ایوان صدر میں سولہ سال

رفیع الزمان زبیری  جمعرات 19 اکتوبر 2017

م۔ب خالد اپنی دوران ملازمت کی یاد داشتیں لکھنے بیٹھے تو خوف خدا کا جذبہ کار فرما رہا۔ انھوں نے 1952ء میں گورنر جنرل غلام محمد کے پرسنل اسسٹنٹ کی حیثیت سے کام شروع کیا۔ لکھتے ہیں ’’اس وقت میرے ذہن وگمان میں بھی نہیں تھا کہ مجھے اتنے قریب سے نہایت اہم تاریخ ساز واقعات کا مشاہدہ کرنا ہوگا۔ وطن عزیزکی قسمت سے کھیل تماشے نظروں سے گزریں گے۔ بڑے لوگوں کی چھوٹی باتیں، بہادروں کی بزدلی، ایمان داروں کی بے ایمانی، سچوں کے جھوٹ اور پڑھے لکھوں کی جہالت دیکھوں گا اور دیکھتا رہ جاؤں گا۔‘‘

خالد نے غلام محمد اور ان کے بعد اسکندر مرزا اور پھر ایوب خان کے ساتھ جو وقت گزارا اس کا احوال بیان کرتے ہوئے اپنی کتاب میں ان کے کردار اور شخصیت کا بھی ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’غلام محمد، اسکندر مرزا اور ایوب خان تینوں اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔ ان کے نامہ اعمال پر فیصلہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ یہ تینوں شخصیات تاریخ دانوں کے نزدیک متنازع رہی ہیں اور ان کے برے اور بھلے اقدام کے ثمرات سے ہم ابھی تک نجات نہیں پاسکے ہیں۔ ان تینوں کے قریب رہتے ہوئے میں نے جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا اسے پوری دیانت داری سے رقم کردیا ہے۔‘‘ اکتوبر 1955ء میں غلام محمد کو بہ مشکل تمام سبکدوشی پر آمادہ کرلیا گیا۔ گورنر جنرل ہاؤس سے ان کی روانگی کا حال بیان کرتے ہوئے خالد لکھتے ہیں کہ غلام محمد بے قابو ہوگئے اوردھاڑیں مارکر رونے لگے۔ میں اس سے قبل غلام محمد کو دو دفعہ روتا دیکھ چکا تھا، ایک بار مسجد نبوی میں روضۂ اطہر واقدس کے سامنے اور دوسری بار بالا کوٹ میں سید احمد شہید کے مزار پر، مگر آج کا رونا کچھ اور طرح کا رونا تھا۔اس رونے میں آواز پر قابو تھا، آنسو بے قابو تھے۔ آج کے رونے میں آنسو ناپید تھے مگر آواز بے قابو تھی۔‘‘

غلام محمد رخصت ہوئے، اسکندر مرزا نے اقتدار سنبھال لیا۔ ان کے لیے بھی آنے والی گھڑی آگئی۔ خالد لکھتے ہیں ’’ستائیس اٹھائیس اکتوبر 1958ء کی درمیانی رات صبح پانچ بجے میں حسب معمول سیرکی غرض سے گھر سے نکلا۔ دور سے پولیس انسپکٹر چوہدری بہاول بخش آتے دکھائی دیے۔ مجھے ہاتھ سے سلام کرکے کچھ اشارہ کیا۔ قریب آئے تو سرگوشی میں کہا۔ ’’لے گئے۔‘‘… ’’کسے لے گئے ؟ ‘‘ میں نے پوچھا۔ بولے ’’سکندر مرزا کو۔‘‘ ناشتے کے بعد خالد جب دفتر پہنچے تو ایوان صدر میں پراسرار سکوت طاری تھا۔ معلوم ہوا کہ رات گیارہ بجے جنرل اعظم، جنرل برکی اور جنرل کے ایم شیخ اپنے سپریم کمانڈر جنرل ایوب خان کی ہدایت پر تشریف لائے۔ اسکندر مرزا کو اپنی آمد کا مقصد بتایا، پھر تینوں جرنیل اسکندر مرزا اور ان کی بیگم ناہید مرزا کو ’’تیغوں کے سایہ‘‘ میں ماڑی پور کے ہوائی اڈے پر لے گئے جہاں ایئرفورس کا خصوصی طیارہ منتظر کھڑا تھا۔ یہ داستان یوں ختم ہوئی۔

ایوب خان نے 2 اکتوبر کو مارشل لا لگایا تھا، اب مکمل اقتدار ان کے ہاتھ میں آگیا۔ 1962ء میں مارشل لا ختم ہوگیا اور اسی شام 8 جون کو ایوب خان نے نئے آئین کے تحت صدر مملکت کا عہدہ سنبھال لیا۔ مارچ 1969ء میں استعفیٰ دے کر ایوان صدر سے رخصت ہوگئے۔ خالد نے اس سے ایک سال پہلے ایوان صدر چھوڑ دیا تھا جب اور آر۔سی۔ڈی کے سیکریٹریٹ میں ان کی پوسٹنگ ہوگئی اور وہ تہران چلے گئے۔

خالد لکھتے ہیں کہ ریلوے بورڈ کو چھوڑ کر جب میں گورنر جنرل کے پرسنل اسٹاف میں شامل ہوا تو میں بہت خوش تھا لیکن پہلے دن ہی سے ایک انجانے خوف نے مجھے آ لیا۔ میں نے دیکھا کہ اسٹاف کا ہر ممبر گھبرایا ہوا ہے، گفتگو رازدارانہ انداز میں سرگوشیوں میں ہوتی ہے، عجیب پراسرار ماحول ہے۔ اپنی ہی آواز سے ڈر لگتا ہے۔ پھر جلد ہی مجھے معلوم ہوگیا کہ یہ لاٹ صاحب کے طرز عمل اور مزاج کا نتیجہ ہے۔ بہرحال خوف آہستہ آہستہ کم ہوتا گیا، خود اعتمادی بحال ہونا شروع ہوئی۔ لاٹ صاحب کی زبان میں لکنت کی وجہ سے ان کی گفتگو کو سمجھنا جتنا مشکل پہلے تھا، اب ویسا نہ رہا۔ ہونٹوں کی کپکپاہٹ کو دیکھ کر اور زبان کی ہڑبڑاہٹ کو سن کر مجھے فقرے مرتب کرنا آگئے، کیڑے مکوڑوں جیسی تحریر کو مناسب الفاظ میں تبدیل کرنا سیکھ لیا۔

غلام محمد کی شخصیت کا ذکر کرتے ہوئے خالد لکھتے ہیں کہ جسمانی طور پر وہ کسی حد تک مفلوج تھے مگر دماغی لحاظ سے بہت چاق و چوبند۔ قوت فیصلہ کے مالک، جرأت اور خود اعتمادی کے پیکر، ہر دم رواں، ہر دم جواں زندگی کے قائل۔ مالی معاملات میں ان کی احتیاط اور دیانت قابل ستائش تھی۔ سرکاری مصارف اور نجی مصارف کے فرق کو ملحوظ رکھتے تھے۔ مہمان نواز تھے۔ ہر دوسرے تیسرے مہینے شہر کے یتیم خانوں کے بچوں کی دعوت کی جاتی۔ بچوں کے ساتھ خود بھی بیٹھتے اور جاتے وقت انھیں کچھ روپیہ بھی دیتے۔ غلام محمد کی خوبیوں اور خرابیوں سے صرف نظر، ان کا نام سنتے ہی ہر محب وطن پاکستانی کے ذہن میں ان تلخ واقعات کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جن کے دوررس نتائج ہماری تاریخ کا ایک المناک باب ہیں۔ ایک واقعہ اپریل 1953ء میں خواجہ ناظم الدین کو وزارت عظمیٰ سے برطرف کرنا تھا جب کہ خواجہ صاحب کو اسمبلی میں اکثریت حاصل تھی اور ایک ماہ پہلے وہ بجٹ بھی منظور کروا چکے تھے، دوسرا غلام محمد کا بغیر کسی جواز کے دستور ساز اسمبلی کو توڑ دینا محض اقتدار کی خاطر۔1955ء میں جب غلام محمد بیمار ہوئے اورکار سرکار کے لیے بے کار ہوتے دکھائی دیے تو انھیں رخصت کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔

ان کی جگہ ایک سابق وفاقی سیکریٹری اسکندر مرزا گورنر جنرل کے اور ایک سابق وفاقی سیکریٹری چوہدری محمد علی وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوگئے۔غلام محمد جب گورنر جنرل ہاؤس سے رخصت ہونے لگے تو انھوں نے اپنے پرسنل اسٹاف کو یادگاری تحفوں سے نوازا۔ خالد کے لیے انھوں نے شیفرز پین کے دو سیٹ نکالے۔ ایک نیا اور دوسرا وہ جو ان کے اپنے استعمال میں تھا اور خالد سے پوچھا کہ کون سا لو گے۔ خالد نے استعمال شدہ قلم کی طرف اشارہ کیا۔ یہ وہ قلم تھا جس سے خواجہ ناظم الدین کا کام تمام اور دستور ساز اسمبلی کا قلع قمع کیا گیا تھا۔ خالد لکھتے ہیں۔ ’’سبز رنگ کا یہ قلم میرے پاس ابھی تک محفوظ ہے۔‘‘ اسکندر مرزا پانچ چھ ماہ گورنر جنرل رہے پھر صدر بن گئے۔ مغربی بنگال کے شہر مرشد آباد کے نواب خاندان سے تعلق رکھنے والے اسکندر مرزا نے ملازمت کا آغاز انڈین آرمی سے کیا، پھر پولیٹیکل ایجنٹ بن گئے۔ پاکستان بنا تو سیکریٹری دفاع بنائے گئے، مشرقی پاکستان کے گورنر ہوئے اور پھر وفاقی وزیر داخلہ، گورنر جنرل اور بالآخر صدر جمہوریہ پاکستان۔ خالد لکھتے ہیں ’’اپنی صدارت کی قلیل مدت میں اسکندر مرزا نے سیاست اور سیاست دانوں کی دل بھر کر مٹی پلید کی۔ پانچ وزرائے اعظم کو ان کے عہدوں سے فارغ کیا، قوم کو مارشل لا کی بھٹی میں جھونک دیا اور آخر میں ملک ہی کو داؤ پر لگانے سے گریز نہ کیا۔ یہاں تک کہ جرنیلوں نے آگے بڑھ کر ان کا راستہ روکا تھا۔

انھوں نے خاموشی سے اپنی سبکدوشی کے کاغذ پر دستخط کیے، ملک بدر ہوئے، دیار فرنگ میں وفات پائی،کشور غیر میں دفن ہوئے۔‘‘جنرل ایوب خان ایوان صدر میں آئے تو خالد کو انھوں نے اپنا پرسنل اسسٹنٹ نمبر ون مقرر کیا۔ خالد بتاتے ہیں کہ غلام محمد فالج کی وجہ سے بہ مشکل لکھ سکتے تھے، اسکندر مرزا کو لکھنے لکھانے کی زیادہ عادت نہ تھی۔ جب ایوب خان آئے تو معلوم ہوا کہ ان کی لکھائی بھی ان کی طرح خوبصورت ہے۔ ان کی سوچ اور ان کی لکھائی دونوں صاف ستھری تھیں۔ صبح آفس آتے تو بیٹھتے ہی بلاوا آجاتا یا اپنے کمرے میں جاتے ہوئے پانچ سات صفحے تھما جاتے۔ کبھی کوئی نوٹ اورکبھی مختلف امور پر نوٹس۔ میں دن بھر مصروف رہتا۔خالد لکھتے ہیں ’’بلاشبہ ایوب خان ایک شریف الطبع انسان تھے۔ وہ اپنی شخصیت، وجاہت اور جامہ زیبی کی وجہ سے اپنے دیگر ہم عصر سربراہان مملکت کے درمیان ہمیشہ ممتاز رہے۔ ملک کے پہلے کمانڈر انچیف ہونے کا شرف حاصل تھا۔ وہ اس اعزاز پر نازاں تھے اور اسے اپنے کیریئر کی معراج سمجھتے تھے۔ بری فوج کے سربراہ ہوتے ہوئے دفاعی نکتہ نظر سے ملک کے اندرونی استحکام کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔‘‘

م۔ب خالد نے قدرت اللہ شہاب کا بڑی انسیت سے ذکرکیا ہے۔ لکھتے ہیں ’’وہ اکتوبر 1954ء میں غلام محمد کے سیکریٹری کی حیثیت سے ایوان صدر میں جو اس وقت گورنر جنرل ہاؤس کہلاتا تھا، تشریف لائے تھے۔ میں دو سال قبل سے غلام محمد کے پرسنل اسسٹنٹ کے طور پر کام کر رہا تھا۔ وہ گورنر جنرل کے اعلیٰ ترین افسر تھے اور اس اعتبار سے ہمارا رشتہ افسر ماتحت کا تھا جو وقت کے ساتھ ساتھ سرکاری حدود پھلانگ کر دوستی کی شکل اختیار کرگیا اور یوں تئیس برس تک میں ان کے لطف و کرم سے بہرہ ور رہا۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔