صحافی گوری لنکیش کا قتل

رضوان طاہر مبین  اتوار 22 اکتوبر 2017
گوری لنکیش کا قتل حالیہ برسوں کے دوران بھارت میں بے باک اور سیکولر دانش وَروں کے قتل کے واقعات میں ایک اور اضافہ ہے۔ فوٹو : فائل

گوری لنکیش کا قتل حالیہ برسوں کے دوران بھارت میں بے باک اور سیکولر دانش وَروں کے قتل کے واقعات میں ایک اور اضافہ ہے۔ فوٹو : فائل

ہندوستان میں جنونیت مخالف صحافی گوری لنکیش کے قتل پر احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔۔۔۔ اب اس میں ہندوستان کے پانچ نیشنل ایوارڈ پانے والے اداکار پرکاش راج کی آواز بھی شامل ہو گئی ہے۔

پرکاش راج قاتلوں کی عدم گرفتاری پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’سب نے دیکھا ہے کہ گوری لنکیش کی موت پر کس نے مسرت کا اظہار کیا، نریندر مودی ٹوئٹر پر ایسے لوگوں کو فالو کر رہے ہیں۔ یہ تو صاف شواہد ہیں، لیکن مودی نے اس پر آنکھیں موندی ہوئی ہیں۔‘

یہ واقعہ بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک میں پیش آیا، جہاں کانگریس کی حکومت ہے، اس لیے مرکزی حکم راں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے راہ نما نالیان کوہلی مرکزی حکومت کو اس معاملے سے بری الذمہ قرار دیتے ہیں کہ کرناٹک حکومت اس کی جانچ کر رہی ہے، وہی قاتل نہ پکڑے جانے پر جواب دہ ہے۔ کانگریسی راہ نما سندیپ ڈکشٹ نے اس امر پر حیرت کا اظہار کیا کہ جو نریندر مودی ’محلے کی دادی‘ کی طرح قوم کو چھوٹی چھوٹی نصیحتیں کرتا ہے، اُس کا اتنی بڑی صحافی کے قتل پر چپ سادھ لینا بہت عجیب لگتا ہے۔

گوری لنکیش کو چھے ستمبر کی رات بنگلور میں اپنے گھر میں داخل ہوتے ہوئے قتل کیا گیا۔ وہ ایک ہفت روزہ کی مدیر تھیں، جو اشتہارات کے بہ جائے عطیات پر چلتا ہے۔ انہوں نے دہلی کے جرنلزم اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد ٹائمز آف انڈیا سے اپنی صحافت کا آغاز کیا۔ اس کے بعد دلی میں ایک انگریزی چینل سے بھی منسلک رہیں، 2000ء میں ان کے والد کا انتقال ہوا، تو انہوں نے اپنے والد کے 20 برس پرانے ہفت روزے کی ادارت سنبھالی، جو وہاں کی مقامی زبان کنڑ میں تھا۔ یہ خیال بھی ظاہر کیا گیا کہ مقامی زبان کی صحافت سے وہ محدود ہوجائیں گی، لیکن اس کے باوجود ان کے نظریات کی گونج نئی دلی تک میں سنی جاتی۔

گوری لنکیش کو جدید دور میں مشنری صحافت کا پیروکار کہا جا سکتا ہے، کیوں کہ وہ نام نہاد غیرجانب داری کے بہ جائے باقاعدہ ایک موقف اختیار کرتی تھیں، اور چاہتی تھیں کہ غلط کو ڈنکے کی چوٹ پر غلط کہا جائے۔ گذشتہ سال ان کو بی جے پی کی جانب سے دائر کردہ ہتک عزت کے ایک مقدے میں چھے ماہ قید اور 10 ہزار روپے جرمانہ عائد ہوا تھا، جس میں اسی روز ان کی ضمانت ہوگئی تھی اور اس کے خلاف انہوں نے اپیل دائر کی ہوئی تھی۔ گوری لنکیش نے بھارتی صحافی رعنا ایوب کی کتاب ’گجرات فائلز‘ کا کنڑ میں ترجمہ کیا تھا۔ رعنا کہتی ہیں کہ گوری لنکیش اُن سے اپنے کالموں اور نظریات کی بنا پر قتل کی دھمکیوں کا تذکرہ کرتی تھیں۔

گوری لنکیش کا قتل حالیہ برسوں کے دوران بھارت میں بے باک اور سیکولر دانش وَروں کے قتل کے واقعات میں ایک اور اضافہ ہے، اس سے پہلے معروف اسکالر ایم کلبرگی، توہم پرستی کے خلاف سرگرم کارکن نریندر دابھولکر اور سیاست داں گووند پانسرے کو بھی ہلاک کیا جا چکا ہے۔ ایم کلبرگی 2015ء میں کرناٹک میں ہی قتل کیے گئے۔

گوری لنکیش کے قتل پر سورت شہر کے ایک تاجر نکھل دادھیچ جو خود کو ہندو نیشنلسٹ بھی کہتا ہے، ٹوئٹر پر لکھا کہ ’’ایک کتیا کتے کی موت کیا مری، سارے پِلّے ایک ہی سُر میں بلبلا رہے ہیں‘‘ جس پر ہندوستان کے معتدل حلقوں نے شدید احتجاج کیا۔۔۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ نکھل دادھیچ کو بھارتی وزیر سمرتی ایرانی اور نریندر مودی بھی ٹوئٹر پر فالو کرتے ہیں، جس سے لوگوں کے غم وغصے میں اور بھی اضافہ ہوا۔ مشہور صحافی روش کمار نے اسے شرم ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہندو دھرم کے مطابق کوئی دنیا سے چلا جائے، تو 13 دن سوگ منایا جاتا ہے، مگر یہاں تو 13 گھنٹے بعد ہی انہیں ’کتیا‘ لکھنا شروع کر دیا گیا۔ ہمارے وزیراعظم مودی ایسے لوگوں کو فالو کریں اور چاہیں کہ ہم اُن کی عزت کریں!

ذرایع اِبلاغ کا نوحہ کرتے ہوئے روش کمار نے کہا کہ اب یہاں ٹی وی پر صرف چمچے بچے ہیں۔ چینلوں پر روزانہ نو بجے آنے والے یہ ’سرکاری غنڈے‘ ہیں، جو گوری لنکیش کے قتل کی وجوہات بتا رہے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ ’اپنے ہی کرم لوٹ کے آرہے ہیں تو مارے گئے‘ اس طرح تو یہاں ہر آدمی مارا جائے گا۔ یہ خبری چینل عوام کو غیرحقیقی مسائل میں الجھاتے ہیں، تاکہ اصل مسائل سے توجہ بٹی رہے۔ ہم جو بٹ رہے ہیں اس سے کیا حاصل ہو رہا ہے، یہ خالی نعرہ ہے کہ ’’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘‘ لیکن حقیقت کچھ اور ہے۔

روش کمار نے کہا کہ یہاں کسی مسئلے کی جانچ ہوتی ہے، نہ ذمے دار سامنے آتے ہیں۔ آج جو گوری لنکیش کے حق میں بول رہا ہے، وہ بھی نشانے پر ہے، یہ ہم سب کے لیے پیغام ہے کہ خاموش ہوجائیے۔ اب لوگ فکرمند ہیں کہ آپ کی جان کو بھی خطرہ ہے اور مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ میں بھی مر گیا ہوں۔ کیا ہم بھی یہ اعلان کر دیں کہ آج سے ہم بھی سرکار کے دلال ہوئے؟

گوری لنکیش نے ہندوستان کے مشہور طالب علم راہ نما کنہیا کمار کو بیٹا بنایا ہوا تھا۔ کنہیا کو گزشتہ برس مودی سرکار نے غداری کے الزامات میں گرفتار بھی کیا تھا ، وہ اُن کے قتل پر کہتے ہیں کہ گوری لنکیش کا ماننا تھا کہ سچ بولنا بہت کٹھن ہے، مجھ پر جب بھی کوئی حملہ ہوتا تھا، تو وہ کہتی تھیں کہ اس ردعمل سے سمجھو کہ تم صحیح راہ پر ہو۔ وہ بھی سچ بولنے کے سبب اپنی جان سے گئیں۔

کنہیا کمار نے ہندوستان میں کھانے، بولنے اور نظریات کے اختلاف پر قتل کیے جانے کی سوچ پر تشویش کا اظہار کیا، کہ کہا جارہا ہے کہ وہ اس لیے قتل ہوئیں کہ وہ بائیں بازو سے تھیں، یا ’فیمنسٹ‘ تھیں، کیا یہ کسی کے قتل کا جواز ہے؟ کسی نے اگر کوئی غیرقانونی کام کیا ہے، تو اس پر پولیس اور قانون کارروائی کرے۔ ابھی گوری لنکیش کی لاش بھی نہیں اٹھتی کہ انہیں بدچلن، ماؤسٹ، نکسل، سیکولر، کمیونسٹ، افضل پریمی گینگ، ایوارڈ واپسی گینگ وغیرہ کے القاب سے نوازنا شروع کر دیا جاتا ہے۔ کنہیا کمار نے آنے والے دور کو اور زیادہ کٹھن قرار دیتے ہوئے کہا کہ صف اول کے لوگوں کو مار کر ہم سب کو یہ پیغام دینا مقصود ہے کہ جب ان کو مار سکتے ہیں، تو پھر ہم تمہیں بھی نشانہ بنائیں گے؎

ہم نے اس دور کے انداز نرالے دیکھے

فیصلہ قتل کا قاتل کے حوالے دیکھے

خاتون صحافی برکھا دَت کہتی ہیں کہ میں نے بیرون ملک ایک کانفرنس میں کہا تھا کہ خوف، سنسر شپ، پِری سنسر شپ وغیرہ تو دیکھی ہے، لیکن دیگر ممالک کی طرح ہمارے ہاں صحافیوں کی جان نہیں لی جاتی، مگر گوری لنکیش کا قتل کے بعد اب مجھے اس سوچ پر نظرثانی کرنی پڑ رہی ہے۔ مجھے بھی سماجی ذرایع اِبلاغ پر روزانہ ناشائستگی اور مختلف دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، میں شروع سے اس کا حل نظرانداز کرنے میں سمجھتی رہی، لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ایسی دھمکیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور مزید چپ نہ سادھے رہیں۔

گوری لنکیش کے اندوہ ناک قتل پر جواہر لعل نہرو یونیورسٹی طلبہ یونین کی سابق نائب صدر شہلا راشد نے قتل کے جواز تراشنے والوں پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور کہا مودی کو شرم آنی چاہیے کہ وہ ٹوئٹر پر ایسے لوگوں کو فالو کرتے ہیں۔ شہلا کا تعلق کشمیر سے ہے اور وہ مودی سرکار کی سخت ناقد ہونے کی بنا پر جانی جاتی ہیں، شہلا نے زی ٹی وی کی صحافی جاگرتی شکلا کی جانب سے گوری کی موت کو جائز قرار دینے پر بھی غم وغصے ظاہر کیا اور کہا کہ گوری لنکیش فرقہ ورانہ سیاست کی مخالفت تھیں، وہ لوگوں کے لیے بولتی تھیں، اب لوگوں کو اُن کے لیے باہر آنا ہوگا۔ ہمیں چاہیے کہ اُن کے خیالات اور تحریریں روزانہ کی بنیاد پر ترجمہ کریں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچائیں۔

یہ گولی صرف گوری لنکیشن پر نہیں، بلکہ ہم سب پر چلی ہے۔ گوری لنکیش کا قتل موہن داس گاندھی کے قتل سے جاری سوچ کا تسلسل ہے، جس میں دائیں بازو والوں کی جانب سے قتل کا عذر دیا جاتا ہے۔ گوری کی موت مجھے اب بھی کسی برے خواب کی طرح لگتی ہے۔ انہوں نے کہا یہ فطری موت نہیں قتل تھا، ہمارے لیے یہ سب ناقابل قبول ہے۔ ہم سب گوری لنکیش ہیں، آؤ اپنی بندوقیں لا کر ہمیں اور ہر احتجاج کرنے والے کو گولی ماردو۔ طالب علم راہ نما عمر خالد کہتے ہیں کہ گوری لنکیش کا قتل دراصل ہم لوگوں کی زبان بند کرنے کے لیے ہے۔ جواہر لعل نہرو یونیوسٹی کے طالب علم عمر خالد بھی کنہیا کمار کے ساتھ ملک دشمنی کے الزام میں گرفتار ہوئے تھے ، آج گوری کو مارا، کل میں یا اور کوئی بھی نشانہ ہو سکتا ہے۔

اگر وہ ہمیں ڈرانا چاہتے ہیں، تو ہم بالکل خوف زدہ نہیں ہوئے۔ عمر خالد کہتے ہیں کہ ہندوستان میں کوئی بھی اپنے مذہب، کھانے پینے، اپنے حلیے یا اپنی سوچ کی وجہ سے تفریق کا نشانہ نہیں بننا چاہیے۔ یہاں انقلابی سوچ رکھنے والے یا داڑھی اور ٹوپی والے خوف محسوس کرتے ہیں۔ یہ بھارت میں ایک قومی نظریے کی سوچ کا نتیجہ ہے، جس کے تحت پورے ہندوستان کی ایک زبان ایک مذہب اور ایک قوم ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے۔

کانگریس کے مرکزی راہ نما راہول گاندھی نے گوری لنکیش کے قتل پر کہا کہ ’سچائی کو دبایا نہیں جا سکتا، گوری لنکیش ہمارے دلوں میں بستی ہیں۔ بی جے پی اور آرایس ایس سچ کو دبانا چاہتے ہیں۔‘

سابق وزیراعلیٰ بہار لالو پرشاد نے گوری لنکیش کے قتل پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’اختلاف رائے کے لیے یہ نہایت خوف ناک دور ہے، آج دائیں بازو کی مخالف آواز کو خاموش کر دیا گیا ہے۔‘ وزیراعلیٰ کرناٹک سدارامیا نے اسے جمہوریت کا قتل کہا۔ مصنف منگلیش ڈبرال کہتے ہیں کہ ان کے مقبول پرچے کا اثر روکنے کے لیے گوری کو خاموش کرایا گیا۔

’’فاشسٹو! لوگ تمہارے خلاف متحد ہو رہے ہیں‘‘گوری لنکیش کا آخری اداریہ
گوری لنکیش نے اپنے ہفت روزے کے لیے آخری اداریہ جعلی خبروں کے خلاف لکھا، جس میں انہوں نے بی جے پی، آر ایس ایس اور دیگر انتہاپسندوں کی جانب سے مختلف ویب سائٹس پر جھوٹی خبریں پھیلانے کا نہایت تفصیل سے تذکرہ لیا اور کہا کہ جعلی تصاویر بھی پھیلائی جاتی ہیں، جنہیں من چاہے مفادات کے حصول کے لیے غلط منسوب کر دیا جاتا ہے۔

اکثر لوگ بھی بنا سوچے سمجھے ان خبروں پر یقین کر لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ بی جے پی اور حکومت کی جانب سے معاشی اعدادوشمار کی مبالغہ آرائی پر بھی بڑے اور مرکزی ذرایع اِبلاغ سوال نہیں اٹھاتے۔ گوری لنکیش نے جعلی خبروں کو بے نقاب کرنے والوں کو سلام پیش کرتے ہوئے خواہش ظاہر کی کہ کاش ایسے لوگوں کی تعداد کچھ زیادہ ہوتی۔ اپنے اس اداریے میں انہوں نے باقاعدہ کچھ ویب سائٹس کے نام اور ان کی جعلی خبروں اور غیرحقیقی تصاویر کی نشان دہی بھی کی۔ کبھی ایک ریاست کی تصویر دوسری ریاست کی بتا دی جاتی ہے، تو کبھی جاپان کی ایک دیدہ زیب سڑک کو ہندوستان کا بتا دیا جاتا ہے، تاکہ حکومت کے حق اور حزب اختلاف کی مخالفت میں باتیں بنائی جا سکیں۔ آخر میں انہوں نے لکھا کہ وہ ایسے لوگوں کو یہ پیغام دینا چاہتی ہیں کہ اب لوگ فاشسٹ قوتوں کے خلاف متحد ہو رہے ہیں۔

گوری لنکیش کی ’’فرد جرم‘‘
ستمبر2017ء کے پہلے ہفتے میں جب ہندوستان کی یہ بہادر صحافی سفاک قاتلوں کا نشانہ بنی، تو ہندوستان بھر کے معتدل حلقوں میں شدید غم وغصے کی لہر دوڑ گئی۔ 29 جنوری 1962ء کو کرناٹک میں جنم لینے والی گوری لنکیش اپنے والد پی لنکیش کی نقش قدم پر گام زن ہو کر صحافی ہوئیں۔۔۔ مساوات پر مبنی سماج کا سپنا آنکھوں میں سجائے یہ خاتون چھتیس گڑھ سے کیرالہ اور ناگالینڈ سے کشمیر تک ہندوستان کے طول وعرض میں ہونے والی شورش پر ریاست مخالف بیانیہ رکھتی تھیں، اسی سبب وہ نام نہاد ’دیش بھگتوں‘ کی آنکھوں میں پہلے ہی کھٹکتی تھی، پھر بائیں بازو کے نظریات، رنگ ونسل اور صنف سے بالاتر ایسی سوچ جس میں دھرم سے منسوب ذات پات کا بھی صاف انکار کیا۔۔۔ یعنی ’’غداری‘‘ کے بعد ’’کفر‘‘ کی ہمت۔۔۔ اس لیے جنونیوں کی دُہری سولی پر لٹکا دی گئی۔۔۔گوری لنکیش بھی تو اسی میسور (نیا نام کرناٹک)  کی بیٹی تھی۔

جہاں اٹھارہویں صدی میں عظیم حریت پسند ٹیپو سلطان گوروں سے لڑتے ہوئے شہید ہو گیا تھا، دو صدیوں بعد اسی سرزمین پہ گوری لنکیش نے دیس کے کالے انگریزوں سے لڑتے ہوئے اپنی جان دے دی، گویا ٹیپو کے اس قول کا پاس رکھا کہ ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سال کی زندگی سے بہتر ہے۔‘‘ انہوں نے سماج میں خواتین کے غیرمحفوظ ہونے سے لے کر گائے کا گوشت کھانے کا حق چھیننے والوں پر بھی کھل کے بات کی۔ وہ حال ہی میں ہندوستان ہجرت کرنے والے برمی مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے کی مہم کی بھی سخت مذمت کرتی تھیں۔ شمالی کوریا نے جب ہائیڈروجن بم کا تجربہ کیا، تو انہوں نے ہندوستان میں آکسیجن کی کمی کے سبب بچوں کی ہلاکت کے پس منظر میں ٹوئٹر پر لکھا کہ ’’شمالی کوریا تو ہم سے بہت پیچھے ہے، انہوں نے ابھی ہائیڈروجن بم کا ہی تجربہ کیا ہے، جب کہ ہم تو آکسیجن بم تک پہنچ چکے ہیں۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔