ہماری ایٹمی صلاحیت

شکیل فاروقی  منگل 17 اکتوبر 2017
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

کیا عجیب اتفاق ہے کہ جس دن نوبل گیٹس نے نیو کلیئر (ایٹمی) ہتھیاروں کے خاتمے کی بین الاقوامی مہم (ICAN) International Campaign to Abolish Nuclear Weapons کے لیے امن انعام دیے جانے کا اعلان کیا، عین اسی روز ہمارے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے بھارت کو خبردار کیا کہ اگر اس نے پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرنے کی جسارت کی تو اسے اس کے انتہائی سنگین نتائج بھگتنے پڑیںگے۔

پاکستان کے وزیر خارجہ نے یہ کرارا جواب انڈین ایئر فورس کے چیف کے اس دعوے کے بدلے میں دیا کہ بھارت پاکستان کے ایٹمی اسلحہ خانوں کا پتا لگاسکتا ہے اور انھیں تباہ کرسکتا ہے، خصوصاً ان ایٹمی ہتھیاروں کو جو وہ میدانِ جنگ میں استعمال کرنے کے لیے تیار کر رہا ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب بھارت کی جانب سے پاکستان کو اس طرح کی تڑی لگائی گئی ۔ بھارت کی طرف سے پاکستان کو ماضی میں بھی اس قسم کی دھمکیاں دی جاتی رہی ہیں لیکن جب سے امریکی صدر ٹرمپ نے بھارت کو تھپکی دی ہے تب سے وہ جامے سے باہر ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ آئے روز بھارت کی طرف سے کبھی پاکستان کے (خدا خواستہ) چار ٹکڑے کرنے اورکبھی صفحۂ ہستی سے مٹادینے کی مذموم بیان بازی کی جارہی ہے۔

بھارت کو ہمیشہ کے لیے جان لینا چاہیے کہ اس کا ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کا جارحانہ اور توسیع پسندانہ پرانا خواب جس میں انڈونیشیا اور ایران سمیت کئی ممالک شامل ہیں کبھی بھی پورا نہیں ہوگا بلکہ بھارت میں چل رہی آزادی کی متعدد تحریکوں کے نتیجے میں خود اس کے کئی ٹکڑے ہوںگے جس کے نتیجے میں وہ اکھنڈ ہونے کے بجائے خود ہی کھنڈت ہوجائے گا اور اس کے مذموم خواب کی تعبیر بالکل الٹی ہوجائے گی حقیقت بھی یہی ہے کہ جو دوسروں کے لیے کنواں کھودتا ہے وہ خود ہی اس میں گرکر ایک نہ ایک دن ہلاک ہوجاتا ہے۔

قصہ یہ ہے کہ امریکا مدت دراز سے دنیا کا ’ چوہدری‘ بنا ہوا ہے اور اپنی من مانی پر تلا ہوا ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں اس نے دنیا بھر میں پہل کی تھی بلکہ ہیرو شیما اور ناگا ساکی نامی جاپان کے شہروں کو ایٹم بم کا نشانہ بھی اسی نے سب سے پہلے بنایا تھا۔ برصغیر میں ایٹمی دوڑ کی شروعات کرنے والے دیش بھارت کی پشت پناہی کرکے اب امریکا اپنی دوغلی پالیسی کا کھلے عام ثبوت دے رہا ہے۔ پاکستان کا ایٹمی قوت ہونا اس کی آنکھوں میں بری طرح کھٹک رہا ہے۔

پاکستان کے ایٹمی تجربے کو رکوانے کے لیے اس نے ماضی میں ہر حربہ آزمایا تھا اور ایڑی چوٹی کا زور لگادیا تھا لیکن پاکستان کی ماضی کی تمام حکومتوں کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ انھوں نے امریکا کے دباؤ کو قبول نہ کرکے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو پایہ تکمیل کو پہنچاکر نہ صرف وطن عزیز کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کردیا بلکہ دنیائے اسلام کی واحد ایٹمی قوت بناکر پاکستان کو در حقیقت اسلام کا ناقابل تسخیر قلعہ بنادیا۔ لہٰذا اب پاکستان نہ صرف اپنے سب سے بڑے اور ازلی دشمن بھارت بلکہ امریکا اور پوری مغربی دنیا کی آنکھوں کا کانٹا بنا ہوا ہے۔ پاکستان  دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت ہے بلکہ میزائل ٹیکنالوجی میں بھی بہت آگے ہے یہی وجہ ہے کہ وہ نہ صرف بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کررہاہے بلکہ امریکا کی من مانی کے آگے جھکنے پر بھی مجبور نہیں۔

باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا

بھارت سے کسی بھی صورت میں نہ دبنے اور امریکا کی اسٹرٹیجک حکمت عملی سے اختلاف کرنے کی ہمت و جرأت پاکستان کو اس کی جوہری صلاحیت اور میزائل ٹیکنالوجی میں ناقابل رشک ترقی کی بدولت حاصل ہے ورنہ تو اس کا حشر بھی عراق جیسا ہوتا یا پھر اس کے خلاف بھی ایران کی طرح پابندیاں عائد ہوتیں۔

دوسری جانب شمالی کوریا کی مثال ہے جو تنہا کردیے جانے کے باوجود اپنی ایٹمی صلاحیت اور میزائل قوت کے بل بوتے پر امریکا کو ٹھینگا دکھا رہا ہے اورکسی خاطر میں نہیں لارہا ۔ دنیا بھر کے ٹھیکیدار امریکا کا بس نہیں چل رہا کہ وہ پاکستان کی نیوکلیئر اور میزائل ٹیکنالوجی کے اثاثوں کو ضبط کرلے۔ امریکا پاکستان پر برابر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ یکطرفہ طور پر Fissile Material Production روک دے اور اپنے قلیل اور طویل فاصلے تک ایٹمی ہتھیار لے جانے والے میزائلوں کی تیاری بند کردے۔

دوسری جانب امریکا بھارت کو ایٹمی صلاحیتوں کو بڑھانے اور جدید طرز پر ترتیب دینے کے بھرپورہمت افزائی کررہا ہے اور اس سلسلے میں بھارت کی ہر ممکن مددکررہا ہے صرف اس پر اکتفا نہیں بلکہ وہ بھارت کی بحریہ اور سیٹلائیٹ صلاحیتوں کو بھی بڑھاوا دے رہا ہے اور خلائی ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی بھارت کی مدد کررہا ہے یہ بات بھی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ امریکا کی یہ منصوبہ بندی بھی ہے کہ خدانخواستہ کسی قسم کے بحرانی حالات میں پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں پر قبضہ کرلیا جائے یا انھیں تباہ و برباد کردیا جائے، اس قسم کا ناٹک کھیلنے کی بد نیتی سے ایٹمی ہتھیاروں کے دہشت گردوں کے ہاتھوں میں چلے جانے کے اندیشوں کی آڑ میں طرح طرح کی فرضی کہانیاں بھی گھڑی جارہی ہیں جن میں افواج پاکستان کو خواہ مخواہ ملوث کرنے کی مذموم کوششیں بھی شامل ہیں۔

جوں جوں وقت گزر رہا ہے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال بھی توں توں بھارت کے کنٹرول سے باہر ہوتی جارہی ہے۔ چور مچائے شور کے مصداق بھارت دنیا کی توجہ اس کی جانب سے ہٹانے کے لیے پاکستان کے خلاف نت نئی بیان بازی اور الزام تراشیاں کر رہا ہے اور امریکا کی شہ پر طرح طرح کی دھمکیاں دے رہا ہے اس میں شک نہیں کہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال انتہائی سنگین ہے اور یہ آتش فشاں خدانخواستہ پھٹ بھی سکتا ہے۔ چونکہ روایتی ہتھیاروں کے لحاظ سے دونوں حریف برابر ٹکر کے ہیں اس لیے نوبت ایٹمی تصادم تک پہنچ جانے کا اندیشہ بھی لاحق ہے۔

بھارت کے سیاسی اور عسکری قائدین آئے دن پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیکس  کی تڑیاں بھی لگاتے رہتے ہیں جس سے اس قسم کے اندیشے کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ اگر بھارت پاکستان کے ساتھ جنگ چھیڑنے کا ارادہ کرے گا تو ایسی صورتحال میں وہ سب سے پہلے پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو ناکارہ بنانے کی مذموم کوشش کرسکتا ہے۔ بعید از قیاس نہیں کہ اس میں امریکا بھی ملوث ہو، بہر حال پاکستان کے لیے ان دونوں قسم کے حالات کے یے ہر آن اور ہر طرح سے چوکس اور پوری طرح سے تیار رہنا قطعی لازمی ہے۔ بقول شاعر:

دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی

کہا جاتا ہے کہ ماضی بعید میں ہمارے دوست نما دشمن امریکا نے ہمارے ایٹمی اثاثوں کی سیکیورٹی اور سیفٹی کے بہانے سے ان کی بابت کافی معلومات حاصل کی ہوئی ہے لیکن با خبر اور معتبر حلقوں کو اس خیال سے بالکل اتفاق نہیں ہے۔ الحمدﷲ ہمارے ایٹمی ہتھیار قطعی محفوظ ہیں اور امریکا یا کسی اور کی ان تک رسائی ناقابل تصور ہے۔

اس قسم کی Foolproof حفاظتی کیفیت میں دشمن کی صرف یہی کوشش ہوسکتی ہے کہ وہ بحرانی صورتحال میں ہمارے ڈیلیوری سسٹم کو اپنا قابل از وقت نشانہ بنائے، مگر دشمن کی ایسی کوئی حرکت بھی اس کی بہت بڑی بھول ہوگی کیونکہ ہماری بہادر افواج اور دفاعی ماہرین کسی بھی لمحے اپنے وطن عزیزکے دفاع سے ذرا بھی غافل نہیں ہیں۔ تاہم ہمیں کسی بھی بیرونی جارحیت سے نمٹنے کے لیے ہر آن تیار رہنے کی ضرورت ہے۔

ہمیں جارحانہ اور دفاعی دونوں طرح کی سائبر جنگی صلاحیتوں کے لحاظ سے بھی ہر لمحہ چوکس رہنا چاہیے اس کے علاوہ پاکستان کو جلد از جلد خبردار کرنے کی صلاحیت سیٹلائٹ کی جدید ترین ٹیکنالوجی،کھوجی طیاروں اور ڈرونز سے لیس ہونے کی بھی ضرورت ہے۔ ہمارے سریع العمل دفاعی نظام کے لیے چین کی بری، بحری اور فضائی افواج کے ساتھ گہرا رابطہ بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ تاہم ہماری ایٹمی صلاحیت کو ہماری بقا اور سلامتی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ یہی کشمیر کے تنازع کے حل کی کلیہ بھی ہے اور ہماری معاشی اور اقتصادی ترقی کی ضامن بھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔