گائناکالوجسٹس پیسے کی خاطر نارمل کیسز کو آپریشنز میں بدلتی ہیں؟

ڈاکٹر رابعہ خرم درانی  اتوار 15 اکتوبر 2017
سیزیرن کے اصل اسباب کیا ہوتے ہیں؟ ایک ماہر گائناکالوجسٹ بتاتی ہیں راز کی باتیں۔ فوٹو : فائل

سیزیرن کے اصل اسباب کیا ہوتے ہیں؟ ایک ماہر گائناکالوجسٹ بتاتی ہیں راز کی باتیں۔ فوٹو : فائل

’’بی بی! تم بہت کمزور ہو، آٹھواں بچہ ہے، پیٹ میں پانی کی مقدار بھی زیادہ ہے اور بچے کی پوزیشن بھی سیدھی نہیں۔ تمہارا کیس نارمل نہیں ہو سکتا‘‘

’’ باجی! میرے سارے بچے نارمل ہوئے، سب سے چھوٹا 9 سال پہلے، پتہ بھی نہیں چلا، گھر میں منٹ بھی نہیں لگا اور میں فارغ ہو گئی‘‘

’’بی بی! وہ 9 سال پہلے کی بات ہے، اب تمہاری عمر39 سال ہے اور دو بچوں میں وقفہ بھی لمبا ہے۔ اتنی ساری وجوہات میں سے ایک دو بھی ہوں تب بھی آپریشن ہی ہونا چاہیے۔ ’’دیکھو! تمہاری جلد کی رنگت بھی پیلی زرد ہے اور پیر بھی سوجے ہیں، یہ ٹیسٹ لکھ کردیتی ہوں، چیک کراؤ،کل دکھا لینا‘‘

’’باجی! آج تک میں نے کبھی خون ٹیسٹ نہیں کرایا، اب اس کی کیا ضرورت ہے؟ میری ساس کہتی ہے کھانے پینے کی طرح بچہ پیدا کرنا بھی عام سی بات ہے۔  میرا کچھ سانس زیادہ پھولنے لگا تھا تو آپکے پاس آ گئی کہ کوئی سیرپ لکھ دیں گی۔ آپ تو مجھے لمبا کام بتا رہی ہیں، دائی تو پہلے ہی کہہ رہی تھی کہ ڈاکٹر کے پاس مت جاؤ وہ تو آپریشن کے علاوہ کوئی دوسری بات ہی نہیں کرتیں‘‘۔

خاتون نے سلام کیا، گائناکالوجسٹ کے دیے ہوئے دوا کے سیمپل سمیٹے اور چلی گئی۔ پھر اس کی خبر تب ملی جب گھر میں کوشش کے باوجود ترچھے بچے نے پیدا ہونے سے انکار کردیا تو سرکاری اسپتال میں بڑے آپریشن سے مردہ بچہ پیدا کروایا گیا۔ بڑھی ہوئی شوگر اور تیز بلڈ پریشر کے ساتھ ساتھ خون کی شدید کمی نے کیس پیچیدہ بنا دیا تھا۔ زچہ کی جان بمشکل بچائی جا سکی۔ دائی اماں تب بھی اصرار کررہی تھیں’ بچہ پیدا ہو جانا تھا، بس! لیڈی ڈاکٹر نے آپریشن جلدی کر دیا‘۔

یہ ایک عام تصویر ہے جو روز مرہ پریکٹس میں ہرگائناکالوجسٹ کے ہاں دیکھی جاسکتی ہے، اسے زچہ کا کیس کرنے سے پہلے اسکے عزیز و اقارب سے بحث کا کیس لڑنا پڑتا ہے۔ خصوصاً ایسے مریض جو بالکل آخری لمحے ایمرجنسی میں پہنچتے ہیں، پریشان، تھکے ہوئے، خوفزدہ اور غصے میں۔ انھیں اس لمحے ایک پروفیشنل، کام سے کام رکھنے والے ڈاکٹر سے زیادہ ایک ہمدرد مسیحا کی طلب ہوتی ہے جو کام کے ساتھ ساتھ نفسیات کی بھی ماہر ہو۔ ڈاکٹر بھی گوشت پوست کا انسان ہوتی ہے، اسے مریض کے فائدہ اور نقصان کو میڈیکل کے اصولوں کے ترازو میں تول کر مریض کے نارمل کیس یا آپریشن کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔بعض مریضوں کے عزیز اتنے سمجھدار ہوتے ہیں کہ انہیں آپریشن کی وجہ بتائی جائے تو وہ مان لیتے ہیں لیکن سب ایسا نہیں کرتے۔

چار بچے نارمل پیدا کرنے کے بعد پانچویں بچے کے لئے آپریشن کیوں کرنا پڑا؟ کیا ماں کی شوگر، بچے کا سائز اور وزن میں اضافہ سبب بنا؟ ماں کا تیز بلڈ پریشر زچہ اور بچہ کے لیے خطرناک تھا یا چار بیٹیوں کے بعد ملنے والا پہلا بیٹا اتنا قیمتی سمجھا گیا کہ اس کے لیے نارمل ڈلیوری کا خطرہ مول لینا مناسب نہ سمجھا گیا؟ ان تمام وجوہات کو سمجھنے کا درست وقت ایمرجنسی نہیں ہوتا، تب صرف عمل کا وقت ہوتا ہے۔ ایسی صورتحال میں بیشتر ڈاکٹرز’’بچے کے دل کی دھڑکن خراب ہے ‘‘ اور ’’بچے کی جان خطرے میں ہے‘‘کہتی ہیں اور آپریشن کردیتی ہیں۔ اس وقت بھی مقصد ماں اور بچے کی بہتری ہوتا ہے نا کہ پیسہ۔ یہ غلط العام خیال اتائی نرسوں اوردائیوں کا پھیلایا ہوا ہے۔

آئیے! سیزیرین کی دیگروجوہات بھی جان لیتے ہیں:

ماں کی وجوہات
٭ماں بہت کم عمر ہو یا ضعیف العمر، اس کیلیے محفوظ طریقہ وضع حمل آپریشن ہے٭ماں کی کولہے کی ہڈی کا تنگ ہونا، ایسے میں واحد صورت آپریشن ٭ماں کا بلڈ پریشر انتہائی زیادہ ہونا یا دورے پڑنا۔ اس میں جسم پر سوجن اور پیشاب میں پروٹین کا اخراج ہوتا ہے۔ یہ انتہائی سیریس ایمرجنسی ہے جو ماں اور بچے کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے٭ پہلے دو یا دو سے زیادہ آپریشن ہوچکے ہوں٭پرانے زخم میں درد کا ہونا ٭ماں میں درد کو برداشت کرنے کی ہمت ختم ہونا/تھک جانا ٭دردوں کے باوجود رحم کا منہ نہ کھلنا٭پیدائش کے راستے میں رکاوٹ کا ہونا مثلاً رسولی، آنول کا آگے آ جانا۔اگر آنول اس طرح ڈیویلپ ہو کہ اسکی خون کی نالیاں رحم کی گہرائی تک چلی جائیں، ایسے میں بیشک بچہ نارمل پیدا ہو یا بڑے آپریشن سے، ماں کی زندگی بچانے کیلیے آپریشن کر کے کم از کم آنول اور زیادہ سے زیادہ رحم بھی نکالنا پڑ سکتا ہے ٭ماں کی خواہش پر بھی آپریشن کیا جاتا ہے جب وہ نارمل ڈلیوری نہ چاہتی ہو۔

بچہ کی وجوہات
٭پہلا بچہ الٹا ہونا ٭بچے کی پوزیشن ترچھی یا مکمل ٹیڑھی ہو٭بچے کے دل کی دھڑکن بہت تیز یا بہت مدھم ہو ٭بچے کا رحم میں پاخانہ کردینا ٭بچہ زیادہ وزن اور سائز کا ہو٭ بچے کا سر بڑا ہو یا اسکے سر میں پانی ہو۔ ایسا عموماً شوگرکے مریضوں میں ہوتا ہے یعنی بچہ کا سائز زیادہ بڑا ہوجاتا ہے۔عام طور پر بچہ اڑھائی سے تین کلوکا پیدا ہوتا ہے لیکن شوگرکی مریضہ کا بچہ چار ،پانچ کلو تک کا بھی ہو سکتا ہے۔ لیڈی ولنگڈن ہسپتال میں 8 کلو کا بچہ بھی پیدا ہواتھا ٭بچے کا چہرہ سامنے ہونا، اس صورت میں آپریشن کے سوا کوئی چارہ نہیں۔٭بچہ قیمتی ہونا، ویسے تو ہر بچہ قیمتی ہوتا ہے لیکن سات بیٹیوں کے بعد پیدا ہونے والا پہلا بیٹا یا شادی کے 20سال بعد ملنے والی بیٹی یا پھر چار پانچ حمل ضائع ہو جانے کے بعد ملنے والی اولاد، اس لئے اِس قیمتی حمل کو بھی آپریشن سے ڈلیور کیا جاتا ہے۔

ماں اور بچے سے متعلق مذکورہ بالا وجوہات کے علاوہ بھی کچھ چیزیں اہم ہوتی ہیں۔ مثلاً بچے کی تھیلی میں پانی کی مقدار کم، بہت کم یا بہت زیادہ ہونا۔ فوڈ پائپ کا بچے کی گردن میں لپٹ جانا یا اس کا ٹوٹ یا اکھڑ جانا اور خون کا ضائع ہونا، اس کا بچہ کی پیدائش سے پہلے رحم سے باہر نکل آنا، ماں کے رحم اور بچے کی پوزیشن کا ایک دوسرے کی سیدھ میں نہ ہونا، دردوں کی حالت میں بچے کا غلط رخ پر گھوم جانا جس کی وجہ سے نارمل کے طور پر شروع کیا جانے والا کیس سیزیرین میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

اسی طرح ماں کی تکلیف کی شدت اور طوالت سے اقربا میں بے چینی ایک سبب ہوتی ہے۔ وہ ڈاکٹر کے پاس ایمرجنسی میںگئے، اس سے پہلے ڈاکٹر اور مریض ایک دوسرے سے ناواقف تھے یا بہت کم ملاقات تھی، اعتبار و اعتماد کا فقدان ہر دو طرف تھا۔ مریض یا اقربا کا ڈاکٹر کی صلاحیت پر عدم اعتماد اور اس کا اظہار بھی سبب بنتا ہے۔ ایک اور دباؤ جو سیزیرین کی شرح بڑھنے کی وجہ ہے، میڈیا کا ہر جگہ پہنچ جانا اور ہمیشہ ڈاکٹر کے خلاف پارٹی بننا ہے۔ اس سے ڈاکٹر کو اپنی ساکھ  خراب ہونے کا ڈر لگا رہتا ہے، اس لئے کسی برے نتیجے سے بچنے کے لیے بھی آپریشن کا فیصلہ نسبتاً جلد لے لیا جاتا ہے۔

نارمل وضع حمل کے لئے کیا کرنا چاہئے؟
زچہ حمل سے پہلے ڈاکٹر سے اپنی صحت کی بابت مشورہ کرے، جب تک اسکی صحت اگلے حمل کو پروان چڑھانے کیلیے مناسب نہ ہو تب تک  پرہیز کرے۔ عورت کی مثال ’کھیتی‘ سے دی جاتی ہے، جیسے زمین کو پہلی فصل کاٹنے اور دوسری فصل کا بیج بونے سے پہلے آرام کا وقفہ دیا جاتا ہے،بعینہ ماں کو بھی پہلے حمل اور رضاعت کے دورانیے کے بعد آرام کا وقفہ دیا جانا چاہیے۔ زمین کو سینچا جاتا ہے، اس کی مٹی میں پانی کی ترائی کی جاتی ہے، ضروری کھاد نمکیات ،ادویات اور ہل چلا کر مٹی میں آکسیجن کا تناسب بہتر کر کے اسے نئی فصل کیلیے تیار کیا جاتا ہے ۔عورت کیلئے بھی اندازاً حمل کے9 ماہ  اور  رضاعت کے بعد تین سے چھ ماہ کا وقفہ ہوناچاہئے۔یہ وقفہ کم و بیش تین ، ساڑھے تین سال کا بنتا ہے۔ دو حمل کے دوران میں یہ وقفہ نہ صرف خاتون کی صحت کیلئے لازم ہے بلکہ وہ اس دوران میں اپنے پچھلے بچے کے حسین بچپن سے بھرپور لطف اندوز بھی ہوتی ہے۔ خاتون کی صحت اس حد تک بحال ہونے دیجیے جو اولین حمل سے پہلے والدین کے گھر میں تھی ، اس کے خون اور کیلشیم کی کمی دورکیجیے، کسی قسم کی متعدی بیماری ہوتواسکا علاج بھی کرالیں۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتاہے کہ گھر کی معیشت پر بھی ایک وقت میں مزید ایک ہی فرد کا بوجھ پڑتا ہے۔ اوپر تلے حمل اچھی بھلی تنخواہ کمانے والے مرد کو بھی کولہو کا بیل بنادیتے ہیں۔

وقفے کے بعد اگلا مرحلہ حمل کا ہے۔ جیسے ہی خاتون کو حمل کی خوشخبری ملے  وہ اللہ کریم کا شکر ادا کرنے کے بعد سب سے پہلے کسی مناسب، اچھی ساکھ کے حامل گائنی اسپتال میں اپنا نام درج کرائے، اسے ’بکنگ وزٹ‘ کہا جاتا ہے۔ اس وزٹ میں خاتون کے ابتدائی ٹیسٹس سے اس کی ابتدائی صحت جانچی جاتی ہے۔ عموماً آغاز میں چھ ٹیسٹ کروائے جاتے ہیں۔1۔ خون کا گروپ، 2۔خون کا مکمل معائنہ، 3۔خون میں شوگر کی مقدار، 4، 5۔خون میں کالے یرقان کے جراثیم بی اور سی کے دو ٹیسٹ اور 6۔ پیشاب کا مکمل معائنہ۔  رپورٹس میں کسی بیماری کی تشخیص ہوجائے تو اس سے متعلقہ مزید ٹیسٹس کرائے جا سکتے ہیں مثلا شوگر کا شک پڑنے پر گلوکوز چیلنج ٹیسٹ یا کالے یرقان کا علم ہونے پر جگرکا ٹیسٹ۔

مغربی ممالک میں تھائی رائیڈ کے ٹیسٹ اس ابتدائی چیک اپ کا روٹین پروٹوکول ہیں، پاکستان میں یہ ایک مہنگا ٹیسٹ ہے اس لیے اگر خاندانی ہسٹری ہو یا خاتون آئیوڈین کی کمی والے علاقے سے تعلق رکھتی ہو تب یہ ٹیسٹ تجویزکیا جاتا ہے۔ آج کل تھیلیسیمیا پر بہت کام ہو رہا ہے، خون کے مکمل معائنے میں خون کے خلیے بہت زیادہ مقدار میں اور بے حد چھوٹے سائز میں نظر آئیں تو فولاد کی شدید ترین کمی یا تھیلیسیمیا کی تشخیص کے ٹیسٹ لازماً کرانے چاہئیں۔

ابتدائی ٹیسٹ اچھے آجائیں تو ڈاکٹر حاملہ خاتون کو فولک ایسڈ کی گولی تجویز کرے گی۔ دل خراب ہونے، متلی یا قے کی شکایت کیلیے ’ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن‘ سے منظورشدہ کیٹاگری اے کی ادویات تجویز کی جا سکتی ہیں، تاہم یاد رکھیںکہ تقریباً50 فیصد خواتین کو حمل میں آنے والی قے بچپن سے سنی یا دیکھی دوران حمل متلی کی کہانیوں کے سبب آتی ہے باقی 50 فیصد کا سبب ہارمونز میں تبدیلی ہوتی ہے۔ خوراک کے شیڈول میں معمولی سی تبدیلی، لیموں اور سبز قہوے کے استعمال، چکنائی اور دیر سے ہضم ہونے والی خوراک سے احتراز سے اس مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ رات کا کھانا ہلکا کردیجیے، سونے سے پہلے آدھ گھنٹے کی سیر جس میں ڈکار آ جانے سے  صبح کی متلی سے نجات مل جاتی ہے۔ اگر پھر بھی مسئلہ حل نہ ہو تو آئینے کے سامنے کھڑی ہو جائیے، اپنا نام لے کر خود کو سمجھائیں کہ اب مجھے قے نہیں آئے گی، یہ سب میرے کنٹرول میں ہے، مجھے کوئی خوراک بری نہیں لگتی اور کسی خوشبو سے ابکائی نہیں آسکتی ۔ انشاء اللہ ان ہدایات پر اچھی طرح عمل پیرا ہونے والی خواتین کو دوا لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ حمل کے آغاز میں پیٹ کے نچلے حصے میں درد کے بغیر کھنچاؤسا محسوس ہوگا، اس سے خوفزدہ مت ہوں کیونکہ بچہ اور بچہ دانی بڑے ہو رہے ہیں لیکن درد کی صورت میں فوراً ڈاکٹر سے ملیں۔

حمل کے آغاز میں پہلے دو الٹرا ساؤنڈ دو ہفتے کے فرق سے کیے جاتے ہیں تاکہ بچے کی نارمل گروتھ کا ریکارڈ رکھا جا سکے۔ عموماً پہلا الٹرا ساؤنڈ6 سے 7 ہفتے کی عمر پراور دوسرا 8 سے 9 ہفتے کی عمر پر کیا جاتا ہے۔ اس الٹرا ساؤنڈ کا مقصد حمل کی تشخیص کو کنفرم کرنا، حمل ٹھہرنے کی جگہ، ایک یا جڑواں یا زیادہ حمل کی تشخیص کرنا ہے۔ دوسرا سکین بچے کی گروتھ اور جڑواں بچے ہونے کی صورت میں ان دونوں کی گروتھ کے ایک دوسرے پر اثر کی تشخیص بھی کرتا ہے۔ کسی خاص صورتحال یعنی دو سے زیادہ بچے یا حمل کے قیمتی نہ ہونے کی صورت میں اگلے الٹرا ساؤنڈ کم از کم ایک ماہ کے وقفے سے کرانے چاہئیں۔

بہتر ہے کہ مریضہ اپنے اگلے وزٹ کی تاریخ اپنی ڈاکٹر سے طے کرکے ڈاکٹر چیمبر سے باہر نکلے تاکہ آپ کے ساتھ آپ کی ڈاکٹر بھی پابند ہو جائے۔کوشش کیجیے کہ ڈاکٹر کا فون نمبر آپ کے پاس ہو اور ڈاکٹر کی فون میموری میں بھی آپ کا رابطہ نمبر آپکے نام سے محفوظ ہو۔ مریضہ پر چند ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں کہ ہر چھوٹے موٹے کام کے لیے ڈاکٹر کو فون نہ کریں، فون نمبر صرف ایمرجنسی میں استعمال کیلیے دیا جاتا ہے، رات تین بجے آپکو بھوک لگ جائے تو  ڈاکٹر کو فون کرکے کھانے کی اجازت طلب مت کریں۔ ڈاکٹر کا فون آپ کے پاس امانت ہے، اسے اپنے تک محدود رکھیے اور اپنے فون ہی سے ڈاکٹر کو فون ملایے۔آپکا نمبر  ڈاکٹر کے پاس آپکے نام سے محفوظ ہوگا، وہ آپکو پہچان کر فون اٹھائیں گی نظرانداز نہیں کریںگی۔ ظاہر ہے کہ اجنبی نمبر ہر کوئی نہیں اٹھاتا۔ مریضہ اپنے شوہر، بھائی یا دیور کے فون سے ڈاکٹر کا نمبر ملائے گی تو اس کال کے بعد ڈاکٹر کا وہ نمبر ڈیلیٹ کر دے گی۔

بعض خواتین کو کنفرم نہیں ہوتا کہ ان کی ڈلیوری سسرال میں ہو گی یا دوسرے شہر میں مقیم میکے میں۔ ایسی صورت میں دونوں شہروں میں ایک ایک ڈاکٹر سے رابطہ رکھیے اور اپنی ڈاکٹرز کو بھی اس بارے میں واضح بتایے۔ ایسی باتیں چھپانے کا کوئی فائدہ نہیں، ڈاکٹر کو اتفاقاً پتا چلنے کی صورت میں بلاوجہ موڈ خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔ آپ اپنے عمل میں درست ہیں، اس لئے ڈریے مت !

حمل کے ابتدائی تین ماہ میں سخت جسمانی مشقت ، ازدواجی تعلقات، قبض اور غیرضروری سفر سے ہر ممکن پرہیز رکھیے۔ ہوائی سفر مکمل منع ہے۔ آپ فعال ضرور رہیں، چہل قدمی کریں لیکن گیلے کپڑوں سے بھری وزنی ٹوکری اٹھا کر چھت پر کپڑے پھیلانے مت جائیں۔ اس کیلئے گھر کے کسی فردکو مدد کیلیے پکاریے یا وزن کو چھوٹے حصوں میں تقسیم کر لیجیے۔

پانچویں ماہ میں 18 سے 22 ہفتے کے دوران ایک اسپیشلسٹ الٹرا ساؤنڈ کروایے۔ یہ فیٹل اناملی سکین (foetal anomaly scan ) کہلاتا ہے اور بچے کی صحت، گروتھ کے ساتھ ساتھ بچے میں کسی ابنارمیلٹی کی تشخیص کرتا ہے۔ تھیلیسیمیا کیرئیر والدین کے بچے کا بھی یہاں اندازہ ہو جاتا ہے کہ بچہ یہ موروثی بیماری لے کر پیدا ہوگا یا صحت مند۔ اسی اثنا میں ڈاکٹر آپ کے خون کے ٹیسٹس بھی کروا چکی ہوگی جس کے مطابق فولاد یا ملٹی وٹامنز تجویز کرے گی۔ بعض سنٹرز میں اس مرحلے پر شوگر چیلنج ٹیسٹ پہلی بار یا دوبارہ کیا جاتا ہے۔ دوران حمل ہونے والی شوگر کی میعاد وضع حمل ہے، اس لئے یہ مستقل بیماری نہیں۔ دورانِ حمل شوگر کا بہترین کنٹرول انسولین سے ہوتا ہے لیکن تازہ ترین ریسرچ نے ’میٹ فارمین‘ نامی دوا بھی محفوظ قرار دی ہے، اس لئے انسولین کے ٹیکے سے خوفزدہ مریض سکھ کا سانس لیں۔ ماہانہ چیک اپ میں ڈاکٹر بلڈ پریشر اور وزن چیک کرتی ہیں۔ وزن ضرورت سے زیادہ بڑھ رہا ہو تو ڈاکٹر سے بات کیجیے تاکہ اسے کنٹرول کیا جا سکے۔ نارمل حمل ، عورت کو 12 سے 24 کلو تک وزن کا تحفہ دیتا ہے۔

دوران حمل ہائی بلڈپریشر انتہائی خطرناک ہوسکتا ہے، یہ زچہ اور بچہ دونوں کے لیے برا ہے۔ حاملہ کا بلڈ پریشر بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ حمل سے ہے۔ بچے کی آنول میں موجود خون کی نالیوں میں خون کے بہاؤ کو ملنے والی رکاوٹ اور حمل کے ہارمونز اس کی بنیادی وجوہات ہیں۔ اس کیلیے نمک ،انڈے ، گوشت اور چکنائی سے مکمل پرہیز کے ساتھ دوا کا پابندی سے استعمال دونوں قیمتی جانوں کی حفاظت کا ضامن ہے۔ اپنی روٹین میں سیر کو بھی ضرورشامل رکھیے۔ بلڈ پریشر کو 135/85 تک یا اس سے نیچے رہنا چاہیے۔ اس سے زیادہ ہونے کی صورت میں پرہیز اور دوا میں سستی مت کیجیے۔ بلڈ پریشر کی زیادتی، پاؤں، چہرے یا تمام جسم پر سوجن کا آنا، وزن بڑھنا اور پیشاب میں ایلبیومن نامی پروٹین کا اخراج انتہائی خطرناک علامات ہیں۔ ایسی صورت میں خاتون کو اسپتال میں جلد داخل ہونا چاہیے تاکہ محفوظ ماحول میں بلڈ پریشر کنٹرول کیا جاسکے۔

اگر حاملہ بی پی کے بڑھنے سے غنودگی یا بیہوشی میں چلی گئی ہے یا اسے جھٹکے/ دورے کی کیفیت آ گئی ہے تو یہ شدید ایمرجنسی ہے جو ایک یا دونوں کی جان لے سکتی ہے۔ اگر وقت قریب ہو تو بچے کی پیدائش بھی کرائی جا سکتی ہے لیکن حمل کی مدت کم ہونے کی صورت میں ڈاکٹر انجکشنز کے ذریعے بی پی کنٹرول کریںگی، ساتھ ہی ساتھ بچے کے پھیپھڑوں کی میچورٹی کے انجکشن بھی دیے جائیںگے تاکہ شدید حالات میں وقت سے پہلے بچے کی پیدائش کرانا پڑ ہی جائے تو بھی بچے کے بچنے کے امکانات زیادہ ہوں۔ شوگر کی صورت میں بھی یہی اینابولک اسٹیرائیڈ انجکشن ماں کو دیا جاتا ہے تاکہ بچے کی جان کو محفوظ بنایا جا سکے۔ ٹیٹنس یعنی تشنج سے بچاؤ کے کم از کم دو ٹیکے جو چار ہفتے کے فرق سے لگائے جاتے ہیں انہیں ہر صورت میں لگوائیں۔ یہ ٹیکے حکومتی ٹیمیں گھر گھر جا کر بالکل مفت بھی لگاتی ہیں۔ بہت مناسب ہے کہ  ساتویں ماہ میں ڈاکٹر مریضہ کو وٹامن ڈی کا اوورل انجکشن بھی پلا دیں۔ یہ ماں اور بچے کی ہڈیوں کے لیے مفید ہے۔

مریضہ کا بلڈ گروپ اگر پازیٹو یا ماں اور باپ دونوں کا گروپ نیگیٹو ہے تو بہترین ہے لیکن نیگیٹو گروپ والی ماں جس کے شوہر کا بلڈ گروپ پازیٹو ہو، اس کیلیے چند احتیاطی تدابیر ضروری ہیں۔ اگر پہلا حمل ہے اور 9 ماہ کے دوران حمل کے حوالے سے کوئی خاص واقعہ پیش نہیں آیاتو ڈلیوری کے فوراً بعد بچے کا بلڈ گروپ چیک کروایا جاتا ہے۔ اگر بچے کا گروپ باپ پر ہے یعنی پازیٹو، ایسی صورت میں زچہ کو اینٹی ڈی ٹیکے کی ضرورت پڑتی پے جس کی قیمت چند ہزار روپے ہے۔ یہ اسی والد سے پیدا ہونے والے اگلے پازیٹو گروپ کے بچے کی زندگی کو محفوظ بناتا ہے۔ یہ ٹیکہ زچگی کے بعد پہلے 72 گھنٹوں کے اندر اندر دیا جانا چاہیے۔ بچہ ضائع ہونے یا دوران حمل پیش آنے والے چند حادثات کی صورت میں یہ ٹیکے دوران حمل بھی دیے جاتے ہیں اور زچگی کے بعد بچے کا پازیٹو گروپ کنفرم کرکے دوبارہ بھی لگائے جاتے ہیں۔ اگر ایک ماں نے کسی وجہ سے ٹیکہ نہیں لگوایا اور وقت گزر گیا تو اگلے حمل میں تین سے چار دفعہ یہی ٹیکے لگانے پڑ سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر سے بات کر لیجیے۔ یہ ٹیکے نہ صرف بچے کی زندگی بچاتے ہیں بلکہ اسے مختلف بلڈ گروپس کی وجہ سے پیدا ہونے والے پیدائشی نقائص سے بھی محفوظ رکھتے ہیں۔

پیدائش کے فوراً بعد بچے کی شوگر چیک کی جاتی ہے جو ماں کو دی جانے والی شوگر کی ادویات کے زیر اثر کم ہوسکتی ہے، اسے فوراً گلوکوز سے کنٹرول کر لیا جاتا ہے۔ یہ ابتدائی شوگر ٹیسٹ بچے کی جان بچانے کے لیے انتہائی اہم ہے، جب تک ماں کی ادویات کا اثر نومولود کے خون میں رہے گا( عموماً 48 سے 72 گھنٹے) بچے کی شوگر کم ہوتی ہے۔ ایسے بچے کا وزن بھی زیادہ ہوتا ہے، اس لئے یہ بچہ دوسرے بچوں کی نسبت جلد بھوکا ہوجاتا ہے، اسے چھوٹے وقفوں کے بعد فیڈ کرایا جاناچاہیے۔

ہائی بلڈ پریشر والی خاتون کا بچہ کم وزنی اور نازک ہوتا ہے۔ عموماً 9 ماہ کا بچہ ایک سے ڈیڑھ کلو وزن کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ اس قدر نازک بچہ زچگی کی تکلیف، درد اور گھٹن برداشت نہیں کرسکتا۔ نیز نارمل ڈلیوری میں دردیں سہنے کی صورت میں زچہ کا بی پی مزید بڑھ سکتا ہے جو دورے، بے ہوشی سے بڑھ کر دماغ یا جگر میں خون بہنے تک کا باعث بن سکتا ہے۔ شدید صورتحال میں ’ہیلپ(HELLP) سینڈروم‘بھی ہو سکتی ہے جس میں ہائیپرٹینشن( H) لیور انزائمز کی زیادتی (EL ) اور خون جمانے والے خلیوں کی تعداد میں کمی (L P )شامل ہے۔ یہ جان لیوا کیفیت ہے، شدید حالت میں جسم کی ہر شریان سے خون بہنے لگتا ہے اور جان بچانا ناممکن تو نہیں لیکن انتہائی زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔

ہائی بلڈ پریشر کی مریضہ کا بچہ فوراً کم وقت میں، بنا درد کے پیدا کرایا جانا چاہیے اس کے لیے بھی سیزیرین بہترین آپشن ہے۔ہاں! بلڈ پریشر کی معمولی زیادتی جو دوا اور پرہیز سے کنٹرول ہو، اس صورت میں ایمرجنسی سیزیرین کی اجازت اور تیاری کے ساتھ نارمل ڈلیوری کی کوشش کی جانی چاہیے۔ یہی حکمت عملی نارمل شوگر کنٹرول والی ایسی خاتون جن کا بچہ زیادہ وزنی نہ ہو اس کے لیے بھی اپنائی جانی چاہیے۔

یاد رکھیے! پہلے بچے کی پیدائش سے پہلے آپ کا جسم اس مرحلے سے کبھی نہیں گزرا۔ پہلے بچے کی دفعہ بڑے آپریشن کی کوئی واضح انڈیکیشن نہ ہونے کے باوجود نارمل ڈلیوری کے امکانات 50 فیصد ہوتے ہیں، کیونکہ 8 سے 12 گھنٹے کا زچگی کا یہ سخت مرحلہ کوئی بھی رخ اختیار کرسکتا ہے۔ ماں کی درد سہنے کی ہمت ختم ہو سکتی ہے، بچہ آکسیجن کی کمی کا شکار ہوسکتا ہے یا رحم زچگی کی ادویات پر مطلوبہ رسپانڈ نہیں کرتی، ایسی صورت میں درد شروع نہیں ہوتا یا درد کے باوجود بچے کی پیدائش کا راستہ نہیں بنتا۔ ایسے میں بھی نارمل ڈلیوری کی کوشش کے باوجود آخری حل آپریشن ہی رہ جاتا ہے۔

وہ خواتین جن کا پہلا آپریشن کسی اتفاقیہ، غیر مستقل وجہ سے ہوا، مثلاً بچہ الٹا تھا یا آکسیجن کی کمی کا شکار ہوگیا تھا، ایسی صورت میں پہلے آپریشن کے باوجود اگر پہلی اور دوسری زچگی میں وقفہ کم از کم دو سال کا ہے اور پہلے آپریشن کے نشان میں کوئی تکلیف درد یا کھنچاؤ نہیں، بچہ بھی سیدھا ہے، باقی تمام معاملات بھی درست ہیں تو نارمل ڈلیوری کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسے کیس میں بھی نارمل ڈلیوری کے چانسز پہلی ڈلیوری کی طرح 50 فیصد ہی ہیں لیکن اگر پہلا آپریشن کسی مستقل وجہ سے ہوا ،مثلاً کولہے کی ہڈی تنگ ہے، ایسی صورت میں نارمل ڈلیوری کی کوشش غلط ہوگی۔ تنگ ہڈی کا مطلب چار بچے چار سیزیرین اور بس!

اگرکسی کے چار سیزیرین ہوگئے لیکن کوئی بچہ نہیں بچا یا بیٹیاں ہیں بیٹا نہیں، ایسی کسی خصوصی صورتحال میں خاتون کی جسمانی کیفیت ، صحت ، پرانے آپریشنز، کمزوری وغیرہ کو مدنظر رکھتے ہوئے اُنہیں پانچویں سیزیرین کا چانس دیا جاتا ہے۔ میڈیکل اصول کے مطابق چار سے زیادہ آپریشن منع ہیں۔ اگر دو، تین بچے ہیں تو بھی مزید آپریشن سے بچیں لیکن ایسی کسی خصوصی صورتحال میں پانچواں آپریشن کرانا پڑے تو کوشش کیجیے کہ ٹریٹری کئیر اسپتال یا سینئر گائناکالوجسٹ جو مشکل کیسز میں مہارت رکھتی ہو، ہی سے کیس کرائیں۔ گائناکالوجسٹ کو بھی چاہیے کہ اقربا کو اس کیس سے وابستہ خطرات سے بھی کماحقہ آگاہ کر دے۔ ایک ڈاکٹر جس نے آپ کی مریضہ کے پہلے چار کیس کیے ہیں، پانچویں کے لیے بھی وہی ڈاکٹر اچھا انتخاب ہیں۔

چند تجاویز
٭سیزیرین سے بچنے کی خواہش مند خواتین دورانِ حمل گھر کے کام کاج خصوصا پوچا لگانے اور چہل قدمی کی پابندی کریں، جب تک ممکن ہو مکمل درست طریقے سے پانچ وقت کی نماز کا اہتمام کریں،اپنی ڈاکٹر سے رہنمائی لیتی رہیں اور نویں ماہ میں پیڑو کی ورزشیں کریں۔

٭آپ کو جس معالج کی نیت میں کھوٹ محسوس ہو، اسکے پاس مت جائیں۔

٭ڈاکٹر کا انتخاب سوچ سمجھ کر کریں اور پھر اسے اپنا مخلص ترین دوست مان لیں۔ یقین رکھیں کہ ایک ڈاکٹر کبھی اپنے مریض کا نقصان نہیں چاہتا۔

٭اگر آپ افورڈ نہیں کرسکتے تو پرائیویٹ کلینک یا ہسپتال مت جائیں۔ اب سرکاری ہسپتالوں میں بھی بہترین کام ہو رہا ہے، وہاں ڈلیوری کا طریقہ کار طے کرنے کا پیمانہ ’’پیسہ‘‘ نہیں ہوتا۔

٭اگر آپ نے پرائیویٹ ڈاکٹر ہی سے ڈلیوری کرانے کا فیصلہ کیا ہے تب 9 ماہ اسی ڈاکٹر سے متعلق رہیں، اسکی ہدایات پر نہ صرف عمل کریں بلکہ ڈاکٹر کو واضح طور پر اپنے ارادے سے آگاہ کریں کہ میں آپ پر اعتماد کرتی ہوں اور آپ ہی سے ڈلیوری کروانے کا ارادہ رکھتی ہوں۔

٭گائناکالوجسٹ سے دوستانہ بہن یا بیٹی جیسا رشتہ استوار کریں۔ ایسا کرنے سے ڈاکٹر آپ کے ساتھ ایک جذباتی بندھن میں قید ہو جائے گی اور آپ کی بہتری اُسکے پیش نظر ہو گی نہ کہ پیسہ۔

٭اپنی ڈاکٹر سے کیس کی نوعیت، ڈلیوری کی تاریخ، نارمل اور آپریشن پر آنے والے اخراجات پر بات کر لیں۔ بعد کی بدمزگی سے بچاؤ کیلیے ہر دو صورتوں کی فیس طے کرلیں۔ میری چند ساتھی ڈاکٹروں نے ایک نیا طریقہ وضع کیا ہے، وہ نارمل ڈلیوری کیس اور آپریشن کی فیس برابر لیتی ہیں۔ اس طرح ان پر یہ الزام کوئی نہیں لگا سکتاکہ وہ پیسوں کیلیے بڑا آپریشن کرتی ہیں۔

کیا کھاناچاہئے؟
حاملہ عورت کی خوراک اسکے بچے کی خوراک کا بنیادی ذریعہ ہے۔ اس لیے ماہرین خوراک حاملہ عورت کو مختلف اقسام کی غذائیں استعمال کرنے کا مشورہ دیتے ہیں تاکہ بچے کی بڑھوتری کے لیے ضروری غذائی اجزا بہم پہنچائی جاسکیں۔

دوران حمل بنیادی غذائیت
امریکن کالج آف گائنی اینڈ آبس (ACOG )کے مطابق ایک حاملہ عورت کو کیلشیم، فولک ایسڈ، فولاد اور لحمیات کی ضرورت ایک عام عورت سے زیادہ ہوتی ہے۔ ان چار بنیادی غذائی اجزاء کی اہمیت مندرجہ ذیل ہے:

٭فولک ایسڈ: غذا میں موجود فولک ایسڈ کو فولیٹ کہا جاتا ہے۔ یہ وٹامن بی کی ایک قسم ہے، یہ دوران حمل بچے کے اعصابی نظام جس میں دماغ اور حرام مغز شامل ہیں کی نشوونما میں مددگار ہوتا ہے اور اعصابی نظام کو کسی پیدائشی نقص سے محفوظ رکھتا ہے۔ عام گھریلو خوراک سے فولک ایسڈ کی مطلوبہ مقدار حاصل نہیں ہوتی، اس لیے حمل کی خواہشمند خاتون کو حاملہ ہونے سے ایک ماہ پہلے سے 400 مائیکرو گرام فولک ایسڈ روزانہ لینا چاہیے۔ دوران حمل اس مقدار کو 600 مائیکروگرام تک بڑھا دینا چاہیے۔ یہ مقدار حمل میں دی جانے والے طاقت بخش ادویات (ملٹی وٹامن گولیوں) میں عام طور پر پائی جاتی ہے۔ فولک ایسڈ ہرے پتوں والی سبزیوں، اضافی طاقت والے دلیہ ،ڈبل روٹی، روٹی اور پاستا میں پایا جاتا ہے۔

٭کیلشیم: معدنیات کی ایک قسم جو بچے کی ہڈیوں اور دانتوں کی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ایک ماں مناسب مقدار میںکیلشیم استعمال نہیںکرتی تو قدرتی نظام اس کی ہڈیوں میں سے کیلشیم حاصل کر کے بچے کی ہڈیاں بنا دیتا ہے، اس طرح ماں کی ہڈیاں کمزور اور بھربھری ہونے لگتی ہیں۔ اچھے معیار کی ڈیری مصنوعات میں وٹامن ڈی شامل کیا جاتا ہے، یہ ایک اہم غذائی جزو ہے جو کیلشیم میں جذب ہوکر جزو بدن بننے کے عمل میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ بچے کے ڈھانچے کی تشکیل میں کیلشیم اور وٹامن ڈی شانہ بشانہ کام کرتے ہیں۔ امریکن کالج آف گائنی اینڈ آبس کے مطابق 19 سال یا اس سے بڑی عمرکی حاملہ خواتین کو روزانہ 1000 ملی گرام کیلشیم درکار ہوتا ہے جبکہ 14سے 18 سال کی ماؤں کے لیے 1300 ملی گرام کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیلشیم دودھ دہی پنیر فورٹی فائیڈ مشروبات ، مچھلی (دو اقسام سارڈین اور سارڈین) اور چند ہرے پتوں والی سبزیوں مثلا بند گوبھی یا چائنا گوبھی میں پایا جاتا ہے۔

٭فولاد: ایک حاملہ عورت کو 27 ملی گرام فولاد روزانہ کی بنیاد پر چاہیے۔ یہ مقدار ایک عام عورت کی روزانہ ضرورت سے دوگنا ہے۔ بچے کو زیادہ آکسیجن بہم پہنچانے کیلیے زیادہ خون درکار ہوتا ہے اور اس خون کی تیاری کیلیے معدنیات کی اضافی مقدار کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوران حمل فولاد کی کم مقدار، خون کی شدید کمی یعنی اینیمیا کا باعث بنتی ہے جس کے نتیجے میں خاتون تھکاوٹ اور متعدی امراض کا آسان شکار ثابت ہوتی ہے۔ معدنیات خصوصاً فولاد کے بہترین انجذاب کیلیے فولاد سے بھرپور خوراک کے ساتھ وٹامن سی استعمال کیا جانا چاہیے مثلاً شامی کباب یا روسٹ کے ساتھ مالٹے کا تازہ جوس پئیں۔ فولاد کے حصول کیلیے گوشت (بیف ،مٹن ) پولٹری(مرغ گوشت اور انڈہ) مچھلی دالیں اور چنے اور فورٹی فائیڈ سیریلز استعمال کیجیے۔ ہرے پتوں والی سبزیاں سیب اور کلیجی بھی فولاد کا اچھا ذریعہ ہیں۔

فولاد کے ساتھ وٹامن سی اور کیلشیم کے ساتھ وٹامن ڈی کا استعمال بہترین نتائج کا ضامن ہے۔ اسی طرح فولاد اور کیلشیم کو ایک ہی وقت میں لینے سے دونوں ضائع ہو جاتے ہیں یعنی فولاد کی گولی کو دودھ کے ساتھ لینا غلط ہے۔

٭لحمیات (پروٹین): اسکی اہمیت انسانی جسم میں ایسے ہی ہے جیسے کسی عمارت کی تعمیر میں اینٹوںکی۔ عموماً ہمارے ہاں خواتین کو اس بنیادی جزو کی غذائی قلت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا کیونکہ گوشت نہ بھی مہیا ہو تب بھی دالوں میں لحمیات کی مناسب مقدار موجود ہوتی ہے۔خوراک کا یہ بنیادی جزو بچے کے اعضائے رئیسہ مثلاً دل اور دماغ کے بننے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پروٹین گوشت، مچھلی، مرغی، خشک دالوں /بینز انڈوں اور ڈرائی فروٹس سے حاصل کی جا سکتی ہے۔

دوران حمل ماں کی خوراک ایسی ہونی چاہیے جو ماں اور بچے ہر دو کی جسمانی ضرورت کو پورا کر سکے۔ زچگی سے پہلے کی غذائی ضروریات پوری کرنے کیلیے خوراک میں مندرجہ ذیل پانچ غذائی گروہ شامل ہونے چاہییں:

1۔ پھل،2۔سبزیاں،3۔چربی کے بغیرگوشت، 4۔اجناس، 5۔دودھ یا دودھ سے بنی مصنوعات

حاملہ کے لیے کھانے کی پلیٹ کو اس انداز میں بھرنا چاہیے کہ اس کی نصف پلیٹ میں پھل اور سبزیاں ہوں، ایک چوتھائی میں گوشت اور ایک چوتھائی میں اجناس (دالیں) ہوں۔ہر کھانے میں دودھ، دہی یا پنیر کا استعمال ضرور کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔