2017ء کے نوبل انعام

سید عاصم محمود  اتوار 15 اکتوبر 2017
آخر ستمبر 2015ء میں دونوں منصوبوں سے وابستہ سائنس دانوں نے خلا میں امواج ثقل موجود ہونے کا ثبوت دریافت کرلیا۔ فوٹو: فائل

آخر ستمبر 2015ء میں دونوں منصوبوں سے وابستہ سائنس دانوں نے خلا میں امواج ثقل موجود ہونے کا ثبوت دریافت کرلیا۔ فوٹو: فائل

پچھلے ہفتے نوبل انعامات کا اعلان کردیا گیا۔ بعض تنازعات کے باوجود خصوصاً علمی دنیا میں نوبل انعامات سب سے معزز و محترم انعام سمجھتے جاتے ہیں۔ 2017ء کے نوبل انعامات کی تفصیل درج ذیل ہے۔

طب:-یہ انعام سویڈن کی ایک سرکاری میڈیکل یونیورسٹی، کیرولنکا انسٹیٹیوٹ (سویڈن) میں قائم نوبل اسمبلی کے ماہرین عطا کرتے ہیں۔ اس بار تین امریکی طبی سائنس دانوں… جیفرے ہال، مائیکل روسباش اور مائیکل ینگ کو طب کا نوبل انعام دیا گیا۔ تینوں نے انسانی جسم میں نصب ’’گھڑی‘‘ پر تحقیق کرکے مفید معلومات حاصل کی ہیں۔ یہ گھڑی اصطلاح میں ’’یوماوی آہنگ‘‘ (Circadian rhythm) کہلاتی ہے۔

ماضی میں اس انسانی جسمانی گھڑی کے متعلق کم معلومات دستیاب تھیں۔ مگر تحقیق کے ذریعے ہم جان چکے کہ انسانی بدن میں یہ گھڑی خاصی اہمیت رکھتی ہے۔ وجہ یہ کہ انسان کے سونے جاگنے کا نظام اسی گھڑی سے وابستہ ہے۔ یہی نہیں، اس گھڑی میں تبدیلیاں آنے سے ہمارا رویّہ اور بہت سے جسمانی افعال بھی تبدیل ہوجاتے ہیں۔انسان، حیوان اور پیڑ پودے ہر جان دار کے ہر خلیے میں یہ گھڑی پائی جاتی ہے۔

تینوں امریکی ڈاکٹر پھل مکھیوں (Fruit Fly) اور دیگر جان داروں کی جسمانی گھڑیوں پر کئی برس سے تحقیق کررہے ہیں۔ اس دوران انہوں نے ایسے جین اور پروٹینی مادے دریافت کیے جو جسمانی گھڑی کے فعل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کا انداز کار جان کر امریکی ڈاکٹروں پر منکشف ہوا کہ جسمانی گھڑی کیونکرکام کرتی ہے اور یہ کہ اس کا دائرہ کار انسان کے جسم میں کہاں تک پھیلا ہوا ہے۔ انہیں پتا لگا، ہمارا موڈ، ہارمونوں کی سطح، درجہ حرارت حتی کہ نظام استحالہ (Metabolism) بھی جسمانی گھڑی کے باعث ادلتا بدلنا رہتا ہے۔

یہی گھڑی صبح سویرے ہمارے جسمانی انجن کو رواں دواں کرتی ہے تاکہ وہ کاموں کے لیے تیار ہوجائے۔ اسی لیے اگر کسی کا دل کمزور ہے، تو صبح ہارٹ اٹیک ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ خاص بات یہ کہ ہر انسان میں سونے جاگنے کا نظام یہی جسمانی گھڑی کنٹرول کرتی ہے۔ کسی بھی وجہ سے طویل عرصہ جاگنے پر یہ نظام خراب ہوجاتا ہے۔ تب انسان کی ذہنی طاقتیں کمزور پڑجاتی ہیں جبکہ یہ نظام طویل عرصہ خراب رہے، تو انسان ذیابیطس، امراض قلب اور کینسر جیسی موذی بیماریوں کا نشانہ بن سکتا ہے۔تینوں امریکی طبی سائنس داں انسان کی جسمانی گھڑی پر تحقیق جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ تحقیق و تجریوں سے مستقبل میں مزید انکشافات ہوسکتے ہیں۔

طبیعات:-یہ نوبل انعام سویڈن کی آزاد و خود مختار سائنسی تنظیم، رائل سویڈش اکیڈمی آف سائنسز عطا کرتی ہے۔ اس بار تین امریکی طبیعات دانوں… رائینر وایس، کپ تھورن اور بیری بریش کو امواج ثقل (gravitational waves) دریافت کرنے پر طبیعات کا نوبل انعام دیا گیا۔

ہماری کائنات دیدہ اور نادیدہ مظاہر کا نہایت پُر اسرار مجموعہ ہے۔ 1905ء میں پہلی بار ایک فرانسیسی نظریاتی طبیعات داں، ہنری پوانکارہ نے یہ نظریہ پیش کیا کہ جب کائناتی خلا میں دیدہ یا نادیدہ چیزیں آپس میں ٹکراتی ہیں یا کوئی ستارہ پھٹتا ہے، تو اس عمل سے نادیدہ (نظر نہ آنے والی) لہریں جنم لیتی ہیں۔ یہ لہریں پوری کائنات میں پھیل جاتی ہیں۔ یہ عمل ایسے ہی ہے کہ آپ ساکن تالاب کے درمیان میں پتھر پھینکیں تو پانی کی لہروں کا ارتعاش چاروں طرف پھیل جائے۔ہنری پوانکارہ نے خلا میں دیدہ یا نادیدہ اشیا کے ٹکراؤ سے جنم لینے والی لہروں کو ’’امواج ثقل‘‘ کا نام دیا۔ اس نظریے کو 1915ء میں مشہور جرمن طبیعات داں، آئن سٹائن نے اپنے ’’نظریہ اضافیت‘‘ میں شرح وبسط سے بیان کیا۔ دلچسپ بات یہ کہ آئن سٹائن کو شروع میں یقین تھا کہ کائنات میں امواج ثقل کا کوئی وجود نہیں۔ تاہم جب اس نے تحقیق و تجربات کیے، تو اس کا ذہن بدل گیا۔

1993ء میں پانچ یورپی ممالک (اٹلی، فرانس، ہالینڈ، پولینڈ اور ہنگری) نے اپنا ورگو (Virgo) منصوبہ جبکہ 1994ء میں امریکا نے اپنا لیگو(LIGO) منصوبہ شروع کیا۔ ان منصوبوں کے ذریعے ایسی رصد گاہیں تعمیر کی گئیں جہاں امواج ثقل دریافت کرنے والے جدید ترین آلات و مشینیں نصب تھیں۔

آخر ستمبر 2015ء میں دونوں منصوبوں سے وابستہ سائنس دانوں نے خلا میں امواج ثقل موجود ہونے کا ثبوت دریافت کرلیا۔ انہوں نے دیکھا کہ جب دو دیوہیکل سیاہ سوراخ (black hole) آپس میں ٹکرائے یا مدغم ہوئے تو اسی ٹکراؤ سے امواج ثقل نے جنم لیا جو چاروں طرف پھیل گئیں۔ یوں ایک صدی سے زیادہ پرانا نظریہ درست ثابت ہوگیا۔امواج ثقل کی مدد سے اب سائنس داں جان سکیں گے کہ ستارے کیونکر پیدا ہوتے اور کیسے تباہ ہوجاتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ امواج ثقل کی مدد سے بگ بینگ کا مطالعہ کرنا بھی ممکن ہے… 13 کھرب 70 کروڑ پہلے کا وہ عظیم الشان واقعہ جس کے ذریعے پوری کائنات وجود میں آئی۔ جن تین امریکی سائنس دانوں کو طبیعات کا نوبل انعام ملا، انہوں نے ’’ورگو‘‘ اور ’’لیگو‘‘ منصوبے کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ تاہم ان منصوبوں سے تقریباً ایک ہزار سائنس داں منسلک ہیں۔ لہٰذا دبی دبی یہ آوازیں بھی بلند ہوئیں کہ نوبل انعام مشترکہ طور پر ان دونوں منصوبوں کو دینا چاہیے تھا۔ آخر تین سائنس دانوں کے علاوہ بھی دیگر ماہرین کی خدمات کسی طور پر کم نہیں۔

کیمیا:-اس علم کا نوبل انعام بھی رائل سویڈش اکیڈمی آف سائنسز کے ماہرین تجویز کرتے ہیں۔ 2017ء میں یہ اعزاز ایک سوئس کیمیا داں ژاک دوبوشہ، جرمن یواکیم فرینک اور برطانوی رچرڈ ہینڈرسن کو مشترکہ طور پر دیا گیا۔ان تینوں نے انتہائی ننھے منے زندہ اجسام کو دیکھنے کے لیے ایک خرد بینی طریق کار ایجاد کیا جو’’ کرائیو۔الیکٹر ون مائیکرو سکوپی‘‘ (cryo-electron microscopy) کہلاتا ہے۔ اس طریق کار میں کم درجہ حرارت رکھنے والے ماحول میں برقی خردبین کے ذریعے ننھے منے جانداروں کا مطالعہ ہوتا ہے۔وائرس، ایک خلیے کے حصے مثلاً مائٹو چونڈریا (mitochondria)، رائبو سوم (ribosomes) اور انتہائی چھوٹے خامرے (enzymes) عام برقی خرد بین سے نہیں دیکھے جاسکتے کیونکہ مشین سے نکلنے والی شعاعیں عام طور پر ان ننھے جانداروں کو مار دیتی ہیں۔ اسی لیے 1980ء کے بعد مختلف سائنس داں ایسا خرد بینی نظام ایجاد کرنے کی کوششیں کرنے لگے جس کی مدد سے ننھے جانداروں کا جیتی جاگتی حالت میں مطالعہ ہوسکے۔

ان سائنس دانروں میں ژاک دوبوشہ، یواکیم فرینک اور رچرڈ ہینڈرسن سرفہرست تھے۔ آخر ان کی محنت و سعی رنگ لائی اور کرائیو۔ الیکٹرون مائیکرو سکوپی تکنیک و جود میں آگئی۔ یہ زبردست کارنامہ انجام دینے پر ہی تینوں کیمیا دانوں کو نوبل انعام سے نوازا گیا۔اس تکنیک کی مدد سے اب ماہرین دیکھ سکتے ہیں کہ انسانی خلیوں کے انتہائی چھوٹے جزو کیونکر جنم لیتے اور کام کرتے ہیں۔ ان پر کیسے بیماریاں حملہ آور ہوتی ہیں اور وہ کیونکر اپنا دفاع کرتے ہیں۔

اگر ماہرین طب یہ سارا انتہائی پیچیدہ گورکھ دھندا اپنی آنکھوں سے دیکھ کر سمجھ جائیں، تو وہ ایسی ادویہ بناسکیں گے جو لاعلاج امراض مثلاً کینسر، ذیابیطس، الزائمر وغیرہ کو بھی دور کرسکیں۔اس تکنیک کی مدد سے حتیاتیات داں یہ جاننے اور سمجھنے کی بھی کوشش کررہے ہیں کہ خردبینی سطح پر زندگی کیسے جنم لیتی ہے۔ گویا کرائیو الیکٹرون مائیکرو سکوپی تکنیک نے حتیاتیات اور کیمیا کے شعبوں میں انقلاب برپا کردیا ۔ ماہرین کو یقین ہے کہ اس تکنیک کی مدد سے مستقبل میں کرہ ارض پہ پھیلی زندگی کے متعلق کئی اہم راز افشا ہوں گے۔

ادب :-سویڈن کا سرکاری علمی و ادبی ادارہ، سویڈش اکیڈمی ادب کا نوبل انعام عطا کرتی ہے۔ سال رواں میں یہ انعام جاپانی نژاد برطانوی ناول نگار، افسانہ نگار، اسکرین رائٹر اور شاعر 62 سالہ کازو ایشیگورو(Kazuo Ishiguro) کو دیا گیا۔ کا زو جب پانچ سال کا تھا، تو اس کا سائنس داں باپ برطانیہ آگیا۔ وہ پھر واپس نہیں گیا۔ کازو نے برطانیہ ہی میں تعلیم پائی اور تخلیقی قلم کاری میں ایم اے کیا۔
کازو ایشیگورو نے آغاز میں افسانے لکھے۔ پھر ناول لکھنے کی سمت متوجہ ہوا۔ اب تک اس کے سات ناول طبع ہوچکے جن میں دی ریمیز آف دی ڈے اور نیورلیٹ گو نے شہرت پائی اور ان پر فلمیں بھی بنیں۔ سویڈیش اکیڈمی نے کازو کو ایوارڈ دیتے ہوئے نوٹ کیا:’’وہ لطیف و پاکیزہ نثر لکھنے والا ادیب ہے۔ اگر جین آئر اور فرانز کافکا کی نثر کو باہم ملا دیا جائے تو کازو ایشیگورو کی نثر وجود میں آئے گی۔ اس کے ناول انتہائی جذباتی طاقت رکھتے اور یادداشت، وقت اور فریب نفس (Self Delusion) سے متعلق ہیں۔ انسان ظاہری دنیا سے جو فریب نظر نما تعلق رکھتا ہے، اس کی گہرائی و گیرائی بھی کازو کی تخلیقات کا موضوع ہیں۔‘‘

کازو ایشیگورو کو پرورش پاتے ہوئے دو مختلف اور متناقص ماحول ملے۔ گھر میں اس کی پرورش جاپانی (مشرقی) ماحول میں ہوئی جس میں اقدار و روایات کا خیال رکھا جاتا ہے جبکہ گھر سے باہر اسے برطانوی (مغربی) ماحول ملا جو خاصا مادر پدر آزاد ہوتا ہے۔ چناں چہ دو مختلف ماحول میں نشوونما پانے کی وجہ سے کازو میں ایسی منفرد ذہنی صلاحیتوں نے جنم لیا جو یک ماحول والے تخلیق کار کو عموماً میسر نہیں آتیں۔ انہی ذہنی صلاحیتوں نے کازو کو ایک عمدہ اور منفرد ادیب بنا ڈالا۔

کازو کے بیشتر ناولوں کا پلاٹ ماضی سے متعلق ہے اور وہ افسانوی ہوتا ہے۔ اس میں کازو سائنس فکشن اور مستقبل کے موضوعات کا بل تڑکا لگاتا ہے۔ اس کی کہانیاں بھی ماضی میں جنم لیتی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ کازو کو مٹتی اقدار و روایات سے دلچسپی ہے۔ چناں چہ وہ دور جدید کے انسانوں کو ان سے آگاہ رکھنا چاہتا ہے۔ کازو کا قول ہے:’’میں مشہور و معروف ہستیوں کے ساتھ بیٹھنا پسند نہیں کرتا۔ میرے احباب میں وہ دوست شامل ہیں جس سے کئی برس سے میری دوستی ہے۔ تاہم مجھے لگتا ہے کہ وہ میری دنیاوی کامیابیوں کے باعث میرا ساتھ دیتے ہوئے کچھ بے اطمنانی محسوس کرتے ہیں۔

امن:-یہ نوبل انعام ناروے کا ایک ادارہ، نارویجن نوبل کمیٹی عطا کرتی ہے۔ اس سال ایٹمی اسلحے کے خلاف متحرک ایک عالمی غیر سرکاری تنظیم ’’ عالمی مہم برائے انسداد ایٹمی ہتھیار‘‘ (International Campaign to Abolish Nuclear Weapons) کو امن کا نوبل انعام دیا گیا۔ یہ تنظیم 2007ء میں ایک اور غیر سرکاری تنظیم، انٹرنیشنل فریشنز فار دی پریوینشن آف نیوکلیئر وار نے قائم کی تھی۔

جنگ و جدل کے عالمی قوانین میں واضح طور پر درج ہے کہ کوئی بھی فریق شہریوں کو نشانہ نہیں بناسکتا۔ لیکن نارویجن نوبل کمیٹی کا یہ کہنا بجا ہے کہ ایٹم بم اور ہائیڈروجن صرف اس لیے بنائے گئے تاکہ بھرے پُرے شہر کے شہر تباہ کرسکیں۔ ایٹمی اسلحہ تو خاص طور پر شہریوں کو نشانہ بناتا ہے۔ اسی لیے ’’ عالمی مہم برائے انسداد ایٹمی ہتھیار‘‘ نے یہ عالمی مہم چلا رکھی ہے کہ دنیا بھر سے تمام ایٹمی اسلحہ ختم کیا جائے۔

کچھ عرصہ قبل روس کے بعد دنیا کی دوسری بڑی ایٹمی قوت، امریکاکے صدر ٹرمپ نے شمالی کوریا کو دھمکی دی تھی کہ اگر وہ امریکی سرزمین پر حملہ آور ہوا، تو شمالی کوریا کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی۔ اسی طرح تقریباً سبھی ایٹمی طاقتیں اپنے جوہری اسلحے کے ذخیرے میں اضافہ کررہی ہیں جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔

لیکن پاکستان کا موقف واضح ہے… یہ کہ اس نے صرف دفاع کی طرح ایٹمی اسلحہ بنایا ہے۔ اگر آج کم از کم بھارت اور اسرائیل اپنا ایٹمی اسلحہ تلف کردیں، تو پاکستان بھی اپنا سارا جوہری اسلحہ ضائع کردے گا۔ لیکن پاکستان اور عالم اسلام کے دشمنوں نے اپنا ایٹمی اسلحہ سنبھالے رکھا، تو مجبوراً پاکستانیوں کو بھی اپنے جوہری ہتھیار سنبھال کر رکھنے ہوں گے۔

معاشیات:-یہ انعام رائل سویڈش اکیڈمی آف سائنس عطا کرتی ہے۔ اس سالیہ انعام رائل سویڈش اکیڈمی آف سائنسز عطا کرتی ہے۔ اس سال 72 سالہ امریکی معیشت دان رچرڈ تھیلر کو یہ انعام دیا گیا۔ رچرڈ تھیلر علم معاشیات کی ایک شاخ “Behavioural Economics” کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اس شاخ میں افراد اور کمپنیوں کے مالی و معاشی فیصلوں کے نفسیاتی، معاشرتی اور جذباتی اثرات کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ نیز یہ کہ وہ اثرات مارکیٹ کی قیمتوں، منافع وغیرہ پر کیونکر اثرانداز ہوتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔