اپنی اُردو تو محبت کی زباں تھی پیارے

فرہاد احمد فگار  بدھ 18 اکتوبر 2017
کچھ ایسے الفاظ جو غیر محتاط انداز سے، معنی پر غور کیے بغیر غلط بولے اور لکھے جاتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

کچھ ایسے الفاظ جو غیر محتاط انداز سے، معنی پر غور کیے بغیر غلط بولے اور لکھے جاتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

میں اکثر لوگوں کو جب اپنی قومی زبان میں بڑی بڑی غلطیاں کرتے دیکھتا ہوں تو بہت دکھ ہوتا ہوتا ہے۔ اکثر پڑھے لکھے لوگ ان غلطیوں کو غلطیاں ہی نہیں سمجھتے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارا معاشرہ اور ہمارے ادارے صحتِ زبان کے حوالے سے قطعاً محتاط نہیں۔ غلط اردو لکھنے اور بولنے کا رواج عام ہوچکا ہے۔ گو کہ ہر ایک کو درست کرنا میرے اختیار میں نہیں لیکن اپنے تئیں ہمیشہ کوشش کرتا ہوں کہ اپنی زبان سے محبت کا حق ادا کرتے ہوئے اغلاط کی نشان دہی کرتا رہوں۔ میرا یہ ایمان ہے کہ اگر فردِ واحد نے بھی میری کوشش سے سیکھ لیا تو یہ کوشش بارآور ہوگی۔

اصلاحِ زبان کی میری کوشش پر کئی لوگوں کی طرف سے حوصلہ افزائی کے پیغامات موصول کرکے میرے حوصلے کو تقویت ملی ہے اور یہ اسی کا ثمر ہے کہ میں نے مزید کچھ اغلاط کو دیکھتے ہوئے نشان دہی کی ٹھانی۔ ذیل میں کچھ ایسے ہی الفاظ درج ہیں جو ہمارے ہاں غیر محتاط انداز سے، معنی پر غور کیے بغیر غلط بولے اور لکھے جاتے ہیں۔

 

استاتذہ کرام سے خطاب

24، ستمبر 2014 کے روزنامہ سیاست مظفرآباد میں ایک کالم نظر سے گزرا۔ عنوان تھا: ’وزیراعظم آزاد کشمیر کا استاتذہ کرام سے خطاب۔‘ معزر کالم نگار سید محمود علی گیلانی تھے اور نام کے ساتھ شعبۂ پریس وزیراعظم سیکرٹریت بھی کندہ تھا۔ معزز کالم نگار نے کالم میں جو لکھا سو لکھا، لیکن ’’استاتذہ‘‘ کس زبان کا لفظ ہے؟ اردو میں استاد یا استاذ ہے، جمع جس کی اَساتذہ مستعمل ہے۔ یہاں یہ وضاحت بھی کرتا چلوں کہ اکثر لوگ استاد یا استاذ میں الف کے مضموم ہونے کی وجہ سے اساتذہ میں بھی الف کو مضموم کردیتے ہیں جو غلط ہے۔ استاد میں الف مضموم ہے جب کہ َاساتذہ میں الف مفتوح ہے۔ لہذٰ اساتذہ درست جمع ہے۔ استاتذہ اور اُساتذہ غلط ہے۔

 

آئندہ بعد

مظفرآباد کے ایک معروف کالج کے پرنسپل ایک بچے کو ڈانٹ رہے تھے کہ آئندہ بعد تم نے یہ کام کیا تو تمھاری خیر نہیں ہوگی۔ بتاتا چلوں کہ آئندہ کا مطلب ہی ’’اب کے بعد آنے والا‘‘ یا ’’آگے چل کر‘‘ ہوتا ہے۔ آئندہ کے بعد یا آئندہ بعد معنوی اعتبار سے ایک بڑی غلطی ہے۔ آج کے بعد یا آئندہ کہنا درست ہوگا۔

 

تحریر لکھ رہا ہوں

ایک صاحب نے لکھا کہ میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں۔ اسی طرح اکثر کہا جاتا ہے آپ یہ تحریر لکھ دیجیے۔ فرہنگِ تلفظ، نوراللغات، فرہنگِ آصفیہ سمیت تمام لغات میں تحریر کا مطلب ہی لکھنا، لکھی ہوئی چیز درج ہے۔ تو تحریر کرنا درست ہوا نہ کہ تحریر لکھنا۔ تحریر کر رہا ہوں، لکھ رہا ہوں، آپ تحریر کردیجیے وغیرہ درست ہیں۔

 

ہم شیرہ

میں نے بڑوں بڑوں کو یہ غلطی کرتے دیکھا۔ ’’ہم شیرہ‘‘ بہن کےلیے استعمال کیا جاتا ہے جو غلط العوام ہے۔ بہن یا بھائی کےلیے درست لفظ ’’ہم شیر‘‘ ہے جو ہماری مستند اردو لغات میں بھی موجود ہے۔ ’’شِیر‘‘ (ش بالکسر) فارسی میں دودھ کو کہتے ہیں جس میں ’’ہم‘‘ کا سابقہ لگا کر ترکیب بنائی گئی ہے۔ ’’شیرہ‘‘ کا مطلب ’’چاشنی یا عرق جو کسی چیز سے نکالا جائے‘‘ ہوتا ہے۔ گلاب جامن یا جلیبی کو پکانے کے بعد مٹھاس لانے کےلیے جس چیز میں ڈالا جاتا ہے وہ ’’شیرہ‘‘ کہلاتی ہے۔ ’’ہم شیرہ‘‘ مطلب ساتھ شیرہ پینے والے اور ’’ہم شیر‘‘ ساتھ دودھ پینے والے۔

واضح کرتا چلوں کہ ’’ہم شیر‘‘ بہن اور بھائی، دونوں کےلیے استعمال ہوسکتا ہے تاہم اَساتذہ کے ہاں یہ بہن کےلیے مستعمل ملتا ہے۔ میر انیس کے ایک شعر سے وضاحت کردوں:

دیکھی جو نہ تھی دیر سے وہ چاند سی تصویر
قدموں پہ محبت سے گری دوڑ کے ہم شیر

ایسے ہی خدائے سخن کے ہاں ہم شیر کا استعمال دیکھیے:

اک شور سا ہو اٹھتا رونے کا جب نسا میں
منہ دیکھ دیکھ روتا ہم شیر کا اور ما کا

 

فضول بکواس

ہمارے ہاں اکثر لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ جب کسی پر اظہار برہمی کرتے ہیں تو سختی سے کہتے ہیںِ، ’فضول بکواس نہ کرو۔‘ عرض ہے کہ ’’بکواس‘‘ کارآمد ہوتی ہی نہیں، فضول بھی لگایا جائے تو وہ فضول ہی رہے گی۔ مؤلف فرہنگ آصفیہ سید احمد دہلوی کے مطابق بکواس کا مطلب ہی ہرزہ گوئی یا بسیار گوئی ہے؛ اور ظاہر ہے کہ ہرزہ گوئی اور بسیار گوئی کو ہر کوئی ناپسند کرتا ہے۔ اسی طرح ’’فضول‘‘ کے معنی پر نظر ڈالیں تو وہ بھی کثیر، بے فائدہ یا بے معنی ہی ہیں۔ ’بکواس نہ کیجیے‘ کہہ دینا کافی ہے اور یہ جملہ مکمل معنی و مفہوم رکھتا ہے۔

 

آپ ٹھیک ہیں

عموماً جب ہم آپس میں ملتے ہیں تو کہتے ہیں، ’آپ ٹھیک ہیں۔‘ عرض کرتا چلوں کہ ’’آپ ٹھیک ہیں‘‘ کہنے کی بہ جائے ’’آپ کیسے ہیں؟‘‘ کہنا استفہامیہ بھی ہے اور درست بھی معلوم ہوتا ہے۔ دوسری صورت میں ’’آپ ٹھیک ہیں ناں؟‘‘ بھی یہی مفہوم ادا کرتا ہے۔

انگریزی زبان میں کبھی ہم کسی کو نہیں کہتے You are fine، بلکہ سوالیہ بنانے کےلیے Are you fine کہتے ہیں یعنی ARE شروع میں بولتے ہیں۔ یا پھر How are you کہتے ہیں؛ تو میرے خیال کے مطابق اردو میں بھی ’’آپ ٹھیک ہیں‘‘ کی بہ جائے ’’آپ کیسے ہیں؟‘‘ کہنا مناسب اور معقول معلوم ہوتا ہے۔

اس میں بھی اضافہ کردوں کہ اکثر ’آپ ٹھیک ہو‘ یا ’آپ کیسے ہو؟‘ بولا جاتا ہے، جو دونوں طرح سے غلط ہے۔ اردو کی ایک اصطلاح ہے ’شتر گربہ‘ جس کے مطابق جملے کے آغاز میں جمع کا صیغہ ہوگا تو اسی کی مطابقت سے آخر میں بھی جمع ہی آئے گا؛ یعنی آپ کیسے ہیں؟ تم کیسے ہو؟ انگریزی میں ہم ان باتوں کا خیال کرتے ہیں اور انہیں غلطی گردانتے ہیں لیکن اردو کے معاملے میں انہی اغلاط کو باعثِ فخر سمجھتے ہیں۔

 

میں آپ کا مشکور ہوں

کس قدر افسوس ناک صورت حال ہے کہ ہم الفاظ کے معنی سمجھے بغیر ہی ان کا استعمال کرتے چلے جاتے ہیں۔ بھیڑ چال اور لکیر کے فقیر بننا شاید ہماری سرشت بن چکی ہے۔ بہت جی کڑھتا ہے جب اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی زبان سے سنتا ہوں کہ میں آپ کا مشکور ہوں۔ یاد رہے کہ مشکور فاعل نہیں مفعول ہے؛ اور مشکور کا مطلب ہے شکریہ ادا کرنے والا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے مخدوم خدمت کروانے والا ہوتا ہے اور خادم خدمت کرنے والا، مقتول قتل ہونے والا ہوتا ہے تو قاتل قتل کرنے والا، مجبور جبر سہنے و الا ہوتا ہے اور جابر جبر کرنے والا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہی لفظ اگر االلہ کےلیے استعمال کیا جائے تو نعوذباللہ یہ شانِ ایزدی میں گستاخی تصور ہوگی۔ مشکور کی جگہ ’’میں آپ کا شکر گزار ہوں‘‘ یا ’’میں آپ کا شاکر ہوں‘‘ یا ’’میں آپ کا احسان مند ہوں‘‘ وغیرہ کا استعمال زیادہ مناسب اور موزوں ہے

 

درستگی

ہمارے اخبارات اور اَساتذہ تک کے ہاں ’’درستگی‘‘ کا استعمال بکثرت ملتا ہے۔ درستگی غلط العوام ہے جبکہ اس کا درست استعمال ’’درستی‘‘ ہوگا۔ اس حوالے سے میں ان لوگوں سے اکثر کہتا ہوں کہ اسے درستگی لکھتے اور پڑھتے ہیں تو پھر تن درستی کو بھی تن درستگی کرلیجیے۔

براہِ مہربانی زبان کا صحیح استعمال کیجیے۔ اردو ہماری پہچان ہے اور یہ ہماری تہذیب ہے۔ بہتر اردو کےلیے بہت سی کتب موجود ہیں جبکہ اچھے لغات کی بھی کوئی کمی نہیں۔ فرہنگِ تلفظ، نوراللغات، فرہنگِ آصفیہ، فرہنگِ عامرہ اور لغاتِ نظامی کے علاوہ اردو املا، عبارت کیسے لکھیں؟ انشا اور تلفظ پر سیکڑوں رہنما کتب موجود ہیں۔ امید کرتا ہوں کہ ہمارے ہاں اصلاح قبول کرنے والے تو قبول کریں گے اور ہٹ دھرم اور بد قسمت ہمیشہ غلطی پر ہی رہیں گے۔ روِشؔ صدیقی کے اس شعر کے ساتھ اجازت مطلوب ہے:

اردو جسے کہتے ہیں تہذیب کا چشمہ ہے
وہ شخص مہذب ہے جس کو یہ زباں آئی

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

فرہاد احمد فگار

فرہاد احمد فگار

مصنف کا تعلق مظفر آباد، آزاد کشمیر سے ہے۔ اردو زبان کی ترویج اور فروغ سے خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز (نمل)، اسلام آباد سے پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔