پاکستان میں جمہوریت کو کس سے خطرہ ہے؟

 ہفتہ 14 اکتوبر 2017
پاکستان میں جمہوریت اور آمریت کی چپقلش کوئی نئی بات نہیں۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان میں جمہوریت اور آمریت کی چپقلش کوئی نئی بات نہیں۔ (فوٹو: فائل)

ریاست کے استحکام اور پائیدار امن کےلیے جہاں حکمرانو ں کو بہتر حکمت علمی مرتب کرنے کی ضرورت ہوتی ہے وہاں دفاعی اداروں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان طویل مدت سے حالتِ جنگ میں ہے۔ وطن عزیز کے دگرگوں حالات کو انتشاری سوچ کے حامل افراد (جو اعلی منصب پر بھی فائز ہیں) ’’پرائی جنگ‘‘ کا نام دے رہے ہیں۔

غیر ملکی آقاؤں کو خوش کرنے والے ہم وطنوں سے گذارش ہے کہ جنگ چاہے اپنی ہے یا پرائی، مارا بہرحال پاکستانی ہی جا رہا ہے۔ تو ذرا اقامہ زدہ پاکستانی وزرا بیان بازی سے پہلے حالات کی نوعیت کا جائزہ لے لیا کریں تو مہربانی ہوگی۔ یہی بات مذہبی سیاست کرنے والوں کےلیے بھی ہے۔ کون بھول سکتا ہے پر آشوب 16 دسمبر 2014 جب آرمی پبلک اسکول پشاور میں معصوم بچوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ اگرچہ پاک فوج نے سفاک دہشت گردوں کو موقع پر ہی نشان عبرت بنادیا تاہم بعد ازاں اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف نے ملک میں دیرپا قیام امن کی خاطر 20 نکات پر مشتمل ’’نیشنل ایکشن پلان‘‘ پیش کیا تھا۔

حکومت کا یہ اقدام یقیناً قابل ستائش ہے جبکہ اس سے قبل سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے ’’غیر تفصیلی‘‘ تین گھنٹے پر مشتمل پریس کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں ریاستی دہشت گردوں کےلیے کہا تھا، ’’یار ان پر ڈرون حملے ہو رہے ہیں یار! ان کے بچے مر رہے ہیں۔‘‘ بعد ازاں ریاست کے معصوم خاک و خون میں لت پت ہوگئے اور پاکستان دشمنوں نے بڑے فخر سے ذمہ داری قبول کرلی جس کے فوری بعد نیشنل ایکشن پلان کے تحت آرمی آپریشن ’’ضرب عضب‘‘ کا آغاز ہوا۔

اس بیس نکاتی ایجنڈے کو آئے تین سال کا عرصہ بیت گیا ہے۔ بدقسمتی سے حکومت اپنے تیار کردہ ایجنڈے پر پورا نہیں اترسکی ہے جس کا اعتراف سابق وزیر دفاع جبکہ موجودہ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے بھی کیا کہ حکومت نے اپنا کام نہیں کیا جبکہ مسلح افواج نے اپنی ذمہ داری ادا کی ہے۔

میری ناقص معلومات کے مطابق پاکستان کے علاوہ کسی بھی ملک کی فوج ریاستی امور میں اس حد تک متحرک نہیں ہوتی ہوگی جتنی کہ افواج پاکستان وطن عزیز کی خدمت پر مامور ہے۔ پاکستان میں الیکشن ہوں تو پاک فوج کی خدمات لی جاتی ہیں۔ مردم شماری پاک فوج کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔ کرکٹ میچ کا انعقاد مسلح افواج کی ذمہ داری ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بارش کے بعد نکاسی آب کا مسئلہ حل کرنا بھی پاک افواج کا ہی کام ہے۔ مقام افسوس یہ ہے کہ جو کام جمہوریت کو کرنے چاہئیں، ہمارے نام نہاد جمہوری حکمران وہ تو کر نہیں سکتے ہیں البتہ میمو گیٹ اور ڈان لیکس سے متعلق امور بڑی دلچسپی اور جواں مردی سے ادا کرتے ہیں۔

خیر جناب! ڈان لیکس کے معاملے پر مجھے ’’جواں مردی‘‘ کا لفظ استعمال کرنا چاہیے تھا کہ نہیں، اس کا فیصلہ پڑھنے والے خود کرلیں کیونکہ اس بابت کچھ ’’مرد مار‘‘ صنف نازک کی کاوشوں کی چہ مگوئیاں بھی سنی گئی ہیں۔ بہرحال آ گے چلتے ہیں۔

پاکستان میں آج کل احتسابی عمل کا سلسلہ بھی چل رہا ہے۔ بعض حلقوں کی جانب سے اصرار ہے کہ عسکری قوتوں سے بھی پوچھ گچھ کی جائے۔ یقیناً یہ درست بات ہے مگر کیا یہ مناسب نہیں کہ عوام ان حکمرانوں سے یہ پوچھے کہ آپ حضرات ہمارے ووٹوں کی وجہ سے معززین میں شمارہوئے ہیں۔ اقتدار پر منتخب ہونے کے بعد آپ صاحبان نے کیا کیا جمہوری اقدام کیے؟ ایک فوجی ڈکٹیٹر توآئین کو معطل کرکے اقتدار پر قابض ہوتا ہے مگر ایک آئینی حکمران کو کیا قباحت ہے کہ وہ ملک میں تعلیم و صحت کے نظام کو بہتر نہیں بناسکتا؟ بنیادی ضروریات اور روزگار کے بہتر مواقع نہیں دے سکتا؟ یہاں تو یہ ہے کہ ایک ڈکٹیٹر بیواؤں کے منافع میں اضافہ کرتا ہے جبکہ آئینی وزیراعظم اس میں کمی کردیتا ہے۔ ایک ڈکٹیٹر پانی کے مسائل حل کردیتا ہے جبکہ آئینی حکمران اس ملک کو ساڑھیوں کے تحفے ارسال کرتا ہے جو پاکستان کو پانی کی فراہمی بند کرنے کی دھمکی دیتا ہے۔

چلیے مان لیا کہ پڑوسی ممالک سے تعلقات اچھے ہونے چاہئیں مگر جب بھارت کی وزیر خارجہ پاکستان کے خلاف زہر اگلتی ہیں تو ہماری وزارتِ خارجہ کا قلم دان بیان سے قاصر کیوں ہوتا ہے؟ ہمارے یہاں سابق آرمی چیف ضیاء الحق کے آمرانہ دور اور صحافیوں کو کوڑے لگنے کی باتیں تو زبان زد عام ہیں مگر جمہوری دور کے ان اخبارات اور صحافیوں کا کوئی ذکر نہیں کرتا جن پر جمہوری آمر نے پابندی عائد کی تھی۔

وطن عزیز میں ’’نادیدہ ہاتھ‘‘ کو ’’ڈیڈی‘‘ اور ’’روحانی باپ‘‘ کہنے کی رسم بھی تو جمہوری آمروں نے ہی ڈالی تھی ناں؟ سوال یہ ہے کہ پاکستان کی جمہوریت اس قدر کمزور کیوں ہے؟ ہماری جمہوریت کو کسی بھی کام کی شفافیت کےلیے غیر جمہوری قوت کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟ جمہوری نمائندے پولیس ٹریننگ کےلیے بھی عسکری ادارے کو مصروف عمل کرتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ کرکٹرز کی کارگردگی کی بہتری کےلیے بھی فوجی ٹریننگ کے محتاج ہیں۔

پاکستان کی جمہوریت گواہ ہے کہ نوجوان نسل میں دہشت گردی و انتہا پسندی کے رحجانات پر عسکری قیادت تشویش کا اظہار کررہی ہے جبکہ مرکز اور صوبوں کی حکومتیں اس بابت کوئی حکمت علمی مرتب دینے سے معذور نظر آرہی ہیں۔ وفاقی حکومت کو ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کا صدمہ ہے جبکہ اگر میں صوبوں صرف سندھ کی بات کروں (چونکہ میرا تعلق سندھ سے ہے) تو یہاں کی حکومت بھی قومی اسمبلی میں اپنے قائد حزب اختلاف کو بچانے کےلیے مصروف عمل ہے۔

اب ذرا کوئی اس ملک کے عوام کو بتائے گا کہ پاکستان میں جمہوریت کو خطرہ کس سے ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express۔com۔pk پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔