسٹ ورلڈ کے بل کلنٹن تک سیاسی دنیا میں ایسے سوالات اٹھانے کی روایت موجود ہے، لیکن ہم یہاں ان مسائل پر گفتگو کرنے سے اس لیے احتراز کریں گے کہ ہمارا مقصد ملک کی سیاسی صورتِ حال اور ان میں نمایاں شخصیات اور اُن کی جماعتوں کے کردار کا جائزہ لینا ہے۔ ہم کسی فرد کو ہدفِ ملامت ہرگز نہیں بنانا چاہتے۔

خیر، تو ہم نے دیکھا کہ یہ ہیں، اس وقت ہمارے ملک کے دو سب سے نمایاں سیاسی راہنما اور دونوں بڑی اور سب سے زیادہ فعال سیاسی جماعتوں کے سربراہ۔

سیاست کے مرکزی دھارے کی صورت گری میں اِس وقت چوںکہ ان دونوں جماعتوں کا بنیادی کردار ہے، اس لیے ان کے سربراہوں کی حیثیت اس وقت ایسے مرکزی سیاسی راہنماؤں کی ہے جو ملک کی بقا، استحکام اور عوام کی فلاح اور خوش حالی کے لیے مثبت یا منفی دونوں طرح کا کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اصل میں سیاست اس دور میں ایک ایسے فیکٹر کا درجہ اختیار کرچکی ہے جو اقتدار کے کاروبار پر ہی اثر انداز نہیں ہوتا، بلکہ اب اُس کے اثرات کا دائرہ سماجی رویوں، اخلاقی اقدار اور معاشی نظام کی تشکیل تک وسیع ہوچکا ہے۔

سیاست اگر اعتدال اور توازن کے راستے پر ہے تو سماج کے طبقات میں ہم آہنگی ہوگی، اخلاقی اقدار کا شعور اور اُن کی پابندی کا تناسب نمایاں ہوگا اور معیشت فروغ پائے گی۔ اس کے برعکس اگر سیاست میں ٹکراؤ کا رُجحان پیدا ہو تو سماج میں طبقاتی تفریق تیزی سے بڑھنے لگتی ہے۔ اخلاقی قدروں کا لحاظ اٹھ جاتا ہے اور ان کی پامالی عام ہوجاتی ہے۔ معیشت رُو بہ زوال ہوتی ہے۔ اس کا ثبوت ہمیں اپنی ملکی صورتِ حال کے گزشتہ بارہ پندرہ برسوں کے تناظر میں ایک نہیں متعدد حوالوں سے مل سکتا ہے۔ خیال رہے کہ سیاست کی اثرانگیزی کا یہ منظرنامہ صرف ہمارے یہاں نہیں ابھرتا، بلکہ تھرڈ ورلڈ کے پس ماندہ ممالک سے لے کر جہانِ اوّل کے ترقی یافتہ ممالک تک ان مظاہر کو بہ آسانی دیکھا جاسکتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے ملک کی اس وقت سب سے متحرک دو سیاسی جماعتوں کے سربراہ اپنی اثر انداز ہونے والی حیثیت اور اُس کی ذمے داریوں سے باخبر ہیں اور ملک میں اپنا قومی و سیاسی کردار بردباری اور متانت سے ادا کررہے ہیں؟ جہاں تک بات ہے، اپنی حیثیت کے شعور کی تو دونوں جماعتیں اور دونوں سیاسی راہنما میاں نوازشریف اور عمران خان بخوبی اس سے آگاہ ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اُن کے عوامی اثر و رسوخ کا عالم کیا ہے۔ صرف یہی نہیں، بلکہ دونوں ہی اپنی عوامی قوت کو فعال رکھنے کی آڑ میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے جابجا مواقع بھی پیدا کرتے رہتے ہیں۔

رہا ذمے داریوں سے باخبر ہونے کا معاملہ تو کیا ایسا ممکن ہے کہ ایک شخص اپنی حیثیت کو سمجھتا ہو اور اُس کے اظہار کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا ہو، لیکن اُسے یہ اندازہ نہ ہو کہ اس حیثیت میں اُس کے فرائض کیا ہیں؟ ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ اِس کا ثبوت اِن دونوں حضرات کے اُن دعووں سے بھی ملتا ہے جو وہ عوامی خدمت اور ملکی ترقی کے سلسلے میں اپنے عزائم اور کارکردگی کے بیان کے حوالے سے کرتے رہتے ہیں۔ وہ جو کچھ اب تک کر گزرنے اور مزید کر کے دکھانے کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ اپنی ذمے داریوں کے مکمل ادراک کے بغیر ممکن ہی نہیں ہوسکتا۔

رہ گیا اس سوال کا آخری جزو کہ کیا یہ حضرات اپنا قومی و سیاسی کردار بردباری اور متانت سے ادا کررہے ہیں؟ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ دونوں سیاسی راہنما اس وقت واضح طور پر اس سے غفلت برت رہے ہیں عمران خان بہت زیادہ اور نوازشریف ذرا کم۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں اگرچہ الگ الگ تناسب سے ہی سہی، لیکن بہرحال خود مرکزیت کا شکار ہیں۔ چناںچہ ملک اور قوم کے مفاد سے غافل ہوکر صرف اپنی سیاست چمکانے میں مصروف ہیں۔ بالعموم ایسا ہوتا تو ذہن اور اعصاب پر ہوسِ اقتدار کے غلبے کی وجہ سے ہے، لیکن ہم عجلت میں یہ فتویٰ جاری نہیں کرنا چاہتے، بلکہ یہاں ذرا رُک کر حقائق کا تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے بعد اپنے نتائج اخذ کریں گے۔

نواز شریف جب اقتدار میں تھے تو اُس وقت اُن کی حالت ایسی ناگفتہ بہ نظر نہیں آتی تھی، حالاںکہ چار سال سے زائد عرصے کی حکومت میں انھوں نے جن قومی اور ملکی امور میں غفلت کا مظاہرہ کیا ہے، وہ اُن کے سیاسی وژن کی خرابی کو سامنے لاتے ہیں، مثلاً یہ کہ اس دورانِ حکومت میں انھوں نے وزیرِ خارجہ کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔

اس کا نقصان یہ ہوا کہ ہمارے خلاف کام کرنے والی لابیز نے نئے بیانیے تراشے اور ہمیں عالمی سیاسی تناظر میں تنہا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ اس عرصے میں چوںکہ اقوامِ عالم تک ہمارا سیاسی و قومی بیانیہ مؤثر انداز اور محکم ذرائع سے نہیں پہنچا، سو اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ متعدد مواقع ایسے گزرے جب ہم قومی حیثیت میں بین الاقوامی فورم پر دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور رہے۔

یہاں تک کہ ہم اپنی اسٹرٹیجک حیثیت سے بھی وہ فوائد حاصل کرنے میں ناکام رہے جو بہ آسانی حاصل کیے جاسکتے تھے۔ دوسری طرف دیکھیے تو ملک کے کچھ اہم اداروں کا یہ حال تھا کہ وہ مستقل سربراہوں سے محروم محض عارضی اختیار کے حامل افراد کے ہاتھوں چلتے رہے اور میاں نواز شریف کو اُن پر توجہ دینے کی مہلت ہی نہیں مل سکی۔ علاوہ ازیں یہ بھی قابلِ غور بات ہے کہ ان کی اپنی پارٹی کے بڑے رہنماؤں کے مابین تناؤ اس حد تک پہنچا کہ وہ پارٹی اور ملک دونوں کی ضرورت اور مصلحت سے قطعِ نظر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے بیان دیتے نظر آئے۔ ملک کے سیاسی اور حکومتی تناظر میں مقتدر ترین حیثیت کا حامل ہونے کی بنا پر میاں نواز شریف کی یہ عدم توجہی کوئی ایسی شے نہیں کہ جیسے سرسری سمجھتے ہوئے نظر انداز کردیا جائے۔

یہ سب مسائل اپنی جگہ تاہم اس کے باوجود اُن کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران ملک کے لیے جو کام اور جو بڑے فیصلے کیے گئے تو اُن کی اہمیت اور ملکی مفاد کے لیے اُن کی ضرورت سے کسی طور انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اُن کی حکومت موٹروے اور ایگری کلچر کے لیے کیے گئے فیصلوں کا کریڈٹ لیتی ہے، لیکن ان سے کہیں زیادہ اہم اقدام دہشت گردوں کے خلاف کریک ڈاؤن کارروائی کا فیصلہ تھا۔ اگرچہ اس فیصلے میں فوجی قیادت کا اصرار کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، لیکن اس فیصلے میں ملک کی سیاسی قیادت کی شمولیت اور فوج کے ساتھ ہم آہنگی اس کے باوجود بڑی اہمیت رکھتی ہے۔

نواز شریف حکومت میں یہ فیصلہ اس لیے بھی خاص اہمیت رکھتا ہے کہ انھیں دائیں بازو کے نظریات کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے۔ پھر یہ کہ وہ ضیاء الحق کے زمانے کی پیداوار ہیں جب یہی طالبان جو آج دہشت گرد قرار پائے ہیں، پاکستان اور امریکا دونوں کے بہت بڑے حلیف تھے۔ پاکستان میں انھیں جو آزادی تھی وہ تو رہی ایک طرف خود امریکا میں ان کے اثر ر سوخ کا عالم یہ تھا کہ ان کے اشارۂ ابرو پر بڑے بڑے کام ہوجاتے تھے۔ ڈالرز اور اسلحے کی پیٹیاں دنیا کے سب سے بڑے انسان دوست اور جمہوریت پسند امریکا بہادر کی طرف سے ان کی نذر گزاری جاتی تھی۔ خیر تو چوںکہ میاں نواز شریف دائیں بازو کے نمائندے سمجھے جاتے ہیں اس لیے اُن کا کریک ڈاؤن کے اس فیصلے کو عمل درآمد کے مرحلے میں لانا کوئی چھوٹی بات نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اس فیصلے نے ملک میں امن و امان کی صورتِ حال کو بہتر بنانے اور معاشی ترقی اور پاکستان میں بین الاقوامی سرمایہ کاری کا راستہ ہموار کرنے میں بہت بڑا اہم کردار ادا کیا۔ بلاشبہ یہ اُن کی حکومت کا اہم کریڈٹ ہے۔

اس کا بھی اعتراف کیا جانا چاہیے کہ انھی کے عہدِ اقتدار میں امریکا اور عالمی برادری کے دباؤ کو مسترد کرنے کی پالیسی بھی اختیار کی گئی۔ یہ سب باتیں اُن کی حکومت کے قابلِ ستائش اقدامات میں گنی جائیں گی۔

تاہم جب وہ نااہل ہوکر اقتدار سے الگ کیے گئے تو نادان دوستوں اور نااہل مشیروں نے انھیں عوامی عدالت میں جانے کا جو راستہ سجھایا وہ ان کے حق میں ہرگز اچھا ثابت نہیں ہوا۔ عوامی ریلی اور جلسوں میں ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کا راگ الاپ کر انھوں نے نہ صرف اپنی آواز بٹھالی، بلکہ سنجیدہ حلقوں میں تماشا بھی بن گئے۔ اپنا مقدمہ عوام کی عدالت میں لے جاکر جو مقصد وہ حاصل کرنا چاہتے تھے، وہ تو رہا ایک طرف الٹا اُن کی شخصیت، خاندان، ساتھیوں اور مشیروں کے بارے میں وہ سوالات اٹھے جو اس سے پہلے نہیں اٹھائے گئے تھے۔

اس کے بعد رہی سہی کسر ایک اور غلط فیصلے نے پوری کردی۔ یہ نیب میں پیش ہوکر مقدمات کا سامنے کرنے سے انکار کا فیصلہ تھا۔ اس فیصلے نے اُن کے بارے میں اس منفی تأثر کو بہت زیادہ ابھارا کہ وہ اگرچہ عدالت کی طرف سے نااہل قرار دیے گئے ہیں، لیکن خود کو احتساب سے بالا تر سمجھتے ہیں۔ تیسری بار کے اقتدار نے اُن کے اندر برتری کا یہ احساس پیدا کیا ہے کہ وہ خود اُن اداروں کے اختیار اور عمل داری کے منکر ہیں جن کے قیام اور استحکام میں اُن کی اپنی حکومت کا اہم کردار رہا ہے۔

یہ بات اب کھل چکی ہے کہ یہ فیصلہ اُن کی ذاتی رائے سے زیادہ بعض مشیروں اور قریبی دوستوں کے مشورے کی روشنی میں کیا گیا تھا۔ البتہ یہ بات قدرے اطمینان بخش ہے کہ اُن کے اس رویے پر جو لے دے ہوئی، اُس نے اُن کی آنکھیں کھول دیں، اور شاید اُن کے کچھ مشیروں کی بھی۔ یہ اُن کی سیاسی خودکشی کے مترادف تھا کہ وہ اور ان کے اہلِ خانہ نیب میں پیش ہونے سے انکار پر مصر رہتے۔ غنیمت ہے کہ انھوں نے مقدمات کا سامنا کرنے کی ضرورت اور اہمیت کو سمجھ لیا۔ میاں نواز شریف، اہلِ خانہ اور اُن کے پرخلوص دوستوں کو ضرور غور کرنا چاہیے کہ یہ کیسے مشیر اور ساتھی ہیں جو انھیں سیاسی خودکشی کے راستے پر لے کر جارہے تھے۔
(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔