پہلے سوشلسٹ انقلاب کے سو سال

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 18 اکتوبر 2017
tauceeph@gmail.com

[email protected]

ڈاکٹر کارل مارکس جرمنی میں پیدا ہوئے۔ ان کے خاندان کا تعلق امراء کے طبقے سے تھا۔ مارکس نے فلسفہ کی تعلیم حاصل کی اور مزدوروں اور کسانوں کے استحصال کے خاتمے کے لیے کمیونسٹ ریاست کا نظریہ پیش کیا۔ مارکس کو اپنے نظریات کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ۔ ان کو اپنا وطن جرمنی چھوڑنا پڑا وہ بیلجیئم روانہ ہوئے، مگر وہاں پناہ نہ ملی تو برطانیہ میں پناہ گزیر ہوئے۔

کارل مارکس نے ایک صحافی اور مصنف کی حیثیت سے غربت کی زندگی گزاری ۔ مارکس نے انسانی معاشرے کے ارتقاء کا عرق ریزی سے جائزہ لیا اور ماحولیاتی مادیت کا نظریہ پیش کیا۔ مارکس کا کہنا تھا کہ مادی حالات انسانوں کے خیالات کی بنیاد بنتے ہیں اور سماجی عمل میں تضاد کے نتیجے میں سماج ایک نئے دور میں داخل ہوتا ہے۔

مارکس کا کہنا تھا کہ قدر زائد کے خاتمے سے مزدوروں کے استحصال کا خاتمہ ہوسکتا ہے اور پرولتاری آمریت کی حامل ریاست ہی مظلوم طبقات کے استحصال کا خاتمہ کرسکتی ہے۔کارل مارکس کا کہنا تھا کہ پرولتاریہ (مزدور) کے پاس سوائے اپنی زنجیروں کے کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے، اس بناء پر مزدور طبقات انقلاب کی قیادت کریں گے ۔ مارکسی دور سرمایہ دارانہ نظام کے بد ترین استحصال کا دور تھا ۔ برطانیہ میں مزدور طبقے کے حالات کار  بد ترین تھے ۔ مزدور تنظیمیں اپنے طبقے کے مفاد کے لیے انتھک جدوجہد کر رہی تھیں۔

مارکس نے پیشگوئی کی تھی کہ یورپ میں سب سے پہلے برطانیہ میں انقلاب آئے گا۔ روس یورپ کا پسمانہ ترین ملک تھا۔ یہاں شاہی خاندان کی آمریت عروج پر تھی۔ روسی اسٹیٹ چرچ تھی۔ آرتھو ڈکس چرچ روس کا سرکاری مذہب تھا۔ اس کے علاوہ دیگر عقائد ممنوع تھے اور قابل تعذیب سمجھے جاتے تھے۔ روس کی کل 14 فیصد آبادی شہروں میں رہتی تھی۔ 81 فیصد آبادی کا انحصار زراعت پر تھا۔ سرکاری کاغذات کے مطابق کسانوں کو سال میں 100 دن تک خوراک میسر ہوتی تھی۔ 1914 میں روس کی 18 کروڑ کی آبادی میں سے 83 فیصد میں ایسے بچوں کی تعداد بھی جو ابتدائی تعلیم کی درسگاہوں تک رہ گئے تھے۔

روس میں 19ویں صدی کے آخری دور میں سرمایہ داری کا ظہور ہوا۔ روس کی سرمایہ داری میں زراعت کو انتہائی فوقیت اور غلبہ حاصل تھا۔ کہا جاتا ہے کہ روسی سرمایہ داری نے اس وقت کام شروع کیا تھا جب برطانیہ کی سرمایہ داری کا دور ختم ہوچکا تھا۔ انقلاب روس کا لیڈر کمیونسٹ انٹرنیشنل کا بانی  لینن 23 اپریل 1870میں ہیمبرگ کے مقام پر جوکہ وسطی والگاؤ کے علاقے میں واقع ہے پیدا ہوا۔ اس کے والد ابتدائی مدرسوں کے انسپکٹرتھے۔ لینن کی عمر 17 سال کی ہی تھی جب اس کو بڑے بھائی الیگزینڈر کو زار روس کے قتل کی سازش کی بناء پر سینٹ پیٹرز برگ کے جیل خانہ میں پھانسی کی سزا ملی۔

والگاؤ کے نزدیک کاذان یونیورسٹی میں لینن نے قانون کی تعلیم حاصل کی۔ لینن نے طالب علمی کے زمانے میں کارل مارکس اور فرہائیڈر اینگلر کی تصانیف کا نہایت گہرائی سے مطالعہ کیا۔ لینن نے 1893میں سینٹ پیٹربرگ میں سوشل ڈیموکریٹ گروہ میں شمولیت اختیار کی۔

لینن کی سرگرمیوں کے نتیجے میں 1896 میں سینٹ پیٹربرگ میں مزدور طبقے کے لیے جدوجہد کرنے والی لیگ St. Petersburg League of Struglle for the Emanicaption of the working class قائم ہوئی۔ دسمبر 1895میں لینن گرفتار ہوا اور سوشلسٹ ہونے کے جرم میں 14مہینے کے لیے جیل بھیج دیا گیا اور وہاں سے فروری 1897 میں سائیبیریا جلاوطن کردیا گیا۔ سائیبیریا میں اپنی جلاوطنی کی مدت ختم ہونے کے بعد لینن کا طویل عرصہ ملک سے باہر گزرا۔

لینن 1905  میں انقلاب میں ایک بار روس آیا تھا لیکن کچھ عرصہ بعد اسے پھر ملک چھوڑ کر جانا پڑا۔ لینن 1917 میں انقلاب کی رہنمائی کے لیے روس آیا۔ اس نے جلاوطنی کے دوران جرمنی، سوئٹزرلینڈ، فرانس، انگلستان اور آسٹریا میں وقت گزارا۔ لندن میں لینن کا بیشتر وقت عظیم تاریخی لائبریری British Museum میں گزرا جہاں اس سے سے پہلے سوشلزم کے جنم داتا کارل مارکس نے اپنی غریب الوطنی کی زندگی کے سالہا سال مطالعہ میں گزارے تھے۔

1903کے موسم گرما میں بروسلز Brusels کے مقام پر روسی سوشل ڈیموکریٹ پارٹی کی کانگریس منعقد ہوئی۔ کانگریس کے اجلاس کے پہلے دن پولیس کا امتناعی حکم جاری ہونے کے بعد مجبوراً کانگریس کا اجلاس لندن منتقل ہوا۔ اس کانگریس میں لینن کے ہم خیال اکثریت میں تھے جو تاریخ میں بالشویک کہلائے۔ لینن کی قیادت میں پہلا سوشلسٹ انقلاب 17 اکتوبر 1917 کو کامیاب ہوا اور پہلی سوشلسٹ ریاست سوویت یونین قائم ہوئی۔ زمین، روٹی اور صلح، یہ انقلاب کے نعرے تھے۔ صلح کا نعرہ سوویت حکومت نے اپنے 8 نومبر کے فرمان کا موضوع بنایا۔ عنان حکومت ہاتھ میں لیتے ہی سوویت یونین نے سب سے پہلا فرمان جاری کیا۔ وہ سامراجی جنگ سے اپنی علیحدگی کا اعلان تھا۔ سوویت حکومت نے برسر اقتدار آتے ہی وائرلیس کے ذریعہ دنیا کے سامنے اپنی تجویز پیش کی کہ تمام محاذوں پر جنگ بند کردی جائے۔

فرانس اور برطانوی سفارت خانوں نے اعلان کہا کہ اتحادی حکومتوں کے لیے روس کا جنگ سے اس طرح کنارہ کشی اختیار کرنا سخت ناپسندیدگی کا باعث ہوا۔ جرمن حکومت نے سوویت حکومت کی تجویزکو قبول کیا اور فوری صلح کے لیے بات چیت شروع کردی۔ سوویت یونین نے 7 اور 8 نومبر کو مزدور اور قومی نمایندوں کی سوویتوں کی دوسری کانگریس میں فیصلہ کیا کہ تمام زرعی زمینوں کو قومی ملکیت قرار دیا جائے اور زمین کسانوں میں تقسیم کردی جائے اور تمام صنعتوں کو قومی ملکیت میں لے لیا گیا۔

سوویت یونین کی ریاست نے تمام شہریوں کے لیے مفت تعلیم، صحت، روزگار اور رہائش کی سہولت کی فراہمی کا فریضہ اپنالیا۔ سوشلسٹ پالیسی کے اقتصادی اصولوں پر عملدرآمد کے نتیجے میں 1927۔ 1928 تک ملک کا صنعتی ڈھانچہ بحال ہوچکا تھا۔

سوویت یونین نے اجتماعی کاشت کا طریقہ کار رائج کیا۔ اس طریقہ کار کے تحت زراعتی پیداوار کے تمام ذرایع ہل، بیل زر زمین وغیرہ کو مشترکہ استعمال کے لیے اکٹھا کر کے ایک خاص قسم کی پیداوار کرنے والوں کی کو آپریٹو سوسائٹی قائم کرنا تھا۔ سوویت یونین کا ایک وفاقی آئین تیار کیا گیا جس میں 15 ریاستوں کو خودمختاری دی گئی۔ آئین کے تحت ہر ریاست کی زبان اور ثقافت کو تحفظ فراہم کیا گیا۔

سوویت یونین کو اپنے قیام کے فورا بعد اتحادیوں سے جنگ کو برداشت کرنا پڑا۔ جب سوویت فوج نے پڑوسی ممالک کے حملے ناکام ہوئے تو پھر دوسری جنگ عظیم شروع ہوگئی۔ جرمنی نے سوویت یونین پر حملہ کردیا۔ دوسری جنگ عظیم میں زیادہ نقصان سوویت یونین کا ہوا۔ ہٹلر کی شکست کا آغاز سوویت علاقے سے ہوا جو ہٹلر کے زوال کی بنیاد بنا۔ اس تمام تر صورتحال کے باوجود دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر سوویت یونین کا شمار دنیا کی دوسری بڑی طاقت کی حیثیت سے ہونے لگا۔

سوویت یونین کے استحکام کی بناء پر برطانیہ میں فلاحی ریاست کا تصور آیا اور مزدوروں کو وہ مراعات مل گئیں جن کا سر مایہ دارانہ دنیا میں پہلے تصور ممکن نہیں تھا ۔ سوویت یونین ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا میں استعماریت کے خلاف مظلوم عوام کی جدوجہد کا سب سے بڑا حامی بن گیا۔ کیوبا میں فیڈل کاستروکی کامیابی ویت نام کے عوام کی 20 سالہ جدوجہد، فلسطین کی ریاست کے قیام کے لیے پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات کی جدوجہد سوویت یونین کی بناء پر ممکن ہوئی۔

سوویت یونین نے ترقی پذیر ممالک میں صنعتی ڈھانچے کو مستحکم کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر اقتصادی مدد فراہم کی۔ سوویت یونین نے بھارت، پاکستان، ایران، مصر اور میکسیکو وغیرہ میں اسٹیل ملز قائم کیں جس سے ان ملک کی صنعتوں کو استحکام حاصل ہوا۔ سوویت یونین نے بہت جلد ہی صد فیصد خواندگی اور خواتین کی ہر شعبے میں برابری کا ہدف حاصل کرلیا تھا۔

سوویت یونین نے الحاق ہند، وسطی ایشیائی ممالک میں جدید شہر تعمیرکیے اور صنعتی انفرا اسٹرکچر ارتقاء پذیر ہوا ۔ سوویت یونین میں کچھ عرصے پرولتاری آمریت کا نظریہ کامیاب رہا۔ اسٹالن اور اس کے بعد برسراقتدار آنے والے کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں کی غفلت کی بناء پر بیورکریسی نے اپنی آمریت قائم کی جس سے عوام اور حکومت میں فاصلے بڑھ گئے۔ سوویت کمیونسٹ پارٹی کی انسانی حقوق کی پاسداری کی اہمیت کو محسوس نہ کرنے پر دنیا بھر میں اس کا امیج متاثر ہوا۔

سوویت یونین کا افغانستان کے بارے میں غلط حکمت عملی کا امریکا نے فائدہ اٹھایا، یوں سوویت معیشت کمزور ہوئی۔ عوام میں بے چینی بڑھی جس کو کمیونسٹ پارٹی کے پولٹ بیورو کے اراکین محسوس نہ کرسکے، یوں یہ عظیم ریاست بغیر کسی خون خرابے کے 1991میں بکھر گئی۔ دنیا یونی پولر ورلڈ میں تبدیل ہوگئی، فری مارکٹ اکنامی 15 ویں اور 16ویں صدی کے  استحصال کے طریقے یاد دلائے۔ امریکا پوری دنیا کا چوکیدار بن گیا، یوں دنیا ایک نئے بحران کا شکار ہوگئی۔

17 اکتوبر کو پہلے سوشلسٹ انقلاب کی 100ویں سالگرہ تھی۔ دنیا کو آج پھر ایک اور انقلاب کی ضرورت ہے مگر جدید دور کے تقاضوں کے تحت پرولتیاریہ سمیت کسی قسم کی آمریت کا تصور ممکن نہیں مگر استحصال سے پاک معاشرے کی آج بھی اتنی ہی ضروت ہے جتنی ضرورت اکتوبر 1917 کو تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔