غیر مسلم پاکستانی بھی محب وطن ہیں

مزمل سہروردی  بدھ 18 اکتوبر 2017
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

مجھے کیپٹن صفدر سے اتفاق بھی ہے اور اختلاف بھی۔ بلا شبہ نبی اکرمﷺ آخری نبی ہیں اور ان کے بعد کوئی نبی نہیں۔وہ آخری نبی ہیں یہ ہمارے عقیدہ کی بنیاد ہے۔ لیکن اس ضمن میں فوج اور دیگر اداروں میں بھرتیوں اور ترقیوں کے حوالہ سے قانون سازی درست نہیں۔ جہاں تک پارلیمنٹ کا تعلق ہے تو پاکستان کی پارلیمنٹ میں مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کی نشستیں الگ ہیں۔ اقلیتوں کے لیے پارلیمنٹ میں مخصوص نشستیں ان کے حق نمایندگی کو محفوظ بنانے کے لیے مختص کی گئی ہیں۔ اس طرح مسلم نشستوں پر مسلمان اور اقلیتی نشستوں پر اقلیت ہی منتخب ہو سکتے ہیں۔ تاہم جہاں تک دیگر شعبوں کا تعلق ہے وہاں بھرتی اور ترقی کا معیار مذہب نہیں میرٹ اور ٹیلنٹ ہے۔

یہ درست ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے نواز شریف کو دوبارہ صدر بنانے کے لیے جو ترمیم کی ہے اس میں ان سے حلف نامہ کے حوالہ سے ایک غلطی ہو گئی۔ اس غلطی پر سب سے پہلے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے نواز شریف سے ایکشن لینے کا مطالبہ کیا۔ یہ غلطی ایک نئی ترمیم سے ٹھیک بھی کر لی گئی ہے اور اس غلطی کے ذمے داروں کا تعین کرنے کے لیے کمیٹی بھی قائم کر دی گئی ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ اس غلطی سے مسلم لیگ (ن) کے ووٹ بینک کو نقصان پہنچنے کا بھی خدشہ ہے۔ اس سے قبل حلقہ 120 کے انتخابات میں لبیک یا رسول اللہ کی جانب سے آٹھ ہزار ووٹ لینے سے بھی مسلم لیگ (ن) کے اندر خطرہ کی گھنٹیاں بج چکی ہیں۔

پاکستان کی سیاست کی ایک بری بات یہ بھی ہے کہ یہاں ہمیں سب کچھ حکومت چلے جانے کے بعد ہی یاد آتا ہے۔ سب اچھی باتیں حکومت چلے جانے کے بعد ہی یاد آتی ہیں۔ کیپٹن صفدر کی مثال بھی ایسی ہی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ وہ اب یہ باتیں کیوں کر رہے ہیں۔ اقتدار ان کے گھر کی لونڈی رہا ہے۔

خیر اب بھی اگر سمجھا جائے تو اقتدار ان کے گھر کی لونڈی ہی ہے۔ لیکن پھر بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان کے سسر اب نااہل ہو گئے ہیں۔ اس لیے اب اقتدار گھر سے باہر نکل گیا ہے۔ لیکن پھر بھی کوئی کیپٹن صفدر سے سوال کر سکتا ہے کہ آج وہ جس قانون سازی کا مطالبہ کر رہے ہیں انھوں نے یہ مطالبہ اپنے سسر سے کیوں نہیں کیا۔ کیا کوئی ان سے پوچھ سکتا ہے کہ پرویز مشرف کے حوالہ سے جن خدشات کا اظہار وہ اب کر رہے ہیں کیا انھیں اس سب کا پتہ نہیں تھا ۔ اقتدار کے بے رحم کھیل کو مذہب کے رنگ میں رنگنا ٹھیک نہیں۔ اپنے مخالفین کو مذہب کی تلوار سے قتل کرنا جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ کیپٹن صفدر اس حوالہ سے اپنے خاندان کی سزا بھی تجویز کر دیتے۔

میں نے اپنے پہلے کالم میں بھی لکھا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو قومی اداروں سے لڑائی سے اجتناب کرنا چاہیے۔ حیرانگی کی بات ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے اندر بھی یہ بات پوری قوت سے کہی جا رہی ہے مگر کوئی عمل نہیں ہو رہا۔ پہلے شہباز شریف نے ایک بیان جاری کیا جس میں مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں سے یہ مطالبہ کیا گیا وہ قومی اداروں کے حوالہ سے غیر ذمے دارانہ بیان بازی سے پرہیز کریں۔ لیکن اس پر عمل نہیں کیا گیا۔

اس کے بعد وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی کابینہ کے ارکان کو اسی قسم کی ہدائت جاری کی ہے کہ وہ قومی اداروں کے بارے میں غیر ذمے دارانہ بیان بازی سے پرہیز کریں۔چوہدری نثار علی خان بھی اسی قسم کی رائے کا مختلف انداز میں اظہار خیال کر چکے ہیں۔ مگر مشکل یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) ان میں سے کسی کی بات ماننے  کے لیے تیار نہیں۔ پتہ نہیں مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ کیپٹن صفدر نے مذہب کی آڑ میں اب ان دونوں اداروں پر حملہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ جسے بہر حال خوش آیند قرار نہیں دیا جا سکتا۔

بے شک پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ یہ کلمہ طیبہ کی بنیاد پر قائم ہوا ہے۔ لیکن پھر بھی قائد اعظم نے یہاں رہنے والی اقلیتوں کو برابر کے حقوق  کی گارنٹی دی تھی۔ اگر اعلیٰ عدلیہ کی بات کی جائے تو اے آر کارنیلئس اور بھگوان داس پاکستان کے دو بڑ ے چیف جسٹس رہے ہیں جن کا تعلق اقلیتوں سے تھا۔ یہ دونوں ہمارے ماتھے کا جھومر ہیں۔ پوری قوم کو ان پر فخر ہے۔

اسی طرح پاک فوج میں بھی غیر مسلم لیفٹینٹ جنرل کے عہدہ تک پہنچے ہیں۔ ان میں احمدی اور دیگر اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افسر بھی شامل ہیں۔ اور انھوں نے پاکستان کا مکمل دفاع کیا ہے۔ میں پریشان ہوں کہ اگر پاکستان کی اقلیتوں نے یہ سوال کر دیا کہ ستر سال کا حساب کر لیں کہ پاکستان کو نقصان پہنچانے والوں میں زیادہ شرح مسلمانوں کی ہے یا غیرمسلموں کی ہے۔ قرضے کس نے زیادہ ہڑپ کیے ہیں۔ کرپشن میں سر فہرست کون ہے۔

سرکاری زمین پر قبضہ کرنے والوں میں سر فہرست کون ہے۔ ایک دوسرے کے حقوق سلب کرنے والوں میں آگے کون ہے۔ غرض کے شراب نوشی میں آگے کون ہے۔ اس لیے ہمیں پاکستان میں مذہب کی بنیاد پر اچھے اور برے کا فیصلہ کرنے کی روائت نہیں ڈالنی چاہیے۔ بلکہ اچھائی اور برائی کا فیصلہ اچھائی اور برائی کے معیار پر ہی ہونا چاہیے۔ کیا ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ صرف مسلمان اچھے پاکستانی ہیں اور غیر مسلمان اچھے پاکستانی نہیں ہیں۔ کیا صرف مسلمان محب وطن پاکستانی ہیں اور غیر مسلم محب وطن نہیں ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت خاموش ہے۔ اسے بولنا چاہیے۔یہ پاکستان کی بات ہے۔ سیاسی مفادات کی وجہ سے خاموشی بھی جرم ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔