حالات بدل نہیں سکتے

رئیس فاطمہ  اتوار 15 اکتوبر 2017
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

کبھی کبھی جی چاہتا ہے، وہی زمانہ لوٹ آئے، 1970 سے پہلے کا ، جب زندگی میں ریڈیوکی بڑی اہمیت تھی، کتاب پڑھی جاتی تھی ، جس طرح آج لوگ نیا موبائل شوق سے خریدتے دکھاتے ہیں اور اس میں گم ہوجاتے ہیں اسی طرح 70 کی دہائی میں کتاب کلچر کی اہمیت تھی۔

ریڈیو زندگی کا لازمی جزو تھا، آوازوں کی دنیا کا ساتھی زندگی کی ضرورت بھی تھا، ڈرامے، گیت سنگیت، مذاکرے، خبریں، فلمی گیت یہ سب مل کر انسان کو محظوظ ہونے کا موقع دیتے تھے پھر ٹی وی آیا جو بلیک اینڈ وائٹ تھا زندگیوں میں بڑا سکون تھا افراتفری نہیں تھی، شام 6 بجے ٹی وی کے پروگرام شروع ہوتے تھے اور دس بجے اختتام کو پہنچ جاتے تھے۔ پیر کو چھٹی ہوتی تھی، لوگ اس دن بہت بور ہوتے تھے کیونکہ بلیک اینڈ وائٹ پروگراموں نے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنالیا تھا، آج چوبیس گھنٹے اور ساتوں دن ٹی وی چلتا ہے، رنگ بکھیرتا ہے لیکن کسی پروگرام میں جان نہیں۔

رہی سہی کسر سیاسی ٹاک شوز نے پوری کردی جو امر بیل کی طرح ٹی وی سے چمٹ گئے ہیں۔ یہ متعدی بیماری ایک چینل سے دوسرے کو لگی اور آج ٹڈی دل کی طرح اچھے پروگراموں کوکھا گئی۔ 70 کی دہائی تک ٹی وی میں بھی اخلاقیات تھیں، ایک دوسرے کو گالی گلوچ کا رواج نہ تھا۔ سیاستدان اپنی زبان کو قابو میں رکھتے تھے۔ زندگی بہت پرسکون تھی، اتنی ہلچل اور شور نہ تھا۔

آج ہر شخص فرسٹریشن کا شکار ہے، مایوسی اور پیروں تلے زمین نہ ہونے کا احساس بڑھتا جا رہا ہے۔ ٹی وی کے رنگا رنگ پروگرام دیکھ کر خاص طور پر جو مختلف چینلز سے مارننگ شو آتے ہیں نہ جانے کتنی ہی لڑکیاں احساس محرومی کا شکار ہوتی ہوں گی۔ مجھے ایسے پروگرام دیکھ کر خواہ وہ ڈرامے ہوں یا اسٹیج شو لاہور پی ٹی وی کا ایک لانگ پلے ہمیشہ یاد آتا ہے جس کا نام تھا ’’ فہمیدہ کی کہانی استانی راحت کی زبانی‘‘ جس میں فائزہ حسن اور خورشید شاہد نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔

ایک امیر گھرانے کی ملازمہ لڑکی سخت ڈپریشن کا شکار ہوجاتی ہے۔ وہ یہ سوچتی ہے کہ مالکان کے پاس اتنی دولت کہ سنبھالے نہ سنبھلے اور وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے ترسے۔ انسانی نفسیات اور غربت کے جال میں پھنسی فائزہ اور اس کی ماں لمحہ لمحہ کس طرح مرتی ہیں۔ آج بھی یہ ڈرامہ دکھایا جائے تو لوگ شوق اور دلچسپی سے دیکھیں گے۔ ایسا کیا تھا اس بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی کے پروگراموں میں؟ جو ہر شخص ذوق و شوق سے پروگرام دیکھتا تھا۔

پی ٹی وی کو پہلا اسٹیج شو ’’ضیا محی الدین شو‘‘ کرنے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ کیسی کیسی نامور ہستیاں اس پروگرام کا حصہ بنتی تھیں۔ ڈراموں کی بات کریں تو ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ بھارت میں ان کی بڑی مانگ تھی، لوگ، پتلی تماشا، ایک محبت سو افسانے، طوطا کہانی اور بہت سے سلسلہ وار ڈراموں کے علاوہ ہر ہفتے پیش ہونے والے لانگ پلے بھی منگوایا کرتے تھے۔ مقابلہ کریں تو پی ٹی وی کا ماضی بہت تابناک تھا۔ آج بھی ان پروگراموں کو لوگ یاد کرتے ہیں۔

موجودہ دورمیں ٹی وی چینلز تو کھمبیوں کی طرح نکل آئے، لیکن سب کا یہ حال ہے کہ ’’کاتا اور لے دوڑی‘‘ مارننگ شو کو لے لیجیے تو سوائے بھاری میک اپ، جیولری، بھڑکیلے کامدار لباس اور نت نئے ہیئر اسٹائل کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ اب تو عریانی بھی حصہ بن گئی ہے۔ محنت کہیں نظر نہیں آتی ہر جگہ میرٹ کا قتل عام، چند چہرے، چند رائٹرز اور چند پروڈکشن ہاؤسز کا غلبہ ہے۔ ملتی جلتی کہانیاں، امارت کا اظہار، بڑے بڑے عالی شان بنگلے اور ان میں رہنے والی مغرور اور متکبر عورتیں جن کی زندگی شاپنگ اور سیرسپاٹے کے دائرے میں گھومتی ہے۔

یہ مارننگ شو اور بے مقصد ڈرامے جیتے جاگتے انسانوں کو کس طرح احساس کمتری اور محرومی میں مبتلا کرتی ہیں۔اس کا اندازہ ان واقعات سے ہوتا ہے جب چوری ڈکیتی کرتے لوگ پکڑے جاتے ہیں۔ رشوت کا بازار بھی اسی لیے گرم ہے کہ نت نئے کھلنے والے شاپنگ مال میں خریداری کے لیے رقم چاہیے۔ بچوں کی فرمائشیں بیوی کے مطالبات انسان کہاں سے پورے کرے؟

شرافت اور خاندانی نجابت قصۂ پارینہ بن گئے۔ کہیں سے بھی اورکسی بھی طرح دولت جمع کرو،کسی پوش علاقے میں گھر خریدو یا کرائے پر رہو تاکہ لڑکیوں کے رشتے اچھی جگہوں سے آئیں۔ نودولتیوں کا راج ہے۔ کسی کو نہیں معلوم کہ ہزارگزکے بنگلے میں رہنے والے اچانک امیرکیسے ہوگئے؟ مالکوں کا اصل کام کیا ہے۔ دولت کے یہ انبار کہاں سے آئے؟ کس کی مجال ہے جو پوچھے۔ الٰہ دین کے چراغ کی باتیں پرانی ہوگئیں۔ اب پیسے کو پیسہ کھینچتا ہے۔

ایک طرف ملک کو لوٹ کا مال سمجھنے والے اور دوسری طرف ان لٹیروں کو عزت مآب بنانے والے اور ان سب کے پیروں تلے کچلے ہوئے عوام جن کی اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ سوسائٹی کی یہی افراط تفریط عوام میں غم وغصہ پیدا کرتی ہے۔ حقوق نہ ملنے پر ’’ چھین لو‘‘ کا نعرہ کارگر ہوتا ہے۔ بینک ڈکیتیوں، چوریوں اور اغوا برائے تاوان کے پیچھے یہی جذبہ ہوتا ہے کہ کم وقت میں امیر کیسے بنا جائے۔

بدقسمتی اس ملک کی یہ ہے کہ 68 سال سے مسلسل خائن، رشوت خور اور لٹیرے ملک پر قابض ہیں اور آیندہ بھی یہی رہیں گے۔ کیونکہ قومی اور صوبائی اسمبلی کی سیٹ خریدنے کے لیے کروڑوں روپے ایک عام آدمی کے پاس نہیں ہوتے۔ خواہ وہ پروفیسر ہو، ڈاکٹر ہو یا انجینئر ہو۔ اور پھر کروڑوں خرچ کرکے اسمبلی کا ممبر بننے والا پہلے ہی سال میں ایک کروڑ سے دوکروڑ بنانے کا گر جانتا ہے۔

حاتم طائی قسم کے شعبدہ باز جو کنگ میکر ہوتے ہیں۔ وہ ہر جگہ سخاوت کے اظہار کے لیے بے چین رہتے ہیں لیکن ایسی جگہوں پر جہاں چیک دیتے ہوئے اور مالی مدد کا اعلان کرتے ہوئے ان کی تصاویر اخبارات، سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز پہ دکھائی جائیں، لیکن یہ ’’سخی داتا‘‘ کبھی کسی ایسے ضرورت مند کی طرف توجہ نہیں کرتے جو سفید پوش ہو۔ یوں کہنے کو اپنے فون نمبرز اور ای میل ایڈریس پبلک کے لیے عام کرتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسے ضرورت مندوں کی میل کا جواب بھی نہیں دیتے۔

سارا کاروبار ’’مشہوری‘‘ کی شعبہ بازی کا ہے۔ کبھی دستر خوان سجا کر زمین پر قبضہ کرنے کی کہانیاں، کہیں یتیموں اور بیواؤں کا مال ہڑپ کرنے کی سچی کہانیاں ۔ پاکستان پر انھی لوگوں کا قبضہ ہمیشہ رہے گا۔ اور عالمی طاقتیں اس کمزوری سے فائدہ اٹھائیں گی۔ ملک صرف دعاؤں سے نہیں بچ سکتا۔ اس کے لیے واضح حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے جو یہاں ناپید ہے۔ کوئی بھی یہاں مخلص نہیں سب کو اقتدار چاہیے۔ گویا لوٹ مار کرنے کا سرٹیفکیٹ درکار ہے۔

ہم بار بار بے وقوف بنتے ہیں، ہر بارکٹھ پتلیاں میدان میں اتار دی جاتی ہیں ۔ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کون سی کٹھ پتلی تماشا دکھانے والی ہے۔ اس کی ڈور کن ہاتھوں میں ہے لیکن پھر بھی ہم خوش فہمی میں مبتلا ہوکر ووٹ دینے نکل پڑتے ہیں۔ ووٹ خرید لیے جاتے ہیں ، برادری اور صوبائی سسٹم، ووٹوں کی تقسیم کرتا ہے، پھر مذہبی اور مسلکی تضاد آتا ہے۔ یہ سلسلہ یونہی ملے گا، یاد کیجیے ایسٹ انڈیا کمپنی نے برصغیر پر کیونکر اقتدار حاصل کیا تھا۔ اب برطانیہ کی جگہ امریکا نے لے لی ہے، ایک اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد آمد ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔