نیا سیاسی منظر نامہ اور لوُپ ہولز

نیر حیات قاسمی  جمعـء 13 اکتوبر 2017
کیا ہمیں یا ہمارے ارباب اختیار کو اِس بات کی اجازت دینی چاہیے کہ وہ افراد یا تنظیمیں جو قانوناً کالعدم قرار پا چکی ہیں، نظام کے ’’لوُپ ہولز‘‘ کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی غیر قانونی شناخت کو قانونی شناخت میں تبدیل کرلیں؟ (فوٹو: فائل)

کیا ہمیں یا ہمارے ارباب اختیار کو اِس بات کی اجازت دینی چاہیے کہ وہ افراد یا تنظیمیں جو قانوناً کالعدم قرار پا چکی ہیں، نظام کے ’’لوُپ ہولز‘‘ کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی غیر قانونی شناخت کو قانونی شناخت میں تبدیل کرلیں؟ (فوٹو: فائل)

غروب سے مشابہ، طلوع ہوتا نیا سیاسی منظر نامہ کچھ تاریک اور مبہم سائے کشید کر رہا ہے۔ جیسے غروب کے وقت سورج کے ڈوبنے کی حرکت تیز رفتار ہو جاتی ہے اور وہ برہنہ آنکھ کو بھی دھرتی کی حد سے پرے دھنستا دکھائی دیتا ہے، اُسی طرح حالیہ کچھ عرصے میں وقوع پذیر ہونے والے معاملات درپردہ کسی غیر مناسب تبدیلی کی طرف اشارہ کرتے نظر آتے ہیں۔

گزشتہ دنوں لاہور میں منعقدہ ضمنی انتخابات نے اُس فریق کی سیاسی شکل و صورت اُبھارنی شروع کردی ہے جو اب تک آزاد امیدوار کی صورت میں مخصوص کامیابیاں سمیٹتا دکھائی دیتا تھا۔ میں ذکر کر رہا ہوں اُس ’’نئی سیاسی قوت‘‘ کا جو غیر محسوس طریقے سے نظام کی لچک کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے سسٹم میں داخل ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔ اِس حوالے سے جہاں حالات کی زرخیز دھرتی اُن کےلیے موزوں صورتحال تیار کررہی ہے وہاں حال ہی میں منظور ہونے والی آئینی ترامیم بھی بالآخر اِنہی طاقتوں کے حق میں جاتی نظر آتی ہیں؛ اگر اِن ترامیم کو عدالت عالیہ میں چیلنج نہ کیا گیا اور وہ انہیں مسترد نہ کردے تو۔

انسان جتنا بھی دعوی کر لے یہ اُس کی خوش فہمی ہی رہتی ہے کہ کوئی کام جو وہ بظاہر صرف اور صرف اپنے ذاتی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے پروان چڑھاتا ہے وہ دراصل بالواسطہ طور پر کسی اور کے فائدے کےلیے ہوتا ہے۔ جس کا اُس انسان کو ادراک نہیں ہو پاتا اور وہ اِسی زعم میں تیزی سے منازل طے کرتا جاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی، حالیہ آئینی ترامیم کے معاملے میں محسوس ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ ترامیم سراسر ایک شخص، اُس سے منسلک مخصوص افراد اور جماعت کے فائدے کےلیے تراشی دکھائی دیتی ہیں۔ مگر جلد بازی میں اور شاید غصے کی کیفیت میں اُٹھائے گئے یہ اقدامات دراصل اُن تنظیموں، جماعتوں اور افراد کےلیے سازگار موحول تیار کر رہے ہیں جو مخصوص وجوہ کی بنا پر کالعدم قرار پا چکے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمیں یا ہمارے ارباب اختیار کو اِس بات کی اجازت دینی چاہیے کہ وہ افراد یا تنظیمیں جو قانوناً کالعدم قرار پا چکی ہیں، نظام کے ’’لوُپ ہولز‘‘ کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی غیر قانونی شناخت کو قانونی شناخت میں تبدیل کر لیں؟ ہمارے نظام میں جہاں پہلے ہی کمزوریاں ہیں وہاں یوں لگتا ہے جیسے حالیہ ترامیم نے مزید چھید کر دیئے ہیں۔ اِسے اگر یوں دیکھا جائے کہ خود کو گزارنے کےلیے چھلنی کے سوراخوں کو اِتنا کھلا کر دیا گیا ہے کہ اُس میں سے کوئی بھی بِلا چوُں و چرا گزر سکتا ہے۔ یوں عملی طور پر وہ چھلنی بیکار دکھائی دیتی ہے جس کا اصل کام ناپسندیدہ عناصر کو ’صاف مواد‘ میں شامل ہونے سے روکنا ہے۔

گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں سینکڑوں کی تعداد میں منتخب ہونے والے آزاد امیدواروں میں ایک بڑی تعداد کا تعلق بھی کچھ ایسی تنظیموں سے ہے جن پر براہ راست انتخابات یا عوامی عہدہ حاصل کرنے پر پابندی ہے۔ لیکن سیاسی نظام کی کمزوریوں اور قانون کی مکمل عملداری نہ ہونے کی وجہ سے یہ گنجائش پیدا ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ عام طور پر ہمارے یہاں انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح تیس یا چالیس فیصد تک ہوتی ہے۔ یوں بقیہ ساٹھ سے ستر فیصد اکثریت خاموش رہتی ہے۔ اِس خاموش تعداد کی اکثریت اگر کسی ایک جانب ووٹ دے دے تو موجودہ سیاسی نظام کی تمام مروّجہ سیاسی جماعتیں یکمشت فارغ ہو سکتی ہیں۔

لہذا شخصی ترجیحات کو پورا کرتے کرتے، قانون اور آئین کو موم کی ناک بناتے بناتے، شاید اُن مُمکنات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے جن کا فائدہ اُٹھا کر پسِ پردہ کیا اُن سِروں کو آپس میں جوڑنے کا موقع فراہم کیا جا رہا ہے؟ وہ سِرے کہ جن میں پہلے مرحلے پر معاشرے میں افراد کے رویوں میں شدت پسندی سرایت کی جائے اور پھر سیاسی نظام کے ذریعے باقاعدہ ’قانونی‘ طریقے سے اُس خاموش ’شدت پسند‘ اکثریت کا ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے؟

اِس ضمن میں دیکھا جائے تو فردِ واحد یا مخصوص طبقے کے مفادات کے تحفظ کےلیے کی جانے والی آئینی ترامیم اِن قوتوں کےلیے چھتری بن سکتی ہیں۔ اور وہ آنے والے انتخابات میں ایک سیاسی شناخت کے طور پر اُبھر سکتے ہیں۔ فوجی محاذ پر پے در پے شکستوں کے بعد شدت پسندی نے ایک کروٹ بدلی ہے جس میں اب تعلیمی اداروں اور دیگر ایسے مقامات کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے جن کا تعلق معاشرے کی فکری سوچ سے ہے۔ بیک وقت مختلف سِروں پر خاموشی سے کام کیا جا رہا ہے۔

اس کے بعد بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ دھیرے دھیرے اُن سِروں کو آپس میں جوڑنے کی کوشش کی جائے گی۔ اِس جوڑنے کے عمل کی ابتدا محسوس کی جا سکتی ہے۔ لہذا ہوش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ سول ادارے اور سیاسی قوتیں اپنا کام مکمل ذمہ داری اور ایمانداری سے انجام دیں۔ ذاتی مفادات کے پیچھے بند آنکھوں سے دوڑنے پر عوام سے پہلے خود اُنہیں سیاسی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ جیسا کہ پڑوسی ملک بھارت میں شدت پسندی سیاسی عمل کا حصہ بن کر اِس وقت مسندِ حکمرانی پر براجمان ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

نیر حیات قاسمی

نیر حیات قاسمی

مصنف نے پنجاب یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا ہوا ہے۔ نجی شعبے سے میں ملازمت کرتے ہیں۔ معروف ادیب جناب احمد ندیم قاسمی صاحب کے نواسے ہیں اور ان کے معتبر ادبی جریدے ’’فنون‘‘ کے مدیر بھی ہیں۔ آپ کی ٹوئٹر آئی ڈی nhqasmi ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔