خود ستائیاں

رفیع الزمان زبیری  اتوار 15 اکتوبر 2017

’’خود ستائیاں‘‘ ڈاکٹر اشفاق احمد ورک کی کتاب خود نوشت خاکوں کا مجموعہ ہے، انھیں اس کتاب کے مرتب کرنے کا خیال اس وقت آیا جب اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے کی تیاری کے دوران میں انھوں نے یہ دیکھا کہ ’’ جہاں جہاں ہمارے خاکہ نگاروں نے دیگر شخصیات کی دلچسپ جملوں، چنچل تشبیہات اور شوخ اسالیب کے ساتھ شناخت پریڈ کرائی ہے وہاں اپنی ذات کے گوشوارے مرتب کرتے ہوئے بھی کسی رو رعایت سے کام نہیں لیا ہے۔‘‘

اشفاق احمد کی اس کتاب میں تمام خاکے جوں کے توں مصنفین کی کتابوں سے لے گئے ہیں۔ یہ بڑے اور نوآموز دونوں قلم کاروں کی ’’طبع آزمائیاں‘‘ ہیں اپنا خاکہ بھی انھوں نے خود کھینچا ہے۔

غالب لکھتے ہیں ’’میں ایک شخص گوشہ نشین، فلک زدہ، اندوہ گیں، نہ اہل دنیا نہ اہل دیں، ایک سپاہی زادہ، ہیچ مداں اور دل افسردہ و رواں فرسودہ، ہاں ایک طبع موزوں اور فارسی زبان سے لگاؤ رکھتا ہوں ۔ ابتدائے فکر سخن میں بیدلؔ، اسیر و شوکت کے طرز پر ریختہ لکھتا تھا۔ پندرہ برس کی عمر سے پچیس برس تک خیالی مضامین لکھا کیا۔ دس برس میں بڑا دیوان جمع ہوگیا۔ آخر جب تمیزآئی تو اس دیوان کو دورکیا ، اوراق یک قلم چاک کیے۔ دنیا دار نہیں، مکار نہیں، خوشامد میرا شعار نہیں جس میں جو صفات دیکھتاہوں، وہ بیان کرتاہوں۔ میں عربی کا عالم نہیں مگر نرا جاہل بھی نہیں، بس اس زبان کی لغات کا محقق نہیں، فارسی میں مبدأ فیاض سے مجھے وہ وسعت گاہ ملی ہے اس زبان کے قواعد و ضوابط میرے ضمیر میں اس طرح جاگزیں ہیں جیسے فولاد میں جوہر۔‘‘

ابن انشا ایک خاکہ لکھتے ہیں۔ ’’دو آبے کا دہقانی کہیں بھی پہنچ جائے، لاہورکہ دہلی، لندن کہ کیلی فورنیا، اپنی ادا سے فوراً پہچاناجاتا ہے۔ یہ لوگ لکھتے بھی ہیں تو وارث شاہ کے استاد کے قبول مونج کی رسی میں موتی پروتے ہیں لیکن ابن انشا کو موتی چنداں نہیں بھاتے، اپنی مونج کی رسی میں وہ کاٹھ کے منکے پروتا ہے۔ وہ خاموش ہے، عزلت گزیں ہے، بھلکڑ ہے، ذمے داریاں قبول نہیں کرتا تاکہ نبھانی نہ پڑیں۔فخر صرف اپنے دوستوں پر کرتا ہے جو اس پر اس کی سادگی، بھولپن یا حمق پر جان چھڑکتے ہیں اور ناز اٹھاتے ہیں۔ عشق بھی کرتا ہے جو لوگ سمجھتے ہیں کہ میاں قیس کے انتقال کے ساتھ یہ قوم ناپید ہوگئی ہے وہ اس سے ملیں۔ ہماری نہیں اس کی فرمائش ہے۔

انشا سے ملو اس سے نہ روکیںگے و لیکن
اس سے یہ ملاقات نکالی ہے کہاں سے

مشہور ہے ہر بزم میں اس شخص کا سودا
باتیں ہیں بہت شہر میں بدنام میاں کی

اردو ادب میں ہمارا جو مقام ہے (ہماری اپنی نظر میں) اس کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، ہم کچھ کہیں گے تو کسی کی زبان تھوڑی پکڑی جاسکتی ہے لیکن لوگ اسے خود ستائی پر محمول کریںگے‘‘

شاہد احمد دہلوی اپنے خود نوشت خاکے میں فرماتے ہیں۔ ’’ میری زندگی کے دو پہلو ہیں، ادب اور موسیقی۔ میں خوش ہوں کہ میں نے دونوں کے علم و فن کی بری بھلی خدمت کی اور خدا کے فضل سے نیک نامی کے ساتھ موسیقی کوئی گھٹیا چیز نہیں نہ اس سے دلچسپی لینا گھٹیا پن ہے۔ (میں خود میوزک سے کماتا ہوں) لیکن موسیقی کے جاننے والے تو ملک میں اور لوگ بھی ہیں، شاہد احمد ہندوستان اور پاکستان میں صرف ایک ہے۔ اس صرف ایک سے ہم نے فائدہ نہیں اٹھایا۔ اسی صرف ایک کی عظمت سے ہم واقف نہیں۔ خیر ہیرا یا موتی کسی بہت ہی خوبصورت الماری میں رکھا ہو یا کسی معمولی طاق میں، اس کی قدر و قیمت یا اس کی عظمت میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘

سعادت حسن منٹو لکھتے ہیں۔ ’’یوں تو میں منٹو کو اس کی پیدائش ہی سے جانتاہوں ہم دنوں اکٹھے ایک ہی وقت گیارہ مئی 1912 کو پیدا ہوئے لیکن اس نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ خود کو کھچوا بنائے رکھے جو ایک دفعہ اپنا سر اور گردن اندر چھپالے تو آپ لاکھ ڈھونڈتے رہیں اس کا سراغ نہ ملے۔ لیکن میں آخر اس کا ہم زاد ہوں، میں نے اس کی ہر جنبش کا مطالعہ کر ہی لیا۔ لیجیے اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ یہ خر ذات افسانہ نگار کیسے بنا۔ تنقید نگار بڑے لمبے چوڑے مضامین لکھتے ہیں، اپنی ہمہ دانی کا ثبوت دیتے ہیں، شو پن ہار، فرایڈ، ہیگل، نٹشے، مارکس کے حوالے دیتے ہیں مگر حقیقت سے کوسوں دور رہتے ہیں۔ منٹو کی افسانہ نگاری دو متضاد عناصر کے تصادم کا نتیجہ ہے۔ اس کے والد خدا انھیں بخشے بڑے سخت گیر تھے اور اس کی والدہ بے حد نرم دل۔ ان دونوں پاٹوں کے اندر پس کر یہ دانۂ گندم کس شکل میں باہر نکلا ہوگا اس کا اندازہ آپ کرسکتے ہیں۔ اچھا اب اس کی افسانہ نگاری کے متعلق سنیے۔ وہ اول درجے کا فراڈ ہے۔ لوگ کہتے ہیں وہ اردو کا بہت بڑا ادیب ہے اور میں یہ سن کر ہنستاہوں۔ اس لیے کہ اردو اب بھی اسے نہیں آتی۔ وہ لفظوں کے پیچھے ایسے بھاگتا ہے جیسے کوئی جالی شکاری تتلیوں کے پیچھے اور وہ اس کے ہاتھ نہیں آتیں۔ یوں تو منٹو کے متعلق مشہور ہے کہ وہ راست باز ہے لیکن میں اس سے اتفاق کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ اول درجے کا جھوٹا ہے لیکن منٹو جھوٹ بقدر کفایت بولتا ہے۔ میں آپ کو پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ منٹو جس پر فحش نگاری کے سلسلے میں کئی مقدمے چل چکے ہیں بہت طہارت پسند ہے لیکن میں یہ کہے بغیر نہ رہ سکتا کہ وہ ایک ایسا پا انداز ہے جو خود کو جھاڑتا، پھٹکتارہتا ہے۔‘‘

کنہیالال کپور اپنے خود نوشت خاکے میں لکھتے ہیں ’’کنہیالال کپور بڑی دلچسپ شخصیت کے مالک تھے۔ انھیں دیکھ کر بیک وقت ابراہیم لنکن، قائد اعظم محمد علی جناح اور آر ایل اسٹیوینس کا خیال آجاتا تھا۔ وہ حد سے زیادہ لمبے اور دبلے تھے جب بیٹھے ہوتے تو معلوم ہوتا کھڑے ہیں اور جب کھڑے ہوتے تو ایسا لگتا کھڑے نہیں بلکہ گرنے کی تیاری کررہے ہیں۔ خدا نے انھیں ایک ایسا چہرہ عطا فرمایا تھا جس میں شنکر جیسا کارٹونسٹ تو دلچسپی لے سکتا تھا لیکن چغتائی جیسا مصور دیکھ کر ناک بھوں چڑھالیتا۔ جن چیزوں کے پیچھے ایک عام آدمی بھاگتا ہے مثلاً عورت، دولت، قوت وغیرہ ان کا انھوں نے کبھی پیچھا نہ کیا حالانکہ کرسکتے تھے اگر چاہتے کیونکہ خدا نے انھیں کافی لمبی ٹانگیں دی تھیں۔ بہت کم لکھا کرتے تھے۔ زیادہ لکھنے سے اس لیے گھبراتے تھے کہ زیادہ لکھنے سے آدمی گنجا ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں خواجہ احمد عباس اور کرشن چندر کی مثالیں دیتے تھے۔ لکھنے کو تو انھوں نے اردو میں سات چھوٹی چھوٹی کتابیں لکھیں لیکن ان کتابوں میں بہت کم مضمون کام کے ہیں۔ ایک بار راجندر سنگھ بیدی نے ان سے شکایت کی کہ آپ کی تحریروں میں اب وہ مزا نہیں جو پہلے ہوتا تھا۔ اس پر انھوں نے ہنس کر جواب دیا کہ میں تو وہی ہوں لیکن پڑھنے والے اب پہلے سے زیادہ چالاک ہوگئے ہیں‘‘

ممتاز مفتی اپنی خاکہ کشی کرتے ہیں۔ ’’ممتاز مفتی زندگی میں ربط سے محروم فرد ہے۔ پیدائشی طور پر چھوٹا آدمی ہے۔ ممتاز مفتی میں شدت ہے، ممتاز مفتی کو غصہ بہت آتا ہے، وہ غصہ جو بھوت بنادیتا ہے۔ عورت کے متعلق ممتاز مفتی کا رویہ کھٹا مٹھا ہے۔ ممتاز مفتی کو ہر عورت سے عشق ہے، بلا لحاظ رنگ و خدوخال چٹے رنگ پر تو اس کی جان نکلتی ہے۔ پیدائشی طور پر ممتاز مفتی کو فینٹسی کی بیماری لاحق ہے وہ خالی الذہن ہونے کی کیفیت سے محروم ہے۔ ممتاز مفتی ازلی طور پر اکیلا ہے۔ اس نے زندگی بھر نہ باقاعدہ ورزش کی ہے نہ سیر۔ ممتاز مفتی مہمان نوازی سے بڑا الرجک ہے۔ ممتاز مفتی نے عمر بھر کوشش کی ہے کہ اس کا برتاؤ ایسا نہ ہو جو معزز لوگوں کا ہوتا ہے اسی وجہ سے اس کی تحریر میں شوخی ہے، بے تکلفی ہے، چھیڑ ہے، گھر میں کسی کو ادب سے خصوصاً اس کی تحریروں سے دلچسپی نہیں، بیوی کہتی ہے کیوں خوامخواہ جھوٹی کہانیاں لکھ کر عاقبت خراب کررہے ہو، مفتی نے لکھ کر ادب پر کوئی احسان نہیں کیا نہ ہی خدمت کی ہے۔ الٹا ادب نے مفتی پر احسان کیا ہے کہ اسے اہمیت عطا کردی۔ زندگی بے مصرف نہیں رہی۔‘‘

قرۃ العین حیدر اپنا خاکہ لکھنے بیٹھتی ہیں تو انھیں یہ فکر ہوتی ہے کہ اپنا احوال رقم کرنے سے پہلے اپنے سارے گھرانے کا احوال رقم کرنا پڑے گا۔ کیونکہ ان سب سے الگ کوئی انوکھی ہستی قطعی نہیں ہیں۔ لکھتی ہیں ’’بہت کم کنبوں میں اتنا زیادہ قبیلے کا احساس ہوتا ہے اس کی وجہ غالباً مخصوص تہذیبی پس منظر ہے۔ ہمارا کنبہ اب بہت دور دور تتر بتر ہے۔ کچھ افراد سان فرانسکو میں ہیں، کچھ لندن میں اور بہت سے آبائی وطن میں ہندوستان میں رہتے ہیں۔ اپنے اور اپنے قبیلے کے متعلق اس فٹ نوٹ کا اظہار کرنے کے ساتھ یہ بھی عرض کردوں کہ ہم لوگ برخود غلط نہیں، ہمارے ہاں اکثر و بیشتر لوگوں کو اپنے متعلق بڑی غلط قسم کی اہمیت کا احساس ہے۔ ہمارا جو معاشرہ ہے اور جس طرح ہمارے ذہنوں کی تشکیل کی جاتی ہے اس کی وجہ سے لوگ یا تو احساس برتری کا شکار ہیں یا احساس کمتری میں مبتلا ہیں۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔