ریلوے نظام کی بحالی و ترقی نیک شگون

ایڈیٹوریل  بدھ 18 اکتوبر 2017
پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ سے ٹرینوں کی آؤٹ سورسنگ کی جا رہی ہے۔ فوٹو: فائل

پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ سے ٹرینوں کی آؤٹ سورسنگ کی جا رہی ہے۔ فوٹو: فائل

ملک میں ریلوے کا نظام تمام صوبوں میں موجود ہے،اس کی پٹریاں اوران پرچلنے والی ٹرینیں فاصلوں کوکم کرنے اور قربتوں کو بڑھانے میں اہم کردار کرتی ہیں، یہ نظام ایک زنجیرکی طرح ہے جس سے ساری قوم جڑی ہے اور یہ ملی وحدت اور قومی یکجہتی کی علامت ہے۔ ریلوے کا نظام ہمارا قومی اثاثہ ہے، لیکن مقام افسوس کہ ہم اس نظام کو درست طور پر چلا نہ سکے، ٹریک وہی ہیں جو برطانوی راج میں بچھائے گئے تھے اور ہم اس میں اضافہ بقدر جثہ بھی نہ کرسکے ۔ اسی تناظر میں وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے ریلوے ہیڈ کوارٹر میں منعقدہ پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ پاکستان ریلویزکی سالانہ آمدن گزشتہ چار برسوں میں بڑھ کر 123 فیصد ریکارڈ اضافے کے ساتھ چالیس ارب دس کروڑ روپے تک پہنچ چکی ہے ۔

مال گاڑیوں ، لوکوموٹیوز،آپریشنل انجن کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے ۔ 1055 ایکڑ اراضی قبضہ مافیا سے وا گزارکرائی گئی ہے ‘ سی پیک کے تحت کراچی سے پشاور مین لائن کی اپ گریڈیشن کے کام کا آغاز دسمبر2017سے ہوگا ۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ سے ٹرینوں کی آؤٹ سورسنگ کی جا رہی ہے، کوئی ملازم بیروزگار نہیں ہوگا‘ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کو سپورٹ کرتے ہیں لیکن ریلوے کی نجکاری کے  ہرگزحق میں نہیں ۔یہ وہ چیدہ چیدہ نکات تھے جو انھوں نے اپنی وزارت کے چارسالہ دور کی کارکردگی کے حوالے سے پیش کیے ۔

بلاشبہ ریلوے کا نظام جوگزشتہ دور حکومت میں تقریبا بند ہونے کے قریب تھا ، متعدد بار ٹرینیں ڈیزل نہ ہونے کی بنا پر کئی کئی دن تک چلتی نہیں تھیں، اگر چلتی تھیں تو دو سے تین دن میں اپنے منزل مقصود پر پہنچتی تھیں یا پھر راستے میں کینسل کردی جاتی تھیں، ریلوے انجن ناکارہ ہوچکے تھے اور اگر چلتے تو ان میں آگ بھڑک اٹھتی تھی ۔ ریلوے کے تن مردہ میں جان ڈالنے کے لیے وفاقی وزیر سعد رفیق نے دن رات محنت کی اور ریلوے کو خسارے سے نکال کر نفع بخش ادارہ بنا دیا ۔ اب پاکستانی عوام دوبارہ ٹرین میں سفر کو اولین ترجیح دینے لگے ہیں جوکہ خوش آیند امر ہے، انتہائی کم کرائے میں طویل ترین سفر طے کرنے کا عوامی ذریعہ ہے جس میں جتنی بھی سرمایہ کاری اور سہولتیں بہم پہنچائی جائیں وہ کم ہیں ۔

ایک وقت تھا ریلوے ملازمین کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی ، اب بھی محنت ولگن سے کام کیا جائے تو عوام کو آسان سفری سہولت کے ساتھ ساتھ روزگار کے بہترین مواقعے میسر آسکتے ہیں جس سے ملک میں بے روزگاری کے خاتمے میں مدد ملے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔