ترقی کا مجرب و کامیاب اصول

عابد محمود عزام  جمعرات 28 فروری 2013

نائن الیون کے حادثے سے جہاں امریکی حکومت کو ایک بڑا جھٹکا لگا، وہیں تمام امریکی ائیر لائنز کمپنیوں کو بھی شدید دھچکا لگا۔ لوگ اتنے سہم گئے کہ انتہائی مجبوری کے علاوہ بذریعہ ائیر لائن سفر کرنا چھوڑ دیا۔ ائیر لائنز کے بجائے ٹرانسپورٹ کو ترجیح دینے لگے۔ امریکا کی تمام ائیر لائنز کمپنیاں آہستہ آہستہ دم توڑنے لگیں۔ چند ہی دنوں میں تقریباً دیوالیہ ہو گئیں۔ اندریں حالات امریکا کے تھنک ٹینک سر جوڑ کر بیٹھے۔ طے پایا کہ اگر ائیر لائن کمپنیوں کو کریش ہونے سے بچانا ہے تو ان کے اخراجات کم کیے جائیں، 40 فیصد ملازمین کو فوری نکال دیا جائے۔

تمام ملازمین کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنی ڈیوٹی سے بھی زیادہ وقت کمپنی کو دیں۔ ملازمین اس پالیسی سے سخت پریشان ہو گئے۔ان حالات میں امریکا کی مشہور و معروف ساؤتھ ویسٹ ائیر لائنز (Airlines West South ) کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ہرب کیلہر (Herb kelleher) نے اپنی کمپنی سائوتھ ویسٹ کو سنبھالا دینے کے لیے ایک انوکھا طریقہ اختیار کیا۔ کمپنی کے ’’سی ای او‘‘ ہرب کیلہر نے فیصلہ کیا کہ کمپنی کو ڈوبنے سے بچانا ہے۔ دوسری کمپنیوں کی طرح ملازمین کو نکالنا ہے نہ ہی ڈیوٹی سے زیادہ وقت لینا ہے۔ یہ کام صرف ملازمین کے تعاون سے ہی پایہ تکمیل تک پہنچ سکتا ہے۔ لہٰذا اس نے اپنے ماتحتوں کو محبت دینے کا فیصلہ کیا ۔ اس نے اعلان کر دیا کہ کسی بھی ملازم کو نہیں نکالا جائے گا، لیکن جب تک ہم اپنی حالت رفتہ بحال نہیں کر لیتے اس وقت تک سب کی تنخواہیں کم کرنا ہماری مجبوری ہے۔ اس نے عہد کیا کہ اپنی کمپنی کو دنیا کی ٹاپ ٹین کمپنیوں کی لسٹ میں لانا ہے۔

اس سلسلے میں اس نے پہلا کام تو یہ کیا کہ تمام48 ہزار ملازمین کی تصویریں اپنے ساتھ ہیڈ آفس میں چسپاں کر دیں۔ ملازمین جب اپنے ’’سی ای او‘‘ ہرب کیلہر کے ساتھ اپنی تصویروں کو لگا دیکھتے تو بہت خوش ہوتے۔ ہر ملازم اپنے آپ کو کمپنی کا مالک تصور کرتا۔ دوسرا کام اس نے یہ کیا کہ کچھ افراد کے ذمے صرف یہ کام سونپا کہ وہ تمام ملازمین کی ڈیٹ آف برتھ (سالگرہ کا دن) اچھی طرح یاد رکھیں۔ جس دن کمپنی کے کسی بھی ملازم کی سالگرہ ہوتی تو ہرب کیلہر کمپنی کے تمام ملازمین کو سالگرہ کے کارڈ بھجواتا اور جس کی سالگرہ ہوتی اس کو خود اپنے ہاتھ سے دستخط کر کے سالگرہ کا کارڈ بھیجتا۔ جب ملازم کے پاس ہرب کیلہر کے ہاتھ سے دستخط شدہ سالگرہ کا کارڈ پہنچتا تو وہ خوشی سے پھولے نہ سماتا۔ وہ سمجھتا کہ شاید ہرب کیلہر کا میرے ساتھ کوئی خاص تعلق ہے، کیونکہ 48 ہزار ملازمین میں سے صرف میری ڈیٹ آف برتھ کو یاد رکھنا اور اس پر اپنے ہاتھ سے دستخط کر کے کارڈ بھیجنا خاص الفت کے بغیر ممکن نہیں۔ وہ ہر ملازم کی سالگرہ پر ایسے ہی اپنے ہاتھ سے دستخط کر کے کارڈ بھیجتا۔ جس سے تمام ملازمین بہت خوش تھے اور کام بہت ہی دلجمعی کے ساتھ کرنے لگے۔

اس نے کچھ افراد کے ذمے صرف یہ کام سونپا کہ وہ تمام ملازمین کے مکمل نام اچھی طرح یاد کریں، حتیٰ کہ وہ ملازمین کے ان ناموں کے بارے میں پتہ لگواتے جو صرف اس کے قریبی دوستوں کو ہی معلوم ہوتے ۔ جب ہرب کیلہر وزٹ کے لیے باہر نکلتا تو سب کے نام جاننے والے افراد بھی اس کے ساتھ ہوتے تھے، جب ہرب کیلہر کسی ملازم کے قریب سے گزرتا تو اس ملازم کا مکمل نام لے کر بلاتا۔ اس سے حال احوال پوچھتا اور کچھ دیر گپ شپ بھی لگاتا۔ ملازم سوچتا کہ میرا یہ نام تو صرف میرے قریبی دوستوں کو ہی معلوم ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہرب کو میرے ساتھ خصوصی لگائو ہے جو اتنے قریبی نام سے بھی واقف ہے۔ ہرب کیلہر سے تمام ملازمین ہی بہت خوش تھے، ملازمین ڈیوٹی کے وقت میں بھرپور محنت سے کام کرتے۔

وہ سوچتے کہ ہرب کیلہر اگر ہم سے اس قدر محبت کرتا ہے تو ہمیں بھی محبت کے بدلے میں محبت اور محنت کا مظاہر ہ کرنا چاہیے۔ اب ان کا ایک ہی ہدف تھا کہ کسی طرح سائوتھ ویسٹ ائیر لائن کمپنی کو سنبھالا دیا جائے۔ ملازمین کی محنت اور ہرب کیلہر کے اصول محبت سے رفتہ رفتہ کمپنی ترقی کرنے لگی۔ تمام ملازمین کمپنی کے کام کو اپنا کام سمجھ کر کرنے لگے۔ مثلاً کسی بھی جہاز کو تیار ہونے میں جتنا وقت لگتا اس سے آدھا وقت لگنے لگا، کیونکہ جب جہاز تیار ہونے لگتا تو وہاں موجود تمام ملازمین فوری فوری کام مکمل کر لیتے۔ کمپنی کے ملازمین نے جتنا ہو سکا کمپنی کو آرام دہ بنا دیا۔ ملازمین کے اچھے رویے کی وجہ سے لوگ خود بخود ہی اس کمپنی میں سفر کرنے لگے۔ سائوتھ ویسٹ کمپنی نے اتنی تیز رفتاری سے ترقی کی کہ کچھ ہی عرصے میں سائوتھ ویسٹ ائیر لائن کمپنی کا شمار دنیا کی ٹاپ ٹین کمپنیوں میں ہونے لگا۔

کامیابی کی ایک اور حیرت انگیز مثال، میں گزشتہ دنوں کراچی سے شایع ہونے والے ہفت روزہ میگزین ’’شریعہ اینڈ بزنس‘‘ (Sharia and Business) میں ملاحظہ کر رہا تھا۔ اس دیدہ زیب میگزین میں ہرب کیلہر جیسے کامیابی حاصل کرنے والے لوگوں کے حالات و واقعات اور ان کی زندگی کا نچوڑ، ان کی کامیابی کے اصول، ہر قسم کے کاروبار میں کامیابی کے طریقے اور تجارت و کاروبار میں شرعی لحاظ سے رہنمائی کی جاتی ہے۔ ’’شریعہ اینڈ بزنس‘‘ نے گزشتہ شمارے میں دنیا کے امیر ترین شخص ’’کمپارڈ‘‘ کی اسٹوری شایع کی ہے، جس کے مطابق اس نے بھی ماتحتوں سے اصول محبت کو اپنا شعار بنایا اور پھر رفتہ رفتہ اس کا کاروبار اتنا بڑھا کہ فوربس میگزین نے اس کے اثاثہ جات کا اندازہ 33 بلین امریکی ڈالر لگایا ہے۔

جس کے نتیجے میں وہ دنیا کا چوتھا امیر ترین آدمی قرار پایا ہے۔ یہی اصول کمپارڈ کو پرچون فروش سے ’’آئی کیا‘‘ کمپنی تک لے گیا۔ یہاں تک کہ2004ء کے شروع میں سویڈن کے ایک تجارتی رسالہaffare) (Veckans نے ایک رپورٹ شایع کی جس میں بتایا کہ جنوبی سویڈن کا ایک دیہاتی لڑکا جس نے اوائل جوانی میں ’’سائیکل پر ماچس فروخت کرنے سے‘‘ کاروبار کا آغاز کیا تھا آج اس نے دنیا کے امیر ترین شخص ’’بل گیٹس‘‘ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ کمپارڈ کی کمپنی ’’آئی کیا‘‘ کا شمار دنیا کی مشہور و معروف کمپنیوں میں ہوتا ہے، یہ کمپنی 200 سے زائد اسٹوروں، 75ہزار سے زائد ملازمین اور 12ملین سالانہ آمدنی کے ساتھ دنیا کے 31 ممالک میں کاروبار کر رہی ہے۔ کمپنی کا مالک آج بھی ملازمین سے محبت کے اصول پر کاربند ہے اور مزید ترقی کر رہا ہے۔

اگر ہرب کیلہر اور کمپارڈ کی کامیابی اور ان کے اپنائے ہوئے اصولوں پر غور کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ انھوں نے وہی اصول اپنایا جو اسلام نے ہمیں دیا ہے۔ اسلام اپنے ماتحتوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتا ہے۔ اسلام ایک جامع نگرانی کا نظام فراہم کرتا ہے، جس میں صرف کام کی نگرانی ہی نہیں بلکہ ماتحتوں کے اخلاق، عادات و اطوار اور جذبات و حقوق کا خیال رکھنا بھی شامل ہے۔ بخاری شریف کی حدیث ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور قیامت کے دن ہر ایک سے اس کی ذمے داری کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ تمام نگرانوں سے ان کے ماتحتوں کے بارے میں پوچھ گچھ ہو گی۔ اس طرح نگرانی کرنا منتظم کے لیے نہ صرف کاروباری نقطہ نظر سے ضروری ہے بلکہ یہ اس کا دینی فریضہ بھی ہے۔ آج اکثر ماتحتوں کے ساتھ ویسا سلوک نہیں کیا جاتا جیسا کیا جانا چاہیے۔ اس لیے وہ کام کو مجبوری سمجھ کر کرتے ہیں فریضہ سمجھ کر نہیں۔ اگر ان کے ساتھ شریعت کے مطابق برتائو کیا جائے تو سب کا بھلا ہو، شریعت نے وہ قوانین دیے ہیں جن پر عمل کر کے ہر کوئی کامیاب ہو سکتا ہے، چاہے ہرب کیلہر و کمپارڈ جیسے غیر مسلم ہوں یا کوئی مسلمان ہو۔ آج بھی جو ترقی کی منزلیں طے کرنا چاہتا ہے ، اس کو ان اسلامی اصولوں پر عمل کرنا ہو گا جن پر ہرب کیلہر اور کمپارڈ نے عمل کر کے کامیابی حاصل کی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔