پانی، سیوریج اور صفائی کو پارٹی منشور و تعلیمی نصاب میں شامل کیا جائے گا!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 16 اکتوبر 2017
’’گلوبل ہینڈ واشنگ ڈے‘‘ کے موقع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ۔ فوٹو: ایکسپریس

’’گلوبل ہینڈ واشنگ ڈے‘‘ کے موقع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ۔ فوٹو: ایکسپریس

گلوبل ہینڈ واشنگ ڈے ہر سال 15اکتوبر کو منایا جاتا ہے تاکہ لوگوں میں ہاتھ دھونے کے حوالے سے آگاہی پیدا کی جائے اور انہیں بیماریوں سے بچایا جاسکے۔

اس دن کا آغاز 2008ء میں ہوا جبکہ اب یہ دن دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔ یہ باعث افسوس ہے کہ پاکستان میں ہر سال ہزاروں بچے گندے ہاتھوں سے کھانا کھانے کے باعث لگنے والی بیماریوں سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جبکہ لاکھوں افراد کو مختلف قسم کی بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں۔ بچوں کی شرح اموات کم کرنے اور لوگوں کو بیماریوں سے بچانے کیلئے آگاہی بہت ضروری ہے۔ اس امر کو مد نظر رکھتے ہوئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ’’گلوبل ہینڈ واشنگ ڈے‘‘ کے موقع پر ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومتی و اپوزیشن رہنماؤں اور ماہرین آب نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ملک محمد احمد خان (ترجمان پنجاب حکومت)

حکومت کی توجہ صاف پانی پر مرکوز ہے۔ اس میں مسائل بھی ہیں مگر ہم پوری کمٹمنٹ کے ساتھ اس پر کام کررہے ہیں۔ ماضی میں پبلک ہیلتھ سکیمیں بنتی رہیںجو یوزر کمیٹیوں کے ذریعے کامیاب نہیں ہوسکیں۔ 28ہزار سکیمیں اگر ایک ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کر دی جائیں تو معاملات کبھی بھی ٹھیک نہیں چل سکتے۔ اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے یہ طے کیا کہ پانی کے حوالے سے ایک ایسی پائیدار منصوبہ بندی کی جائے جو ماضی کی طرح ناکام منصوبوں کا حصہ نہ بنے بلکہ 15 سے 20 برس تک کا ماڈل بن جائے۔ جنوبی پنجاب میں ہم نے صاف پانی کے حوالے سے جو تجربہ کیا ہے وہ کافی مہنگا ہے۔ ہم ایسا نظام بنا رہے ہیں جس میں اعلیٰ کوالٹی کے پائپوں کے ذریعے، جنہیں زنگ نہ لگے سے پانی فراہم کیا جائے گا۔ جب اس طرح کا معیار بنایا جائے گا تو لاگت میں اضافہ ہوگا اور وقت بھی لگے گا۔ حکومتی سطح پر صاف پانی اولین ترجیح ہے۔ صاف پانی کیلئے بجٹ میں خطیر رقم رکھی گئی ہے۔ صاف پانی پراجیکٹ کے حوالے سے فزیبلٹی رپورٹ میں لاگت 120کروڑ روپے تھی جبکہ بعد میں کہا گیا کہ یہ 170کروڑ روپے ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے اس حوالے سے ایکشن لیا، جب اس رپورٹ کی دوبارہ جانچ پڑتال کی گئی تو اضافی 50 کروڑ نکال دیئے گئے جس کے بعد وزیراعلیٰ نے اسے منسوخ کردیا۔ اس کے بعد ہمیں نئی کمپنی کی تلاش تھی مگر ہمارے ملک میں کسی کمپنی کے پاس اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ اس طرح کے بڑے منصوبے پر کام کرسکے جس کے باعث ہمیں بیرونی کمپنیوں کی طرف دیکھنا پڑا اور پھر معاملات میں تاخیر ہوئی مگر اس حوالے سے ہنگامی بنیادوں پر کام جاری ہے۔ پانی، سیوریج و صفائی کے حوالے سے لوگوں کو آگاہی دینا انتہائی ضروری ہے۔ اس حوالے سے سکولوں اور مساجد کا پلیٹ فارم استعمال کیا جاسکتا ہے جس میںمحکمہ تعلیم اور محکمہ اوقاف اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہ چیزیں تعلیمی نصاب کا حصہ نہیں ہیں مگر جلد انہیں شامل کردیا جائے گا۔

سائرہ افتخار (رکن پنجاب اسمبلی و رہنما پاکستان مسلم لیگ، ن)

گلوبل ہینڈ واشنگ ڈے ہر سال 15 اکتوبر کو منایا جاتا ہے جس کا مقصد اس بات پر زور دینا ہے کہ صابن سے ہاتھ دھوئے جائیں۔ صابن سے ہاتھ دھونا بیماریوں سے بچنے کا ایک بہترین اور سستا طریقہ ہے۔ 25روپے کا صابن استعمال کرنے سے ڈاکٹر کی 500روپے کی فیس و علاج معالجے کے دیگر اخراجات سے بچا جا سکتا ہے۔ گندے ہاتھوں سے کھانا کھانے سے بچوں کو ڈائریا، ہیضہ و دیگر بیماریاں لاحق ہوتی ہیں لہٰذا اگر ہاتھ دھو لیے جائیں تو بیماریوں کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔ رواں برس گلوبل ہینڈ واشنگ ڈے کا نعرہ ’’ ہمارے ہاتھ، ہمارا مستقبل‘‘ ہے۔ ہاتھ دھونے سے نہ صرف ہمارا اپنا مستقبل بہتر ہوتا ہے بلکہ اس سے کمیونٹی اور پھر اسی طریقے سے دنیا کا مستقبل بھی بہتر ہوگا کیونکہ بیماریوں سے بچاؤ کے ساتھ ساتھ اخراجات میں کمی کے باعث معیشت بہتر ہوسکتی ہے۔ پنجاب میں ستمبر 2015ء میں نیوٹریشن کے حوالے پہلی ملٹی سیکٹورل پالیسی بنائی گئی جس میں “Water,Sanitation & Hygiene (WASH)” کو شامل کیا گیا ہے جو انتہائی اہم ہے۔ نیوٹریشن کا تعلق صرف صحت سے نہیں ہے بلکہ زراعت، لائیو سٹاک، فشریز،پبلک ہیلتھ انجینئرنگ، سوشل پروٹیکشن و دیگر شعبوں سے بھی ہے۔ صاف پانی کی فراہمی اور صفائی وسیوریج کا بہترین نظام عوام کا بنیادی حق ہے جس کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اس وقت پنجاب میں 22فیصد کے قریب افراد کو سیوریج کے موثر نظام تک رسائی نہیں ہے جس کی وجہ سے چھونے سے پھیلنے والی بیماریوں کا خدشہ ہے۔ آگاہی کے حوالے سے پنجاب نے ایک اہم سنگ میل عبور کیا ہے کہ یہاںلیٹرین استعمال کرنے کے بعد اور کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے کے حوالے سے لوگوں کو 100 فیصد آگاہی ہے لیکن ان میں 77فیصد لوگ صابن جبکہ 23فیصد لوگ صابن استعمال نہیں کرتے لہٰذا 23فیصد افراد کا صابن استعمال نہ کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ صفائی، ستھرائی کے حوالے سے ہمارا رویہ معمولی ہے۔ ہاتھ نہ دھونے کا تعلق غذائیت کی کمی سے بھی ہے کیونکہ گندے ہاتھ سے کھانے سے بچے کو ڈائریا ہوتا ہے جس کا نتیجہ پانی کی کمی جبکہ بعدازاں غذائیت کی کمی کی صورت میں نکلتا ہے۔ بچوں میں نیوٹریشن کے حوالے سے پنجاب کے اعداد و شمار دیکھیں تو 5 سال تک کی عمر کے کم وزن بچے 34 فیصد، درست نشونما نہ پانے والے (stunted) بچوں کی شرح 42 فیصد، ضائع بچوں کی شرح 13فیصد ،وٹامن اے کی کمی 51 فیصد جبکہ 60فیصد بچے خون کی کمی کا شکار ہیں۔سندھ کے علاقے ٹھٹھہ میں 80 فیصد افراد خون کی کمی کا شکار ہیں جو انتہائی تشویشناک ہے۔ ہم یہ کہہ کر مطمئن نہیں ہوسکتے کہ پنجاب کی صورتحال باقی صوبوں سے بہتر ہے بلکہ ہمیں ابھی مزید کام کرنا ہوگا۔ ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے۔ اس کے بعد اساتذہ ہوتے ہیں جن کی بات بچوں پر اثر کرتی ہے لہٰذا ان دونوں کو بچوں میں ہاتھ دھونے کے حوالے سے آگہی پیدا کرنی چاہیے۔ بھارت نے بالی وڈ کے بڑے اداکاروں کو لے کر ’’ٹائلٹ ایک پریم کتھا‘‘ فلم بنائی جس کا مقصد لوگوں کو ٹائلٹ کے استعمال کے حوالے سے آگہی دینا ہے۔ پیمرا قوانین کے مطابق پبلک سروس میسجز کے حوالے سے ایئر ٹایم کی ایک خاص شرح مختص کی گئی ہے لہٰذا ہماری تجویز ہے کہ میڈیا کو اس وقت میں غذائیت، ہاتھ دھونا، سیوریج، پانی کی کمی و اس قسم کے دیگر عوامی مسائل پر آگہی دینی چاہیے۔ ایکسپریس میڈیا گروپ نے ہمیشہ عوامی آگہی کے موضوع پر سب سے پہلے کام کیا ہے اور آج کا موضوع بھی انتہائی اہم ہے، ہم خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ جب صفائی و سیوریج کا نظام بہتر ہوگا تو صحت کا نظام بھی بہتر ہوجائے گا۔ تمام چیزوں کی ذمہ داری حکومت پر نہیں ڈالی جاسکتی۔عوامی آگہی کیلئے کمیونٹی ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن ورکرز، مڈ وائف، والدین، اساتذہ، لیڈی ہیلتھ ورکرز، سول سوسائٹی اور میڈیا کا کردار بھی اہم ہے لہٰذا ہمیں اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہوگی۔ میں نے مارچ 2016ء میں غذائیت میں کمی (malnutrition)کے حوالے سے وزیراعظم کو ایک جامع پریزنٹیشن دی۔ اس میں تھر کے بارے میں جو حقائق بتائے گئے وزیراعظم نے ان پر فوری اقدامات کا حکم دیا اور اگلے ہی دن وہاں ٹیمیں بھجوا دی گئیں۔اس مرتبہ ہماری کوشش ہے کہ وہاں دوسرے مرحلے کا آغاز کیا جائے اور آگہی مہم چلائی جائے۔کسی بھی کام میں کامیابی کیلئے سیاسی آنر شپ انتہائی ضروری ہے لہٰذا جب وزیراعظم اس کو لیڈ کریں گے تو معاملات میں بہتری آئے گی کیونکہ malnutritionکی وجہ سے ہمارے جی ڈی پی کا سالانہ 3سے4 فیصد ضائع ہوتا ہے۔اس مرتبہ ہم نے “WASH” کو بھی اس پریزنٹیشن میں شامل کیا ہے لہٰذا آئندہ چند ہفتوں میں وزیراعظم سے ملاقات کے بعد اس پر بڑے پیمانے پر کام شروع ہوجائے گا۔WASHاور نیوٹریشن کے حوالے سے پنجاب اسمبلی کے 16ارکان پر مشتمل ایک غیر رسمی legislative core groupموجود ہے جو گزشتہ دو برس سے کام کر رہا ہے۔ میں اس کی فوکل پرس ہوں اور اس گروپ میں حکومت و اپوزیشن جماعتوں کے ارکان جماعتی وابستگی سے بالاتر ہوکر ملک کے لیے کام کررہے ہیں۔

فائزہ ملک (رکن پنجاب اسمبلی و رہنما پاکستان پیپلز پارٹی)

ہاتھ دھونے کا مطلب صرف پانی سے ہاتھ دھونا نہیں ہے بلکہ اس کے لیے صابن کا استعمال ضرروی ہے تاکہ جراثیم کا خاتمہ ہوسکے۔ گلوبل ہینڈ واشنگ ڈے عالمی سطح پر منانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ لوگوں کو موثر آگاہی دی جاسکے ۔ “Water,Sanitation & Hygiene (WASH)” پہلے انسانی حقوق میں شامل نہیں تھا مگر اب اسے شامل کردیا گیا ہے جس کے بعد اس حوالے سے کام کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ہیپاٹائٹس و دیگر بیماریوں کا پھیلاؤ خطرناک ہے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو سیوریج کے نظام و صاف پانی تک رسائی نہیں ہے لہٰذا حکومت کو سڑکوں اور پلوں کے بجائے اس طرف توجہ دینی چاہیے ۔ میرے نزدیک پینے کا صاف پانی ا ور صحت اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ ہاتھ نہ دھونے کی وجہ سے لوگ جراثیم اپنے ساتھ لے کر پھرتے ہیں جو کسی دوسرے کو چھونے سے منتقل ہوجاتے ہیں اور بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں سے نئی بیماریاں سامنے آرہی ہیں جن کا علاج بھی مشکل ہے۔ اگر احتیاط برتی جائے تو بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے لہٰذا اس حوالے سے لوگوں کوآگاہی دینا انتہائی ضروری ہے۔ اس میں میڈیا اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈرامہ و فلم کے ذریعے بھی لوگوں میں صحت و صفائی کے حوالے سے آگہی پیدا کی جاسکتی ہے۔ زیر زمین پانی کی سطح کم ہوتی جارہی ہے اور جو پانی دستیاب ہے اس میں آرسینک موجود ہے جو خطرناک ہے۔ پینے کے صاف پانی کے حوالے سے حکومتی منصوبے کرپشن و دیگر مسائل کی نذر ہوگئے، حکومت کو چاہیے کہ ترجیحی بنیادوں پر اس حوالے سے کام کرے۔ لوگ پینے کا صاف پانی ضائع کرتے ہیں،ا نہیں اس حوالے سے آگاہی دینا بھی انتہائی ضروری ہے۔ افسوس ہے کہ صاف پانی و صحت کے حوالے سے مختص بجٹ خرچ نہیں ہوتا لہٰذا اگر یہ بجٹ درست طریقے سے خرچ ہوجائے تو عوام کے مسائل کم ہوجائیں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ یونیورسٹیوں میں ریسرچ سنٹرز قائم کرے جن میں صاف پانی کی فراہمی کے موثر و سستے طریقے دریافت کیے جائیں۔ ہم نے آگاہی کا یہ کام اسمبلی کے فورم سے شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے ،اس کے بعد مساجد کا پلیٹ فارم بھی استعمال کیا جائے گا تاکہ وہاں سے لوگوں کو آگاہی دی جائے۔ یہ بڑا چیلنج ہے مگر اگر جماعتی وابستگی سے بالاتر ہوکر اس پر کام کریں تو ملک بھر میں مہم چلائی جاسکتی ہے۔ صفائی و پانی کے حوالے سے چیزوں کو پارٹی منشور میں شامل کیا جائے گا، اس سے آئندہ انتخابی مہم کے دوران لوگوں میں آگہی پیدا ہوگی۔

فراقت علی (واٹر ایکسپرٹ)

صحت ، تعلیم، سیوریج، پانی و دیگر مسائل کا براہ راست تعلق غربت سے ہوتا ہے کیونکہ ان کی وجہ سے اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ ہم علاج کی بات کرتے ہیں مگر احتیاطی تدابیر کی طرف نہیں جاتے لہٰذا ہمیں اپنا طریقہ کار بدلنا ہوگا۔  اقوام متحدہ میں میلینیم ڈویلپمنٹ گولز کے حوالے سے سمٹ ہوا تھا جس میں 198 ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اس سمٹ کے 17 اہداف تھے جن کے حوالے سے ترقی یافتہ و ترقی پذیر تمام ممالک نے عہد کیا تھا کہ کام کریں گے۔ ان میں سے چوتھا ہدف یہ تھا کہ بچوں کی اموات کی شرح کو صفر کیا جائے گا۔ ہمارے ہاں بچوں کی اموات کی وجوہات میں سے ایک وجہ ڈائریا ہے جس سے ہر سال 53 ہزار بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ڈائریا کی وجوہات میں گندے ہاتھوں سے کھانا شامل ہے لہٰذا اس پر کام کرنا ہوگا۔ہاتھ دھونے کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے گلوبل ہینڈ واشنگ ڈے کا آغاز 2008ء میں ہوا۔شروع میں 70ممالک کے 120ملین بچوں نے اس میں حصہ لیاتھا تاہم اب یہ دن ہر سال دنیا بھر میں منایا جاتا ہے تاکہ لوگوں کو آگاہی دی جاسکے۔ اس حوالے سے میڈیاو دیگر سٹیک ہولڈرز اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ ہاتھ ہمارے جسم کا سب سے زیادہ استعمال ہونے والا عضو ہے، جب ہم ہاتھ نہیں دھوتے تو اس سے بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں۔ ان میں سے بعض بیماریوں کے جراثیم منہ کے راستے جسم میں داخل ہو جاتے ہیں جبکہ بعض ہمارے ہاتھوں سے دوسرے لوگوں کو منتقل ہوجاتے ہیں، جس سے بیماریاں پھیلتی ہیں۔ مختلف سروے رپورٹس کا جائزہ لیا جائے تو50فیصد انفیکشن والی بیماریاں ہاتھ اور منہ سے پھیلتی ہیں۔حکومت پنجاب صحت کے حوالے سے موثر کام کررہی ہے۔ نیوٹریشن، WASH، بچوں کی اموات و دیگر مسائل کے حوالے سے 11 ارب روپے لاگت کا منصوبہ 11اضلاع میں شروع کیا جارہا ہے جس کا بجٹ منظور ہوچکا ہے اور بہت جلد پی سی ون بھی منظور ہوجائے گا جس کے بعد معاملات میں بہتری آئے گی۔ ہم حکومت پاکستان اور حکومت پنجاب دونوں کے ساتھ ملکر کام کررہے ہیں۔ ’’صاف صحت مند پاکستان‘‘ پروگرام کے حوالے سے ہمیں حکومت کا مکمل تعاون حاصل ہے۔ حکومت پنجاب کا ایک پروگرام Pakistan Approach to Total Sanitation (PATS) ہے جس میں صفائی، ستھرائی، پینے کا صاف پانی وغیرہ شامل ہیں اور صحت کے بجٹ کا 25فیصد حصہ اس بارے میں آگاہی کے حوالے سے مختص ہے۔سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز میں WASH پر 100فیصد کام کا ٹارگٹ دنیا کے دیگر ممالک نے 2030ء رکھا ہے جبکہ حکومت پاکستان نے اپنا ٹارگٹ 2025ء تک مقرر کیا ہے جس کے بعد مسائل میں واضح کمی نظر آئے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔