غریب کی دنیا اتنی گھنائونی کیوں؟

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 18 اکتوبر 2017

نومبر 1852ء، سوہو لندن کا مزدور علاقہ ہے اور جہاں گھروں کے نام  پر غلیظ ڈربوں میں انسانوں کے زندہ پنجرے آباد ہیں۔ اس سے متصل ڈین اسٹریٹ کے چھوٹے چھوٹے دو کمروں پر مشتمل ایک مکان میں افلاس مجسم اور امیروں کی دنیا پرطنز کی ایک انوکھی تحریر کا پیکر شاہکار کتابوں اورکاغذو ں سے پٹے ہوئے فرش پر ایک ادھیڑ عمر انسان غورو فکر میں ڈوبا ادھر سے ادھر سے اور ادھر سے ادھرگھوم رہا ہے۔

برابر کے کمرے میں محبوب بیوی اپنے بیمار بچے کے سرہانے بیٹھی موت اور زندگی کے درمیان اس ننھے سے لخت جگرکی جدو جہد کو یاس اور بیچارگی کی وحشت زدہ اور اشک فراموش آنکھوں سے ٹک ٹک دیکھ رہی ہے۔ اس کے لیے یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے، اسی بستر پراس کی یہ ہی آنکھیں جن میں با رہا، آنسو ابھر ابھر سوکھ چکے ہیں، پہلے بھی اپنے کلیجے کے معصوم ٹکڑوں کو اس طرح ایک نہیں دودو بار بھوک اورافلاس کے ہاتھوں اجڑتے دیکھ چکی ہے گھر میں پیسہ نہیں کہ بیمار بچے کے لیے دو گھونٹ  دودھ ہی مہیا کیا جاسکے، دوا  تو بہت دورکی بات ہے۔

بچے کی ماں اپنے باپ کے نوابی گھر میں شہزادیوں کی طرح رہتی تھی وہ آج اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے لخت جگرکو یوں بھوک اور افلاس میں بے بسی کے ساتھ جان توڑتے ہوئے دیکھ رہی ہے مگرکچھ کر نہیں سکتی۔ گھر میں اب کچھ باقی نہیں ہے، جسے بیچ کر ہاتھ میں دوچار پیسے آجاتے اور بچے کی دوا کی جا سکتی۔ بچے کی آہ سے مکان کی تمام فضا کراہنے لگتی ہے، برابرکے کمرے میں قدموں کی چاپ کچھ لمحوں کے لیے تھم جاتی ہے، بد نصیب باپ تھوڑی دیرکے لیے رک جاتا ہے اور غمزدہ نگاہوں سے بچے کے کمر ے کی طرف دیکھتا ہے۔

کمرے کے بیچوں بیچ کتابوں، رسالوں اورکاغذوں سے لدی ہوئی میزپر ایک اخبار کھلا پڑا ہے،کبھی کبھی اس کے نزدیک سے گزرتے ہو ئے یہ انسان لمحہ بھرکے لیے رک جاتا ہے،کچھ پڑھتا ہے اور پھر گھومنے لگتا ہے ’’کولون کے مقام پرکمیونسٹ لیگ کے مرکزی بورڈ کے ممبروں پر مقدمہ چل رہا ہے اور یہ ممبرجیل کی کال کوٹھڑیوں میں بند حکومت کے مظالم سہہ رہے ہیں‘‘ یہ خبر ہے جو میز پر پڑے اخبارکے کالموں میں سے اس بیمار بچے کے جلا وطن باپ کی آنکھوں میں گھوم رہی ہے۔

ان ساتھیوں کی کس طرح مدد کی جائے،کس طرح ان کی طرف سے صدائے احتجاج بلند کی جائے، کس طرح سلاخوں اور دیواروں میں گھٹی ہوئی، ان کی آواز، ان کے پیغام دنیا کے کانوں تک پہنچایا جائے اس احتجاج کی عبارت اس کے دماغ میں گونج رہی ہے۔ عبارت کا ہر فقرہ اس کے دل کی دھڑکن کو تیزکررہا ہے، غریب کی دنیا اتنی گھناؤنی کیوں ہے، ان قیدیوں کا پیغام دنیا تک پہنچانا ہوگا اور اس مقصد کے لیے کم ازکم ایک پمفلٹ کی اشاعت نہایت ضروری ہے لیکن اس کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا، گھر میں کوئی بھی تو چیز ایسی باقی نہیں ہے جسے فروخت کیاجاسکے یا گروی رکھا جاسکے وہ گھومتے گھومتے یکایک کھڑکی کے پاس رک جاتا ہے باہر اندھیرا اور زیادہ گہرا ہوگیا ہے، سردی اور بڑھ گئی ہے۔  بچے کے کراہنے کی آواز اسے پھر سے چونکا دیتی ہے، وہ پنجوں کے بل آہستہ آہستہ اس کے سرہانے جاتا ہے۔

اپنی محبوب بیوی کے شانے پر ہاتھ رکھ کر تھوڑی دیر بچے کا منہ تکتا رہتا ہے اورپھر اسی طرح آہستہ آہستہ کمرے سے باہر نکل جاتا ہے، وہاں سے نکل کر سیدھا ایک مہاجن کی دکان پر پہنچتا ہے اور اس کڑکڑاتی سر دی میں اپنا کوٹ اتارکر وہ جو اس کے پاس آخری رہ گیا تھا۔ مہاجن کے پاس گروی رکھ دیتا ہے کوٹ کے پیسے لے کر وہ سیدھا ایک چھاپہ خانہ میں پہنچتا ہے اورکولون میں گرفتا ر ساتھیوں کے لیے احتجاج میں ایک پمفلٹ لکھ کر اسے شایع کراتا ہے اور پھر اپنے دم توڑتے بچے کے سرہانے واپس آکرآبیٹھتا ہے اپنے لخت جگر کی آخری گھڑیاں گننے کے لیے اس کو دم توڑتے دیکھنے کے لیے یہ انسان کارل مارکس ہے۔

وہ کہتا ہے کہ اگر کسی شخص کی بیل کی کھال ہو تب تو وہ ضرور غریب انسانوں کے مصائب سے بے پرواہ رہ سکتا ہے  اور اپنی ہی کھال کی فکر میں زندگی بسرکرسکتا ہے لیکن میرے جیسے حساس انسان کے لیے یہ ناممکن تھا کہ انسانیت کی چیخ سنتا اور خاموش بیٹھا رہا ۔

آج بھی پاکستان سمیت دنیا بھرکے کروڑوں انسانوں کو لاحق سب سے بڑی بیماری غربت ہی ہے،اس بیماری نے جیتے جاگتے انسانوں کو زندہ درگورکر رکھا ہے ۔ مساوات کے بغیر انسانی سماج کی نجات ناممکن ہے وہ سماجی نظام جو بنی نوع انسان کو دوبار عالمگیر جنگ کی بھٹی میں جھونک چکا ہے ۔ وہ نظام جو نسل انسانی کے گورکنوں ، ہٹلر ، مسولینی ، چیمبر لین ، لنلتھگو ، ٹو جو ، میزیائم ، ایمری ، جنرل ضیاء اور لوال جیسی شخصیتوں کو ناصرف برداشت کرسکتا ہے بلکہ تعظیم اور تکریم کے قابل سمجھتا ہے ۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں جو قیامت برپا ہے وہ اس نظام کے گھناؤنے چہرے کا عکس ہے۔

کیا وہ سماج جس میں ایک طرف دولت کااتنا انبارہو جوکہ کبھی سنا نہ دیکھا  اوردوسر ی طرف آبادی کا ایک بڑا حصہ بہت ہی بڑا حصہ بھوک میں روٹی کے لیے تڑپ کر اور ترس ترس کر مرجاتا ہو۔ رزق پیدا کرنے والا کسان فاقوں مرتا ہو، دولت پیدا کرنے والا مزدوربھوک ، افلاس کا شکار ہوکیا، ایسا سماج اپنی بقاء کے لیے کوئی دعویٰ پیش کرسکتا ہے۔

اس سماج میں وہ طبقہ جو مفلس ہے اور بھی مفلس ہوتا جا رہا ہے ۔ ایک طرف سماج کا ایک حصہ عیش وعشرت کے سمندر میں غرق ہے اور دوسری طرف غربت ، بیروزگاری اور فاقہ کشی موت کا پیغام بنی ہوئی ہے،کہتے ہیں مصیبت تنہا نہیں آتی بلکہ یہ ہوتا ہے کہ مصائب کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے آج یہ وہی تصویر ہے جوگوئٹے کے ’’فا وسٹ ‘‘ میں چانسلر اپنے بادشاہ کو رپورٹ کرتے ہوئے شکایت کرتا ہے کہ ہرطرف دکھ ہیں مصائب ہیں، ایک برائی جاتی ہے تو دوسری آجاتی ہے۔

دوسری جنگ عظیم میں جب چرچل نے یہ اعلان کیا کہ اسے انگریزوں کا خون پسینہ اور آنسو درکار ہیں تو اس کے اس اعلان کی مزاحمت نہیں ہوئی بلکہ اسے دل و جان سے قبول کیاگیا۔کیونکہ اس نے ان کے دل کی گہرائی میں چھپی قربانی کی خواہش کو زندہ کیا انگریزوں ، جرمنوں اور روسیوں کا رد عمل بھی ایسا ہی تھا ۔ لوگوں پر بم گرائے جارہے تھے ۔ بل گرانٹ کے مطابق جب عوام مشکلا ت کا شکار ہوں تو اس کے حوصلے اور جذبے میں شگا ف نہیں پڑتا یہ بات ان کے حوصلے کو اور مضبوط کردیتی ہے  اور جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ خو فناک بمباری دشمن کے حوصلے ختم کرتی ہے اور جنگ کو جلد ختم کرنے میں مدد دیتی ہے یہ ہمیشہ غلط ثابت ہوتا ہے ۔

نجات کا راستہ آگے جانے ، ترقی کرنے اور نئے معاشرے کی تخلیق میں ہے ایسا معاشرہ جہاں عدم مساوات ، طبقاتی جنگ اور استحصال نہ ہو جمہوریت ہو جہاں ہر شخص اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق کام کر رہا ہو ۔ ایسا معاشرہ جہاں جسمانی بھوک کے ساتھ ساتھ ذہنی بھوک کا خاتمہ ہوجائے۔ ایرک فرام کہتا ہے میری یہ تجویز ہے کہ سماج اور انسانی کردارکی تبدیلی کے لیے یہ شرائط پوری کرنی ہوں گی ۔ (1) ہم تکالیف میں ہیں تو ہمیں اس سے واقف ہونا چاہیے(2) ہمیں اپنی بیماری (برائی) کی اصل وجوہات سے آگاہ ہونا چاہیے (3) اس بیماری پر قابو پانے کا کوئی نہ کوئی راستہ ہونا چاہیے (4) اس سے نجات کے لیے ہمیں زندگی کے قواعد کو قبول کرنا ہوگا اور تبدیلی کے لیے موجودہ طرز زندگی کو ترک کرنا ہوگا۔

یہ چار نکات چار عظیم سچائیاں ہیں جو بدھا کی تعلیمات سے اخذ کی گئی ہیں ۔ یہ ہی اصول کارل مارکس اور فرائیڈ نے قائم کیے ۔ جب انھوں نے انسانی نجات کا نظریہ دیا ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ’’ سچ تمہیں آزاد کرتاہے ‘‘ اور سچ یہ ہے کہ ہماری نجات کا واحد رستہ بھی یہی نکات ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔