بلی کا گلا

عبدالقادر حسن  بدھ 18 اکتوبر 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ووٹ کا مقصد یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ عوام سے ووٹ لو ، اقتدار میں آؤ اور پھر عوام پر ان کی نہیں اپنی اپنی مرضی سے من مانی حکمرانی کرو۔ ادارے جائیں بھاڑ میں ادارے خود ہی ٹھیک ہو جائیں گے۔ میاں شہباز شریف کایہ کہنا ہے کہ عدلیہ اور فوج کے احتساب کی باتیں چھوڑ دینی چاہئیں کہ ان اداروں کا احتساب کا اپنا ایک مضبوط اور مربوط نظام ہے۔ بے یقینی کی کیفیت ملک بھر میں پھیلی ہوئی ہے اور یہ پھیلی ہوئی بے یقینی کسی اور نے نہیں پھیلائی بلکہ اشرافیہ نے خود پھیلائی ہے تا کہ اس کیفیت میں ان کا دال دلیہ چلتا رہے اور وہ اپنی موج میں مست رہیں، کوئی پوچھنے والا نہ ہو ۔

ایک طرف تو حکومت کی جانب سے عدلیہ اور فوج کے بارے میں مسلسل تنقید کے نشتر برسائے جا رہے ہیں اور یہ کام تواتر کے ساتھ کیا جارہا ہے، کبھی ایک وزیر کچھ کہتا ہے اور کبھی دوسرا وزیر کچھ اور کہہ کر اس میں مزید اضافہ کر دیتا ہے اور عوام کو اس چکر میں بے وقوف بنایا جا رہا ہے لیکن اب عوام بھی بڑی حد تک اشرافیہ کے ان چکروں کو سمجھ چکے ہیں اور اشرافیہ کے بہکاوے میں نہیں آرہے ہیں اس کا ایک مظاہرہ ہم جی ٹی روڈ پر دیکھ چکے ہیں۔

میاں شہباز شریف نے اپنی جماعت کی پالیسی سے ہٹ کر بات کی ہے، وہ نیب کے دائرہ کار میں وسعت کے بجائے اس کی کارکردگی میں بہتری کے خواہاں ہیں، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ نیب ماضی کی طرح موجودہ دور میں بھی کرپشن روکنے میں ناکام رہا ہے۔

شہباز شریف اس سے پہلے بھی اپنے پارٹی موقف سے ہٹ کر واضح الفاظ میں کھل کر ملکی معاملات پر اپنی رائے کا اظہار کرتے رہے ہیں ۔ وہ خود بھی اسی نظام کا حصہ اور آج سے نہیں پچھلے کئی سال سے حکمران چلے آرہے ہیں، اپنے انقلابی خیالات کے باوجود وہ بھی کرپشن کے معاملات میں کوئی بھی خاطر خواہ تبدیلی لانے سے قاصر رہے وہ جب بھی اس نظام کے خلاف بات کرتے ہیں تو ان کی کارکردگی کے باوجود ان کی باتوں پر تعجب ہوتا ہے کہ وہ خود اس نظام سے بددل ہوچکے ہیں اور اس میں تبدیلی کے خواہاں ہیں لیکن دوسری طرف اگر ان کی حکمرانی کے دورانیے کو دیکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ خود ایک طویل مدت سے اس نظام کا ہی حصہ ہیں۔

ان کی یہ دو عملی مجھے ہضم نہیں ہو رہی، باوجود ان کی انقلابی باتوں کے یا تو ان کو اس طرح کی باتیں نہیں کرنی چاہئیں یا پھر ان کو حکمرانی چھوڑ کر عوام کے درمیان آجانا چاہیے اور اس ظالم نظام کے خلاف عملی جدو جہد شروع کر دینی چاہیے ورنہ ان کی انقلابی باتوں کو میری طرح عوام بھی دو عملی سے ہی تعبیر کریں گے اور اس کا ان کو فائدے کے بجائے نقصان ہی ہو گا ان کو اپنی نیک نامی کو بحال اور برقرار رکھنا ہو گا ورنہ وہ بھی گمنامی کے اندھیروں میں گم ہو جائیں گے کہ اب وہ وقت نہیں رہا جب عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک لیا جاتاتھا اب وقت بدل چکا عوام سچ بات سننا اور اس پر عمل ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں صرف ظالمانہ نظام کے خلاف باتیں کرنے سے کام نہیں چلنے والا بلکہ اس نظام کو بدلنے والا ہی عوام کا ہیرو بنے گا اب یہ بات ہمارے سیاستدانوں پر منحصر ہے کہ وہ عوام کے ہیرو کا درجہ لینا چاہتے ہیں یا پھر اپنی موج مستی کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔

ہماری یہ بدقسمتی رہی ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام کا ہمیشہ فقدان رہاکبھی سیاسی حکومت نے اپنے اقتدار کے دوران ملک کی بہتری کے لیے مستقل بنیادوں پر پالیسیاں نہیں بنائیں چونکہ سیاستدان ایک عرصے سے اس بات کا مشاہدہ کرتے آرہے ہیں کہ سیاسی حکومتوںکو ان کی معینہ مدت سے پہلے ہی اقتدار سے الگ کر دیا گیا اس لیے پالیسیوں میں تسلسل کی فضاء ہی نہیں بن سکی اور جب تسلسل نہیں ہو گا تو استحکام کی کوئی صورت پیدا ہی نہیں ہو سکتی، اس کے لیے مورود الزام کسی ایک پارٹی کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا سب نے مل کر عدم استحکام کی صورتحال میں اپنا مقدور بھر حصہ ضرور ڈالا ہے۔

سیاسی پارٹیاں اپنے منشور کے مطابق تو عمل نہیں کرتیں بلکہ یہ بات زیادہ مناسب ہے کہ وہ الیکشن میں کامیابی کے بعد اپنے منشور کو کہیں پرے پھینک دیتی ہیں اور ان کا منشور تبدیل ہو کر حکومت اور اس کے نتیجے میںحاصل ہونے والی مراعات کا نام بن جاتا ہے۔

عوام بھی مبارک سلامت کے نعروں میں اپنی پسندیدہ پارٹی کا منشور بھول کر واہ واہ میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ درحقیقت عوام کو یہ بات سمجھ ہی نہیں آنے دی جاتی کہ جن وعدوں پر وو ٹ لیے گئے وہ کہاں گئے کیونکہ ووٹ کی پرچی کے بعد عوام کو اگلے ووٹ کی پرچی تک یہ سمجھ کر بھلا دیا جاتا ہے کہ عوام کو خوش کن نعروں سے دوبارہ بھلا پھسلا کر ووٹ حاصل کر لیے جائیں گے اور یہ ہم دیکھتے رہے ہیں کہ کس کامیابی سے وہ یہ کام کر رہے ہیں ۔ جب ذ رایع ابلاغ میں وسعت ہوئی تو عوامی شعور میں بھی اضافہ ہوا ہے کیونکہ عوام اب ابلاغ کے کسی ایک ذریعے کے مرہون منت نہیں رہے، ان کے پاس کئی ایسے ذرایع موجود ہیں۔

جن سے ان تک معلومات براہ راست اور وافر تعداد میں پہنچ رہی ہیں، اس لیے اب کسی خبر کو روکنا یا لیڈر حضرات کا اپنے کہے سے مکر جانا ممکن نہیں رہا جس سے لیڈر عوام کی نظروں میں بے نقاب ہو گئے ہیں اور ان کو اپنی بات کی حفاظت کرنی مشکل ہو گئی ہے ۔ اب وہ زمانہ گیا جب عوام تک خبر کئی دن بعد پہنچتی تھی بلکہ بسا اوقات خبروں کی تیز رفتار دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ ادھر خبر نکلی اور ادھر دنیا کے دوسرے کونے میں سنی بھی گئی۔

پاکستان کی سیاست کے لیڈروں کو یہ سمجھ آجانی چاہیے کہ ان کے سیاسی بیان نہیں بلکہ عوام کے لیے ان کی جانب سے کیے گئے کام بھی بولیں گے، انقلابی خیالات سے زیادہ انقلابی اقدامات کا دور ہے، عوام کے لیے فلاحی کاموں کا انقلاب برپا کرنے والا اور صحیح معنوں میں ملکی اشرافیہ کے خلاف احتساب کا عمل شروع کرنے والا ہی ہیرو بنے گا، دیکھتے ہیں بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔