وہ قصبے جہاں آج بھوتوں کا بسیرا ہے

ذیشان محمد بیگ  اتوار 22 اکتوبر 2017
اپنی ہی عاقبت نااندیشی کی وجہ سے اپنی روشن بستیوں کو بھوت قصبوں میں تبدیل کردینے کو کیا کہا جائے گا؟ فوٹو : فائل

اپنی ہی عاقبت نااندیشی کی وجہ سے اپنی روشن بستیوں کو بھوت قصبوں میں تبدیل کردینے کو کیا کہا جائے گا؟ فوٹو : فائل

کہتے ہیں کہ دنیا کی سب سے چھوٹی ’’شارٹ سٹوری‘‘ یا مختصر کہانی یہ ہے کہ ایک ریل گاڑی میں آمنے سامنے بیٹھے دو مسافروں میں سے ایک نے کتاب پڑھتے پڑھتے اچانک زور کا قہقہہ لگایا اور دوسرے مسافر سے سوال کیا کہ کیا وہ بھوتوں پر یقین رکھتا ہے؟ اس استفسار پر دوسرے مسافر نے پہلے کو گھورا اور پھر غائب ہوگیا۔

بچپن میں پڑھی گئیں جنوں، بھوتوں، دیوئوں اور پریوں کی کہانیوں سے لے کر بڑے ہونے تک جنوں بھوتوں کے قصے کہانیاں دنیا کے ہر معاشرے میں گہری دلچسپی سے پڑھے اور سنے جاتے ہیں۔ مافوق الفطرت ہستیوں کے ذکر میں ہر انسان ایک کشش محسوس کرتا ہے۔ اس موضوع پر ناصرف بے شمار کہانیاں لکھی گئیں بلکہ بہت سی فلمیں بھی بنیں جو عوام میں مقبول ہوئیں۔ ٹیلی ویژن پربھی رئیلیٹی شوز کی ایسی سیریزز بہت مشہور ہوتی ہیں جن میں بھوت بنگلوں میں جاکر وہاں نادیدہ قوتوں کی تلاش کی جاتی ہے اور ان کی موجودگی کو سائنسی آلات کی مدد سے محسوس کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ان بھوت بنگلوں کے علاوہ دنیا بھر میں بہت سے مقامات پر ایسے قصبے بھی موجود ہیں جو کسی وجہ سے اجڑ کر ویران ہوگئے اور بعدازاں ’’ہائونٹڈ ٹائونز‘‘ یعنی بھوتوں کے ڈیرے کہلائے جانے لگے۔اپنی وحشت ناکی کے سبب دنیا میں سب سے زیادہ شہرت حاصل کرنے والے چند بھوت قصبوں کا تعارف کچھ اس طرح ہے۔

بوڈی (Bodie)
امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا میں واقع یہ قصبہ، بوڈی ہسٹارک پارک کے نام سے آج ایک معروف سیاحتی مقام ہے جہاں سالانہ تقریباً دو لاکھ سیاح اسے دیکھنے کو آتے ہیں۔ اس قصبے کی بنیاد سونے کی کان کے کیمپ کے طور پر پڑی، جب 1859ء میں معدنیات کی کھوج لگانے والے چند ماہرین نے اس علاقے میں سونے کی موجودگی کا انکشاف کیا۔ 1876ء میں یہاں باقاعدہ کان میں سے سونا نکالا جانے لگا اور بے تحاشہ لوگوں نے سونے کے حصول کے لیے یہاں کا رخ کرنا شروع کردیا اور یوں یہ جگہ ایک کیمپ کی بجائے قصبے کی شکل اختیار کرتی چلی گئی۔ 1879ء تک ’’بوڈی‘‘ کی آبادی تقریباً پانچ سے سات ہزار نفوس تک جاپہنچی اور یہاں دو ہزار کے قریب عمارتیں بھی تعمیر ہوگئیں۔

ایک اندازے کے مطابق 1880ء میں ’’بوڈی‘‘ کیلی فورنیا کا دوسرا یا تیسرا بڑا شہر بن چکا تھا۔ بعد کے برسوں میں اس کی کان سے چونتیس ملین ڈالرز کا سونا نکالا گیا۔ ’’بوڈی‘‘ کا یہ عروج 1877ء کے اواخر سے لے کر 1880ء کے درمیان تک رہا۔ اس دوران یہاں سے ایک اخبار نکلنے لگا اور یہاں ٹیلی گراف کی لائن بھی بچھ گئی۔ ایک بینک بن گیا، آگ بجھانے والے رضا کاروں کی چار کمپنیاں تشکیل پاگئیں اور مجرموں کے ایک جیل بھی بنادی گئی۔

اس کے بازار میں پینسٹھ سیلونز آباد ہوگئے اور تو اور اس کے مین بازار کے متوازی ایک چائنا ٹائون بھی بس گیا جس میں سینکڑوں چینی باشندے آباد تھے۔ ’’بوڈی‘‘ کے قبرستان کے نزدیک واقع مردہ خانے کی عمارت پورے قصبے میں وہ واحد عمارت تھی جو سرخ اینٹوں سے تعمیر کی گئی تھی۔ مین بازار میں کان کنوں کی یونینز کی میٹنگز اور دیگر سماجی و تفریحی تقریبات کے لیے ایک یونین ہال بھی موجود تھا۔ یہ یونین ہال آج کل عجائب گھر میں تبدیل کردیا گیا ہے۔

1880ء کے عشرے میں جب اور علاقوں میں بھی سونے کی کانیں کھودی جانے لگیں تو آہستہ آہستہ ’’بوڈی‘‘ کا زوال شروع ہوگیا اور یہاں آباد لوگ راتوں رات امیر بننے کے چکر میں ان دوسری جگہوں کا رخ کرنے لگے جہاں سونے کی نئی کانیں ان کی منتظر تھیں۔ 1910ء میں یہاں کی آبادی صرف چھ سو اٹھانوے افراد رہ گئی۔ 1912ء میں یہاں آخری اخبار شائع ہوا اور 1913ء میں سونا نکالنے والی آخری کمپنی بھی بند ہوگئی۔

بالآخر 1940ء کی دہائی تک یہ شہر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر بے آباد ہوگیا۔ اب یہ ایک بھوت قصبہ تھا جیسے 1961ء میں ایک تاریخی قومی ورثہ قرار دے کر 1962ء میں ’’بوڈی اسٹیٹ ہسٹارک پارک‘‘ کی صورت دے دی گئی۔ یہاں آج بھی ایک سو ستر عمارتوں کے ڈھانچے اور کھنڈر عہد رفتہ کی تصویر بننے یادِ ماضی میںکھوئے دکھائی دیتے ہیں۔

کول مینز کوپ (Kolmanskop)
یہ بھوت قصبہ نیمبیا کے صحرا میں واقع ہے۔ 1908ء میں ایک ریلوے کارکن ’’زیچیریس لیوالا‘‘ کو اس علاقے میں کام کرتے ہوئے ایک ہیرا ملا جو اس نے اپنے جرمن سپروائزر ’’آگسٹ سٹائوچ‘‘ کو دکھایا۔ ’’آگسٹ‘‘ کو اندازہ ہوا کہ اس جگہ پر ہیرے موجود ہیں۔ اس طرح یہ علاقہ جرمن کان کن کمپنیوں کا مرکز نگاہ بن گیا۔ جلد ہی جرمنی کی حکومت نے اس علاقے کو ممنوعہ علاقہ قرار دیتے ہوئے یہاں ہیروں کی تلاش کا کام شروع کردیا۔ پہلے پہل کان کن کمپنیوں نے یہاں سے خوب دولت سمیٹی، بعدازاں یہاں کے باشندوں نے اس گائوں کوجرمن طرز تعمیر پر ازسرنو تعمیر کیا جس میں ضروریات زندگی کے مطابق تمام سہولیات دستیاب تھیں جن میں ہسپتال، بجلی گھر، سکول، تھیٹر، سپورٹس ہال، کیسینو اور برف کے کارخانے سمیت جنوبی کرے کا پہلا ایکس رے اسٹیشن، افریقہ کی پہلی ٹرام سروس اور نزدیکی بندرگاہ تک ایک ریلوے لائن شامل تھی۔

جنگ عظیم اول کے بعد یہ قصبہ زوال کا شکار ہوگیا اور آہستہ آہستہ لوگ یہاں سے نقل مکانی کرکے جانے لگے۔ 1930ء کی دہائی کی ابتداء میں یہ علاقہ مکمل طور پر خالی ہوگیا۔ اتنی تیزی سے اس قصبے کے اجڑنے کی ایک وجہ 1928ء میں یہاں سے دو سو ستر کلو میٹرز جنوب میں دریافت ہونے والا ہیروں کا ایک اور ذخیرہ بھی تھا، جو آج تک کا سب سے بڑا ذخیرہ مانا جاتا ہے۔ اس ذخیرے کی دوسری خصوصیت یہ تھی کہ یہاں باقاعدہ کان کنی کی مشقت کی بجائے معمولی سی کھدائی پر بھی ہیرے ہاتھ لگ جاتے تھے۔ یوں آخر کار 1954ء تک ’’کول مینز کوپ‘‘ ایک متروکہ قصبہ بن چکا تھا۔ اب یہاں سیاح مٹر گشت کرتے اور ریت میں دھنسے مکانوں میں جھانکتے نظر آتے ہیں۔

ہاشیما آئی لینڈ
(Hashima Island)
جاپان کے مشہور شہر ناگا ساکی سے پندرہ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع یہ متروکہ جزیرہ مقامی زبان میں’’گنکین جیما‘‘ کہلاتا ہے، جس کا مطلب ہے جنگی بحری جہاز۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ فضا سے دیکھنے میں یہ جزیرہ ایک جنگی بحری جہاز ہی کی طرح کا نظر آتا ہے۔ جاپان بے شمار جزائر پر مشتمل ملک ہے۔ ہاشیما آئی لینڈ اس کے پانچ سو پانچ غیر آباد جزائر میں سے ایک ہے۔

اس جزیرے کی خاص بات چاروں طرف سے سمندری پانی میںگھری کنکریٹ سے بنیں وہ عمارتیں ہیں جو اس ویرانے میں اجاڑ و بیابان پڑی ہیں۔ گو یہ جزیرہ، جاپان کی صنعتی ترقی کا نشان ہے مگر یہ دوسری جنگ عظیم سے پہلے اور اس کے دوران جبری بھرتی اور مشقت کی سیاہ تاریخ بھی رکھتا ہے۔ سولہ ایکڑ پر پھیلا ہوا یہ جزیرہ 1887ء کے جاپان کی صنعتی ترقی کے دور میں اپنی زیر سمندر کوئلے کی کانوں کی وجہ سے جانا جاتا تھا۔ 1959ء میں اس جزیرے کی آبادی پانچ ہزار دوسو انسٹھ تک جاپہنچی تھی۔ لیکن 1974ء میں کوئلے کے ذخائر ختم ہوجانے کے بعد یہ کان بند ہوگئی اور جلد ہی یہاں سے آبادی کا انخلا ہونے لگا اور یوں اگلی تین دہائیوں کیلئے جزیرہ غیر آباد ہوگیا۔ 2000ء میں اپنے تاریخی کھنڈرات کے باعث یہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔

جولائی 2015ء میں اسے باقاعدہ ’’یونیسکو ورلڈ ہیریٹیج سائٹ‘‘ کا درجہ دے دیا گیا۔ ’’مٹسوبشی‘‘ کمپنی نے 1890ء میں اس جزیرے کو خرید کر یہاں کی زیر سمندر کانوں سے کوئلہ نکالنا شروع کیا تھا۔ 1916ء میںکمپنی نے یہاں جاپان کی پہلی کنکریٹ سے بنی سات منزلہ عمارت تعمیر کی جو کان کنوں کی رہائش کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ اس عمارت کی تعمیر میں کنکریٹ کا استعمال اسے سمندری طوفانوں سے بچانے کی مضبوطی دینے کے لیے کیا گیا تھا۔ اگلے پچپن برس میں مزید عمارتیں تعمیر کی گئیں۔

جن میں سکول، ہسپتال، ٹائون ہال، کمیونٹی سنٹر، سینما، کلب ہائوس، سوئمنگ پول اور دکانیں وغیرہ شامل تھیں۔ 1930ء کی دہائی سے لے کر دوسری جنگ عظیم کے اختتام تک جاپان کی جانب سے بیگار میں پکڑے گئے کورین شہریوں اور چینی جنگی قیدیوں سے یہاں انتہائی ظلم و جور کے ماحول میں جبری مشقت لی جاتی رہی۔ اندازہ ہے کہ اس دوران ان میں سے ایک ہزار تین سو لوگ کسمپرسی کی حالت میں مارے گئے۔

اوراڈئور۔ سر۔ گلانے (Oradour-Sur-Glane)
فرانس کا یہ علاقہ دس جون 1944ء کو اپنی آبادی کے قتل عام کی وجہ سے مشہور ہے۔ آج یہ قصبہ دو حصوں میں منقسم ہے۔ ایک حصہ قدیم جبکہ دوسرا جدید ہے۔ قدیم حصے کے کھنڈرات محفوظ کردیئے گئے ہیں۔ یہ کھنڈرات آج بھی ان بیہمانہ مظالم کی گواہی دیتے ہوئے نظر آتے ہیں جو اس چھوٹے سے گائوں کے لوگوں پر توڑے گئے۔ نیا گائوں، پرانے سے چند سومیٹر دور بسایا گیا ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران دس جون 1944ء کو جرمن فوجوں کی اس قصبے میں آمد پر مقامی آبادی کو ان کی جانب سے حکم دیا گیا کہ وہ اپنے شناختی کاغذات لے کر قصبے کے گرجے کے ساتھ واقع مرکزی میدان میں جمع ہوجائیں۔ جرمن فوجی قصبے کے ہر گھر کے اندر زبردستی داخل ہوگئے اور بیماروں، بوڑھوں، عورتوں اور بچوں سمیت سب لوگوں کو بندوق کی نوک پر نکال کر میدان میں جمع کرلیا۔ پھر ان لوگوں کو دوگروپوں میں بانٹ دیا گیا۔ ایک طرف عورتیں اور بچے اور دوسری طرف مرد۔ مردوں کو اکٹھا کرکے دیواروں کے ساتھ کھڑا کردیا گیا اور فوجیوں نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا تاکہ فرار کی تمام راہیں مسدود ہوجائیں۔ اس کے بعد ان کے جسموں سے بھوسے اور دیگر ایندھن کے گٹھے باندھ کر انہیں آگ لگا دی گئی۔ زندہ جلتے ہوئے لوگ جب ادھر ادھر بھاگنے لگے تو ان کی ٹانگوں پر گولیاں برسائی گئیں۔

دوسری طرف عورتوں اور بچوں کو گرجے میں بند کرکے وہاں بھی آگ لگادی گئی اور انہیں زندہ جلا دیا۔ اس کے بعد جرمن فوجی دستے نے گائوں میں دوبارہ سرچ آپریشن کیا اورجو لوگ اپنی کسی جسمانی معذوری کی وجہ سے گھروں میں رہ گئے تھے انہیں بھی آگ لگا کر زندہ جلا دیا گیا۔

مختصراً یہ کہ اس وحشیانہ قتل عام میں بچے، بوڑھے اور عورتوں سمیت چھ سو بیالیس نفوس اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس بدقسمت قصبے کے بیچوں بیچ سینٹ مارٹن چرچ آج بھی اس المناک واقعہ کی یاد لیے موجود ہے۔

16 جولائی 1999ء کو فرانس کے اس وقت کے صدر نے یہاں تعمیر کیے گئے ’’میموری سینٹر‘‘ (عجائب گھر) کا افتتاح کیاجو یہاں آنے والے سیاحوں کو اس ظلم و ستم کی داستان سناتا ہے، جو یہاں کے بے قصور باشندوں پر بیت گئے۔

بیئچوآن کائونٹی (Beichuan County)
قدرتی آفات محض پلک جھپکتے میں کسی شہر کو ایک بڑی یادگار میں بدل سکتی ہیں۔ ایسا ہی معاملہ 2008ء میں چین کے ایک چھوٹے سے شہر بیئچو آن کائونٹی کے ساتھ پیش آیا۔ جب ایک مہیب زلزلے نے جنوب مغربی چین کو ہلا کر رکھ دیا۔ جس میں نوے ہزار لوگ اپنی جانوں سے چلے گئے۔ اس زلزلے میں بئیچوآن کائونٹی کی نصف آبادی یعنی تقریباً آٹھ ہزار چھ سو افراد صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔

بئیچو آن ہائی سکول کے کیمپس کی دوعمارتیں ڈھے جانے کے باعث ایک ہزار سے زائد طلبہ جاں بحق ہوگئے۔ بئیچو آن کے وائس میئر، جو خود بھی زلزلہ کے متاثرین میں شامل تھے، کے مطابق کائونٹی کی اسّی فیصد عمارتیں تباہ و برباد ہوگئیں۔ چین نے زلزلہ زدہ پورے علاقے کی تعمیر نو پر آٹھ سو بلین یو آن (ایک سو تئیس بلین ڈالرز) خرچ کیے لیکن بئیچو آن کائونٹی کو ایک یادگار اور عجائب گھر میں تبدیل کردیا گیا۔

بیئچوآن کی پہلی انتظامی کائونٹی 566ء میں قائم ہوئی تھی۔ آج زلزلے سے تباہ حال اس کی عمارتوں کو لوہے کے گارڈروں سے سہارا دے کر اسی حالت میں محفوظ کرلیا گیا تاکہ یہاں آنے والے سیاح زلزلے کی تباہ کاریوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرسکیں۔

ٹومیو کا (Tomioka)
اکیسویں صدی میں متروکہ قرار دیئے جانے والے قصبات میں سے ایک جاپان کے علاقے ’’فوکوشیما(Fuku Shima)‘‘ کا قصبہ ’’ٹومیوکا‘‘ بھی ہے۔ ایک زلزلے کے نتیجے میں آنے والے سونامی نے 2011ء میں یہاں کے نیوکلیئر پاور پلانٹ کو نقصان پہنچایا، جس سے تابکاری خارج ہوئی جو اس قصبے کو ویران کرنے کا باعث بنی۔ جب یہ حادثہ پیش آیا تو مقامی انتظامیہ نے فوری طور پر آبادی کو بچانے کے لیے اس کے انخلاء کا پروگرام بنایا۔ ستاون، اٹھاون سالہ چاول کے ایک کاشتکار ’’نائوٹو ماسٹو مورا‘‘ اور اس کے پالتو کتے کے سوا سب لوگ یہاں سے نقل مکان کرگئے۔

بعد میں حکومت نے اس قصبے کو دوبارہ آباد کیا لیکن 2013ء کے ایک سروے کے مطابق یہاں کے چالیس فیصد باشندوں نے واپس آ نے سے انکار کردیا کیونکہ انہیں خوف تھا کہ شاید ابھی بھی یہاں تابکاری کے اثرات موجود ہوں جبکہ تنتالیس فیصد باشندے واپس آنے یا نہ آنے کے بارے میں کوئی فیصلہ نہ کرپائے۔

آج یہ قصبہ بھی بھوت قصبوں کی فہرست میں شامل ہے۔

پرائپیاٹ (Pripyat)
یوکرائن کا یہ قصبہ دنیا کا سب سے مشہور بھوت قصبہ ہے۔ یہ قصبہ بھی 1986ء میں آنے والی ایک نیوکلیائی آفت کے باعث ویران ہوا تھا۔ یوکرائن اس وقت سویت یونین (سابقہ روسی یونین) میں شامل تھا۔ اکثر لوگوں کو چرنوبل ایٹمی پلانٹ کاحادثہ یاد ہی ہوگا۔ یہ قصبہ اسی پلانٹ میں سے تابکار شعاعوں کے اخراج کی وجہ سے احتیاطاً خالی کروالیا گیا تھا۔ یہاں آج بھی اس درجے کی تابکاری موجود ہے کہ سیاح بھی صرف کسی گائید کی راہنمائی اور مکمل حفاظتی لباس کے ساتھ ہی یہاں کا دورہ کرسکتے ہیں۔

آخر میں ایک ایسے ہی بھوت قصبے کا ذکر بھی کرتے چلیں جو وطن عزیز پاکستان میں واقع ہے اور بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ یہ قصبہ خدا نخواستہ کسی حادثے یا قدرتی آفت وغیرہ کی وجہ سے بھوت قصبہ نہیں بنا بلکہ کچھ اپنوں کی بداعتمادی اور کچھ اغیار کی سازش نے اسے بھوت قصبہ بننے پر مجبور کردیا۔ یہ ذکر ہے کالا باغ ڈیم کی مجوزہ سائٹ پر تعمیر کی جانے والی سٹاف کالونی کا جہاں کالا باغ ڈیم کی تعمیر شروع ہونے پر وہاں کام کرنے والے ماہرین اور مزدوروں نے رہائش پذیر ہونا تھا۔

ان ہنر مندوں کے قیام کے لیے بنائی جانے والی کالونی آج بھی ماتم کناں ہے کہ جو قومیں اپنے مستقبل کے ساتھ کھیلتی ہیں تو پھر قدرت بھی ایسی قوموں کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے اور پھر اس قوم کے زوال کو کوئی نہیں روک سکتا۔ کالا باغ ڈیم کی ویران سٹاف کالونی بھی آج تک منظر ہے کہ قوم کے روشن مستقبل کے معمار کب آکر اس میں ٹھہرتے ہیں اور تعمیروترقی کے اس عظیم الشان منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچا کر قوم کو اندھیرے اور سیلاب و قحط سالی سے نجات دلانے کا بندوبست کرتے ہیں۔

قدرت کے ہاتھوں تباہ عمارات، متروکہ گلیوں، جنگوں کی وجہ سے تباہ و برباد ہوجانے والے مقامات یا معاشی بحرانوں کے نتیجے میں ویران ہوجانے والے قصبات کا بھوت قصبے بن جانا تو سمجھ میں آتا ہے مگر اپنی ہی عاقبت نااندیشی کی وجہ سے اپنی روشن بستیوں کو بھوت قصبوں میں تبدیل کردینے کو کیا کہا جائے گا؟ یہ بہت بڑا سوال ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔