ہمیں خود ہی زندہ ہونا پڑے گا

عبدالقادر حسن  اتوار 15 اکتوبر 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

امریکا بہادر نے ہمیں ایک بار پھر تھپکی دی ہے۔ صدرڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے ہماری ڈو مور کی خواہش پر عمل کیا ہے، انھوں نے پاکستان میں پاک فوج کے آپریشن میں امریکی خاتون اور اس کے کینیڈین خاوند اور تین بچوں کے پاکستان سے بازیاب ہونے کے بعد اسے پاک امریکا تعلقات میں مثبت پیش رفت قرار دیا ہے۔

بازیاب ہونے والے میاں بیوی کو افغانستان سے اغوا کیا گیاتھا اور ان کو کرم ایجنسی منتقل کیا جا رہا تھا، اطلاعات کے مطابق یہ کارروائی امریکی خفیہ اداروں کی جانب سے فراہم کردہ اطلاعات پر پاک فوج نے کی جب کہ اس بات کو پاک فوج کے ترجمان نے واضح کیا کہ پاکستان کی حدود میں فوجی کاروائیاں صرف پاک فوج ہی کرتی ہے اور کسی دوسرے ملک کی فورسز کاا س سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ وہ بیانیہ ہے جس کا اعادہ بار بار پاک فوج کی جانب سے کیا جا رہا ہے۔

پاکستان ایک خود مختار اور اس خطے کا اہم ترین ملک ہے جس کسی نے بھی اس خطے میں کوئی مہم جوئی کرنی ہے اس میں پاکستان کو شامل کیے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔ حالات و واقعات اس طرح کے ہیں کہ پاکستان نے عالمی برادری کی جانب سے ڈور مور کے مطالبے کو نہ صرف مسترد کر دیا بلکہ یہ مطالبہ کیا کہ دہشت گردی کی اس جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کیا جائے۔

پاک فوج کی جناب سے غیر ملکیوں کی بازیابی کے بعد پاکستان کے اس موقف کو مزید تقویت ملی ہے کہ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ملک ہے اور پاکستان میں دہشت گردی باہر سے کی جا رہی ہے اور یہ آپریشن بھی امریکی اور پاکستانی ایجنسیوں کی اطلاعات پر کیاگیا جس سے یہ بات مزید واضح ہو گئی کہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا مرکز افغانستان ہی ہے جہاں سے ہمارے دشمن افغانستان کی سر زمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں دہشت گرد کاروائیوں میں ملوث ہیں۔

افغانستان کے سابقہ صدر حامد کرزئی جو اپنے دور اقتدار میں مسلسل افغانستان کے حالات میں ابتری کا ذمہ دار پاکستان کو ہی ٹھہراتے رہے، وہ بھی اب یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ افغانستان میں دہشت گرد گروپوں کو امریکا سپورٹ کر رہا ہے اور داعش کو فعال کرنے میں امریکا کا مرکزی کردار ہے۔ امریکا کا دہشت گرد وں کو منظم کرنا اور ان کی کاروائیوں کی امداد ایک سوالیہ نشان ہے ۔ پاکستان مخالف افغانی لیڈر بھی اب حکمت عملی تبدیل کر رہے ہیں اور ان کی جانب سے پاکستان کے حق میں آوازیں خطے کی صورتحال میں تبدیلی کے اشارے ہیں۔

دوسری طرف پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف سخت موقف نے دنیا کی بڑی طاقتوں کی توجہ بھی حاصل کی ہے۔ امریکا جو ان طاقتوں کے ساتھ یک زبان ہو کر پاکستان کو مزید کاروائیوں کا کہہ رہا تھا پاک فوج کے آپریشن کے بعد باہمی تعلقات کو مثبت قرار دے رہا ہے حا لانکہ یہی امریکی صدر اوراس کے عہدیدار کچھ دن پہلے تک پاکستان پر اپنا دباؤ بڑھا رہے تھے۔ پاکستان اپنے اصولی موقف پر ڈٹ گیا ہے کہ دنیا کو پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کر نا ہو گا، یہ سب اس سخت موقف کے بعد سامنے آرہا ہے۔

دراصل بات یہ ہے کہ کسی نے باہر سے آکر ہمیں نہیں بچانا بلکہ ہم نے اپنے بچاؤ کی تدابیر خود ہی کرنی ہیں اور یہ بات جتنی جلد سمجھ آجائے اتنی ہی بہتر ہے ۔ لگتا یہی ہے کہ بات اب بن جائے گی کہ پاک امریکا تعلقات میں سرد مہری ختم ہونے کے آثار ہیں، ہر اختلاف یا جھگڑے کا حل بات چیت میں ہی ہے اور امریکا کو ہماری ضرورت ہے، اب یہ ہم پر منحصرہے کہ ہم اپنے آپ کو کس طرح اس صورتحال میں استعمال کرتے ہیں، یہ ہمارے سیاسی نمائندوں کا امتحان ہے کیونکہ دنیا میں اس وقت افراتفری کا عالم ہے۔

امریکا نئے اتحادیوں کی تلاش میں ہے اور دشمنی کے لیے نئے حربے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اسلامی ملکوں کو تقسیم اور لڑانے کی سازش تو شروع سے ہی جاری ہے لیکن ہم یہ سب جانتے بوجھتے بھی اسی امریکا کی خوشامد کر نے پر مجبور ہیں کہ ابھی تک اس دنیا میں وہی ایک سپر پاور ہے، ہمارا حال تو یہ ہے کہ جب تاتاری فوجیں ہلاکو خان کی قیادت میں عباسی حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجانے آرہی تھی تو اس وقت دریائے فرات کے کنارے مسلم علماء اس بات پر بحث کررہے تھے کہ کوا حلال ہے یا حرام اوراس کے بعد ہلاکو خان نے مسلمانوں کے ساتھ جو کیا وہ تاریخ کا حصہ بن گیا۔

وقت بہت بے رحم ہے اوروقت واپس نہیں لایا جا سکتا اس لیے اس بات کی کوشش ہونی چاہیے کہ موجودہ وقت کو ہی بہتر منصوبہ بندی سے اپنے حق میں ڈھال لیا جائے۔ ایک کہانی نظر سے گزری ہے جو ہمارے حالات کے مطابق ہے۔ ایک چڑیا اور چڑے نے ایک آدمی کے گھر میں گھونسلہ بنایا تھا۔

روز تنکے گرنے سے اس آدمی کی بیوی چڑیا اور چڑے کے گھونسلے سے بہت تنگ تھی۔ آخر ایک دن اس نے اپنے شوہر سے اس کی شکایت کی۔ شوہر نے کہا ،گھبراؤ مت میں آج ہی اپنے بھائی سے کہوں گا وہ آکر یہ گھونسلہ ہٹا دے گا۔ شام کو جب چڑا آیا، چڑیا نے میاں بیوی کی بات اسے بتائی۔ چڑے نے کہا، فکر کی کوئی بات نہیں کچھ نہیں ہوگا۔ چڑیا نے اگلا پورا دن پریشانی میں گزارا لیکن واقعی کچھ نہیں ہوا۔ بیوی نے پھر شوہر سے شکایت کی، اس نے کہا کوئی بات نہیں، اب میں تمھارے بھائی کو کہوں گا لیکن پھر بھی کچھ نہ ہوا۔ بیوی نے پھر شکوہ شکایت کی۔

اس نے کہا، اب میں اپنے بھتیجے کو کہوں گا ، وہ سارا دن فارغ پھرتا ہے، وہ گھونسلہ صاف کردے گا۔ چڑیا نے پھر چڑے سے کہا، اس نے کہا گھبراؤ مت کچھ نہیں ہوگا اور واقعی کچھ نہیں ہوا۔ آخرکار اس آدمی کی بیوی تنگ آگئی اور اس نے اپنے شوہر سے کہا کہ کوئی بھی ہمارا کام نہیں کرتا۔ شوہر نے کہا، تم گھبراؤ مت میں خود کل یہ گھونسلہ ہٹا دونگا۔ رات جب چڑا آیا تو چڑیا نے سارا واقعہ بیان کیا تو چڑے نے کہا چل بھاگوان اب نیا گھر ڈھونڈتے ہے۔

چڑیا نے پوچھا، آج کیا خاص بات ہے۔ چڑے نے کہا، آج تک وہ اپنا کام دوسروں پر چھوڑتا آیا تھا تو فکر کی کوئی بات نہیں تھی۔ آج اس نے طے کرلیا کہ یہ اپنا کام خود کرئے گا تو ہمارا وقت ختم۔ ہمارے بھی مسئلے کوئی چِین، امریکا یا سعودی عرب نے حل نہیں کرنے ہر مسئلہ ہم نے خود حل کرنا ہے، بس جتنی جلدی ہو چڑیا اور چڑے کی طرح سبق سیکھ لینا چاہیے اور کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے نہیں بیٹھ جانا چاہیے ورنہ یہ عالمی بلے ہمیں کھا جائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔