پاکستان؛ جارح یا مجروح؟

مظہر سلیم حجازی  ہفتہ 21 اکتوبر 2017
کتنی عجیب بات ہے ک دہشت گردی کے خلاف سب سے زیادہ جانیں قربان کرنے اور دہشت گردوں کے خلاف مؤثر ترین کارروائیاں کرنے کے باوجود پاکستان کو جارح قرار دیا جاتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

کتنی عجیب بات ہے ک دہشت گردی کے خلاف سب سے زیادہ جانیں قربان کرنے اور دہشت گردوں کے خلاف مؤثر ترین کارروائیاں کرنے کے باوجود پاکستان کو جارح قرار دیا جاتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

ڈونلڈ ٹرمپ کے مسند اقتدار پر متمکن ہونے کے بعد سے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف گزشتہ دو دہائیوں سے جاری جنگ کو جن شکوک و شبہات اور الزامات کی توپوں کے سامنے لاکھڑا کیا گیا ہے، اس سے نہ صرف ہر پاکستانی عالمی برادری کے دوہرے معیار پر چیں بہ جبیں ہے بلکہ عمائدین حکومت سمیت سپہ سالار پاکستان کو بھی آئے روز اپنی تقاریر میں اقوام عالم کو مخاطب کرکے اپنی افواج اور عام شہریوں کی قربانیوں کی لازوال داستان بیان کرنا پڑتی ہے۔

دوسری طرف افغانی، بھارتی اور امریکی انتظامیہ افغانستان، بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں تمام فساد اور مسائل کا الزام بھی پاکستان پر دھر رہی ہے۔ بیرونی دنیا سے تابڑ توڑ لفظی حملے اور امن عالم کے نام نہاد ٹھیکیداروں کی تاویلات و تشریحات سن سن کر ایک عام پاکستانی اکثر یہ سوچتا ہے اور متفکر ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ میں جان و مال اور معاشی محاذوں پر دنیا بھر میں سب سے بڑھ کر بھاری نقصانات اٹھانے والی پاکستانی قوم ایک جارح ہے یا مجروح؟ اور وہ کون سا پیمانہ ہے جس کی مدد سے دنیا ہماری قربانیوں کو گننا، ماپنا اور تولنا چاہتی ہے۔

امر واقعہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے اندرونی سیاسی، معاشی، معاشرتی اور مذہبی حالات کو اس نہج پر استوار کرنا چاہیے کہ ہر پاکستانی محسوس کرے کہ وہ یک جہت ہے اور ایک جسد واحد ہے۔ انہیں نہ تو کسی عالمی ایجنسی اور حکومت کی طرف سے امداد میں کٹوتی کے خوف میں مبتلا کیا جاسکتا ہو اور نہ ہی کسی قرض کی فراہمی میں تاخیر کی وارننگ دی جاسکتی ہو۔ نتیجتاً ہمیں اپنے اندرونی استحکام، قومی یکجہتی اور معاشی مضبوطی کی بنیاد اور اعتماد کی وجہ سے نہ تو کسی سے اپنی خدمات کے وثیقہ اعتراف کی ضرورت ہوگی اور نہ ہی کسی کے الزامات کا خوف اور وضاحت دینے کی فکر۔

طرفہ تماشا یہ ہے کہ عوام و عساکر پاکستان دنیا بھر میں واحد اکائی ہیں جو گزشتہ دو دہایٔیوں سے اپنی حفاظت اور امن عالم کے استحکام کےلیے ایک غیر اعلانیہ جنگ میں جھونک دیئے گئے ہیں اور باوجود اس کے کہ ہم نے ایک لاکھ کے قریب عام شہریوں اور فوجی جوانوں اور افسروں کی گراں قدر قربانیاں پیش کی ہیں، ہماری نیت اور کوششوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے جو سراسر نا انصافی اور مسلمہ اخلاقیات کے منافی ہے۔

یہ حقیقت روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ نائن الیون کے بعد پاکستان نے جس طرح عالمی برادری کا ساتھ دیا اور افغانستان سے دہشت گرد کارروائیوں کے مراکز کے خاتمے کےلیے جس طرح تعاون کیا، وہ صرف پاکستان کا ہی حصہ ہے۔ اسی طرح دنیا بھر میں اقوام متحدہ کے امن مشنز میں افواج کی عددی حوالے سے شرکت کو دیکھا جائے تو پاکستان فراخدلانہ کردار ادا کرنے والے تین بڑے ممالک میں شامل ہے جو پاکستان کی عالمی برادری اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے ساتھ وابستگی کی روشن مثال اورعالمی امن کےلیے پاکستان کے غیر متزلزل عزم کا اظہار ہے۔

پاکستان کے کہنہ مشق اور جذبہ جہاد سے سرشار خفیہ اداروں اور تینوں مسلح افواج نے اس غیر روایتی جنگ میں بالکل روایتی جنگ جیسی قربانیاں دی ہیں اور پیشہ ورانہ مہارت کی اعلی نظیریں قائم کرکے خود کو دنیا بھر میں ایک رول ماڈل کے طور پر منوالیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جس ماحول میں یورپی اتحادی افواج اور امریکی ٹیکنالوجی کی بازگشت مدھم پڑگئی، یہ سب ممالک مل کر بھی افغانستان میں دہشت گردی کے مراکز کو نشانہ بنانے میں ناکام ہوئے، اربوں ڈالر کے نقصانات کے باوجود مطلوبہ نتائج کے حصول میں آج بھی مارے مارے پھر رہے ہیں اور اس پر مستزاد افغانستان کو اپنی ناکام پالیسیوں کی بنا پر ایک جلتا ہوا خطہ بناچکے ہیں، وہیں ہم دیکھتے ہیں کہ جب یہ دہشت گرد گروہ افغانستان سے فرار ہوکر ہمارے قبائلی علاقوں کو اپنا مرکز بناتے ہیں اور افغانستان جیسا ماحول بنا کر بیک وقت افغانستان اور پاکستان میں جنگجویانہ سرگرمیاں شروع کردیتے ہیں تو ان کی سر کوبی اور محفوظ پناہ گاہوں کا خاتمہ فوج، حکومت اور عوام کی طاقت اور قربانیوں سے جس طرح ہم نے کیا اس کی مثال خطہ ارض پر ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گی۔

امریکی اور نیٹو انتظامیہ نے اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کےلیے پاکستان کو نشانے پر لے لیا ہے خواہ وہ ’’ڈو مور‘‘ کے مطالبات ہوں، بارڈر میینجمنٹ کے معاملے میں تساہل ہو، ناکامی اور عدم توجہ ہو، عالمی نشریاتی اداروں میں پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈا ہو اور یا پھر خفیہ معلومات کا عدم تبادلہ۔ سابق افغان صدر گلبدین حکمت یار کے حالیہ انٹرویو کے بعد یہ حقیت طشت از بام ہوچکی ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں عدم استحکام اور دہشت گردی کی وارداتوں کا ارتکاب کرنے والے گروہوں کی سرپرستی امریکی افواج اور خفیہ ادارے کررہے ہیں۔ جب کہ موساد، را اور افغان خفیہ اداروں کا گٹھ جوڑ اب کسی گواہی کا محتاج نہیں۔

پاکستان عالمی امن کا داعی اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی پابند ریاست ہے اور اس کی مسلح افواج اور خفیہ ادارے ملکی سلامتی کے ضامن ہیں۔ ان اداروں کے دہشت گردی کے خلاف اقدامات کی حمایت کرنا عالمی قوتوں اور خود امریکہ اور نیٹو ممالک کے مفاد میں ہے۔ کیونکہ یہی ایک طریقہ ہے کہ پاکستان کی دو دہائیوں سے جاری اس طویل جنگ میں ہماری اخلاقی برتری اور جانی و مالی قربانیوں کا اعتراف کیا جائے جس میں ہمارے جنرل سے لے کر عام سپاہی تک اور ایک عام شہری سے لے کر طلبا، اساتذہ، وکلا، علما، تاجر، اقلیتوں، پولیس، رینجرز، ایف سی اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے پاکستانیوں نے قربانیوں کے انمٹ نقوش ثبت کیے ہیں۔ مزید یہ کہ مغربی دنیا میں اس باطل تصور کو زائل کیا جائے کہ پاکستان ایک جارح ریاست ہے۔ اس کے بر عکس صورت حال یہ ہے کہ پاکستان نے اس جنگ میں اپنی افرادی قوت کے ساتھ ساتھ بے پناہ معاشی نقصانات اٹھائے ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ بیک وقت امریکا، بھارت، اور افغانستان کے الزامات اور دباؤ کا شکار پاکستان جارح نہیں ایک مجروح ریاست ہے جو اپنے وسائل کے مطابق دہشت گردی کے ناسور سے نبرد آزما ہے اور آوے روز ہر محاز پر بے پناہ قربانیاں دے کر عالمی امن اور اپنی داخلی سلامتی کو یقینی بنانے کےلیے کوشاں ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مظہر سلیم حجازی

مظہر سلیم حجازی

بلاگر سعودی عرب میں مقیم ہیں اور بینکاری کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ کالج کی سطح پر ہاکی کے کھلاڑی رہ چکے ہیں۔ آپ کی تحریریں مختلف مطبوعات میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔