’’یہاں ڈر نہیں لگتا۔۔۔۔‘‘

محمد عثمان جامعی  اتوار 22 اکتوبر 2017
دہشت ایک اور دہشت کی ماں ہوتی ہے اور خوف ایک نیا خوف جنتا ہے۔ فوٹو : فائل

دہشت ایک اور دہشت کی ماں ہوتی ہے اور خوف ایک نیا خوف جنتا ہے۔ فوٹو : فائل

راشد کی عمر صرف دس سال ہے مگر اس کے نازک کندھوں پر بھاری ذمے داری آپڑی ہے، اسے اپنی چھے سالہ بہن کا خیال رکھنا ہے، ماں کی طرح اور باپ بن کر۔ وہ بنگلادیش کے شہر کاکسس بازار میں اس صورت حال سے نبردآزما ہے۔ وہ ان چودہ سو روہنگیا بچوں میں شامل ہے جو اپنے ماں باپ کے بغیر میانمار کی سیما پار کرکے بنگلادیش میں آبسے ہیں۔ یہ ان والدین کے بچے ہیں جو میانمار کے علاقے راکھین میں جاری فوجی ہَلے کے دوران ہاتھوں مارے گئے یا لاپتا ہوچکے ہیں۔

راشد اور اس کی بہن بھی ماں کی ممتا اور باپ کی شفقت ہمیشہ کے لیے کھوچکے ہیں۔ وہ یہ بتاتے ہوئے رونے لگتا ہے کہ اس کے باپ زاہد حُسین اور ماں رامیجاخاتون کو میانماری فوجیوں نے مارڈالا۔

کاکسس بازار کے ’’کوتوپلونگ مہاجر کیمپ‘‘ میں بچوں کے کھیل کود کے لیے جگہ مختص کی گئی ہے، جہاں ننھی مُنی آوازیں چہچہا رہی ہیں اور ساٹھ سے زیادہ بچے خاکوں میں رنگ بھرنے، ڈرائنگ اور کھلونوں سے کھیلنے میں منہمک ہیں۔ مگر راشد الگ تھلگ خاموش بیٹھا ہے، اس کی نحیف آواز باربار کھیل کے جوش میں مگن بچوں کے شور میں دَب جاتی ہے۔ بچوں کی طفلانہ سرگرمیوں کے لیے مختص یہ جگہ ’’چائلڈ فرینڈلی اسپیس‘‘ ( Child Friendly Space) کہلاتی ہے۔ یونیسیف کے تعاون سے قائم کردہ یہ سی ایف ایس سینٹر مقامی فلاحی اداروں کے اشتراک سے پناہ گزین بچوں کے لیے تفریح کے مواقع فراہم کررہے ہیں، جو صدمات کا شکار بچوں لیے بہشت بنے ہوئے ہیں، جن میں بہت سے تو عمر کے اُس حصے میں ہیں کہ جانتے ہی نہیں کہ ان پر کیا قیامت گُزر گئی ہے۔

راشد اپنی بپتا سُنا رہا ہے۔ راشد والدین اور چھے بہن بھائیوں کے ساتھ راکھین کے قصبے ماؤنگڈا کے قریب واقع گاؤں شکدرپارا میں زندگی بسر کر ررہا تھا کہ اس سال پچیس اگست کو روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام اور ان کے گاؤں جلا ڈالنے کی مہم میں مصروف میانمار کی فوج نے اِس گاؤں پر حملہ کردیا۔

’’وہ جمعے کا دن تھا۔ میں نے اپنی بہن کا ہاتھ پکڑا اور قریب واقع پہاڑی کی طرف دوڑ لگادی۔‘‘

وہ جب واپس آیا تو ماں باپ کی لاشیں اُس کی منتظر تھیں۔

اس کے پاس اپنوں کی لاشوں پر رونے کا بھی وقت نہیں تھا۔ اسے پہاڑی کے پاس اپنے پڑوسی نظر آئے، جن کے ساتھ سفر کی کٹھنائیاں جھیلتا وہ سرحد پار پہنچا۔

’’میں تین راتوں تک پیدل چل کر بنگلادیش کی سرحد پر پہنچا۔ عید سے ایک دن پہلے یکم ستمبر کو میں دریائے ناف پار کرکے بنگلادیش میں داخل ہُوا۔‘‘

راشد کو اپنے دوسرے بہن بھائیوں کی کچھ خبر نہیں کہ اس قیامت کے بعد اُن پر کیا گزری، ’’میں نے سُنا کہ میرے سارے بہن بھائی قتل کردیے گئے۔‘‘ یہ اطلاع سُن کر ننھے سے دل پر جانے کیا بیتی ہوگی۔

اس گفت وشنید کے دوران راشد کے ہم سفر پڑوسی بھی اس کے ساتھ تھے، جنھیں وہ خود پر اور اپنی ننھی بہن پر مہربان قرار دیتا ہے۔

’’جب وہ (راشد) پہلے دن یہاں آیا تو ہر کچھ منٹ کے بعد میرے پاس آتا اور کہتا، میرے ماں باپ مرگئے ہیں۔‘‘ کیمپ میں فرائض انجام دینے والی یونیسیف بنگلادیش کی ماہررابطہ کاری فاریہ سلیم بتاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ والدین کے غم میں نڈھال راشد کی حالت اُس وقت بہتر ہوئی جب اس نے چلڈرن فرینڈلی اسپیس میں آنا جانا شروع کیا۔

راشد کو میانمار میں اس کے اسکول سے نکال دیا گیا تھا۔ اسے سی ایف ایس پسند ہے، جو ہفتے میں چھے دن کُھلا ہوتا ہے۔

فاریہ سلیم کے مطابق بنگلادیش میں روہنگیا پناہ گزینوں کے لیے قائم کیمپوں میں بیالیس سی ایف ایس مراکز موجود ہیں۔

راشد یہاں خوف سے آزاد ہے۔ وہ کہتا ہے، ’’یہاں اس بات کا خطرہ نہیں کہ کوئی حملہ کردے گا۔ ہم پر کوئی نظر نہیں رکھے ہوئے۔ ہر ایک جو چاہے وہ کرنے کے لیے آزاد ہے۔‘‘ سارا گھر لٹادینے کا غم ایک طرف اور ڈرے سہمے رہنے کی اذیت سے نجات دوسری طرف۔وہ استاد بننے کا خواہش مند ہے، تاکہ مستقبل میں روہنگیا بچوں کو پڑھا سکے۔

صرف راشد ہی کی آنسوؤں سے لکھی آپ بیتی نہیں، یہاں تو ہر طرف بچوں کے ٹوٹے پھوٹے لفظوں سے بُنی کہانیاں بکھری ہیں۔ کم سِن بہنیں گیارہ سالہ دل آراء بیگم اور نو برس کی عزیزہ بیگم بھی اپنے والدین کو کھو چکی ہیں۔ بڑی بہن اب تک صدمے میں ہے اور بہ مشکل بول پاتی ہے۔ کیا ہوا تھا؟ اس سوال کا جواب چھوٹی بہن دیتی ہے۔ ’’یہ دوپہر کے کھانے سے کچھ پہلے کا وقت تھا۔ میری ماں حمیدہ بیگم نے مجھ سے کہا کہ گھر کے احاطے میں کھیلو۔ میرے والد (محمد حُسین) کام پر جانے کے لیے تیار ہورہے تھے۔‘‘

وہ اپنی بہنوں دل آراء اور مستقیم کے ساتھ کھیل رہی تھی کہ اس نے گولیاں چلنے کی آواز سُنی۔ وہ خوف زدہ ہوکر بھاگی اور گھر کے قریب اُگی جھاڑیوں میں جاچھپی۔

’’جھاڑیوں کے پیچھے سے میں نے دیکھا کہ فوجی میرے ماں باپ پر فائرنگ کر رہے تھے۔ بعد میں انھوں نے میرے والد کا گلا کاٹ دیا اور  ماں کے پیٹ میں ایک بڑا سا چاقو گھونپ دیا۔‘‘ لفظوں کے ساتھ آنسو بھی بہہ رہے تھے، جب کہ دل آراء گُم صم تھی۔

عزیزہ پھر گھر نہیں گئی۔ ایک شناسا خاندان کے ساتھ وہ اس کیمپ میں پہنچی، جہاں اسے بچھڑ جانے والی بہنیں مل گئیں۔ اس کی تیسری بہن مستقیم گولی لگنے سے زخمی ہوگئی تھی جو اب روبہ صحت ہے، لیکن ذہنی طور پر اب بھی گھائل ہے۔ ان بہنوں کے دیگر آٹھ بہن بھائی بھی میانماری فوجیوں کی وحشت کا شکار ہوگئے۔

عزیزہ اسکول جانے سے گریز کرتی تھی، کیوں کہ فوجی باقاعدگی سے وہاں کے پھیرے لگایا کرتے تھے۔ دل آراء تو کبھی اسکول گئی ہی نہیں۔

’’میں بنگلادیش میں خوش ہوں، یہاں ماردیے جانے کا خوف نہیں۔ میں نے یہاں بہت سے دوست بنالیے ہیں۔ میں یہاں بہتر وقت گزار رہی ہوں۔‘‘ سب کچھ کھو کے بھی ڈر نہ ہونے کا احساس اسے خوش کردیتا ہے۔ وہ پڑھنا چاہتی ہے تاکہ کچھ بن سکے اور خود کو جان سکے۔

بارہ سالہ نورحُسین اور اس کی سات سالہ بہن جوہرہ بیگم۔۔۔ نو رکنی کُنبے میں سے بس یہ دو زندہ بچے ہیں۔

’’یہ پچیس اگست اور دس بجے کا وقت تھا جب ہمارے گاؤں پر حملہ ہوا۔ میں اپنی بہن جوہرہ بیگم کا ہاتھ پکڑ کر گھر سے بھاگا اور گاؤں والوں کے ساتھ کھیتوں میں دوڑتا چلا گیا۔ میرے والد سلطان احمد اور والدہ حاجرہ خاتون حملے میں مارے گئے۔ گاؤں کے بڑے ہمیں بنگلادیش لے آئے۔‘‘ نور کی کہانی بھی کیمپ میں زندگی کرتے دیگر بچوں سے مختلف نہیں۔

روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام کتنی منصوبہ بندی سے کیا گیا، اس کا اندازہ ننھے نورحسین کے بیان سے ہوتا ہے، وہ کیا کہتا ہے؟ یہ بتانے سے پہلے یہ جان لیں کہ میانمار کی ریاست راکھین میں آباد ثقافتی گروہوں میں روہنگیا۔۔۔مسلمان جب کہ راکھین۔۔۔ بُدھسٹ ہیں۔ نور کہتا ہے،’’ہمارے اسکول میں راکھین اور روہنگیا بچے ایک ساتھ پڑھتے تھے، مگر دو سال پہلے روہنگیا بچوں کو الگ کرکے دوسرے اسکول بھیج دیا گیا۔‘‘ نور فٹ بال کا دیوانہ ہے، لیکن فوج کے ڈر سے وہ اس نے باہر کھیلنا چھوڑ دیا تھا۔

وہ کہتا ہے،’’یہاں ہمیں فوج کا خوف نہیں، لیکن اب تک ماں باپ کی یاد ہمارا پیچھا کرتی ہے۔ مجھے وہ اچھی طرح یاد ہیں۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتے تھے۔۔۔۔اور اب وہ کہیں نہیں ہیں۔۔۔۔۔‘‘

جب انجمن کی دنیا اُجڑی تو وہ، اس کا چھوٹا بھائی اور بہنیں، اپنے بہنوئی بہادر حسین کے ساتھ گھر میں کھیل رہیں تھیں۔

’’اچانک فوج ہمارے گھر میں آ گھسی اور اندھادھند فائرنگ شروع کردی۔‘‘ گیارہ سالہ انجمن اپنا آشیانہ جلنے کا احوال سُناتی ہے۔

اس کا بہنوئی بہادر جان بچانے کے لیے دروازے کی طرف بھاگا، لیکن گولیوں نے اسے چھننی کرڈالا۔ انجمن کے والدین سمیت گھر کے دس دیگر افراد بھی جان سے گئے۔

یہ وہ بچے ہیں جن کے اپنوں کو ان کے سامنے بے دردی سے مارڈالا گیا، وہ بے گھر ہوگئے، خوف کے سائے میں طویل مسافت طے کرکے بنگلادیش پہنچے۔ اس سب نے ان کی شخصیت کو بُری طرح روند ڈالا ہے۔ سی ایف ایس مرکز میں تعینات آؤٹ ریچ آفیسر شاپولو بروا کا کہنا ہے،’’یہاں مقیم زیادہ تر بچے سخت ذہنی صدمے کا شکار ہیں۔‘‘

اس ضمن میں وہ راشد کی مثال دیتی ہیں، جو کاؤنسلنگ سیشن کے طویل عمل سے گزرنے سے پہلے تواتر کے ساتھ اپنے والدین کے قتل کا ذکر کرتا رہا۔

وہ بتاتی ہیں کہ کیمپ میں بچوں کو عمر کے حساب سے دو گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے، ایک چار سے گیارہ سال تک کے بچوں کا گروہ اور دوسرا بارہ سے اٹھارہ سال کے بچوں پر مشتمل ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ چھوٹے بچوں کا گروپ زیادہ اثر پذیر ہے، چناں چہ اس گروپ کے بچوں کے میانمار کی فوج کے خوف سے نجات دلانے کے لیے متعلقہ اسٹاف کاؤنسلنگ کے ذریعے مسلسل کوشاں ہے، جب کہ بارہ سے اٹھارہ سال کی عمر کے بچوں کے علیحدہ مراکز قائم ہیں، جن میں تعلیم کے ساتھ انھیں صحت بہتر بنانے کے لیے بھی سبق دیے جاتے ہیں۔

ظلم اور سفاکی کی آگ اور خون سے بنی تصویریں آنکھوں میں بسائے بچے کوتوپلونگ کیمپ ہی میں نہیں بستے، یہ کہانیاں ہر روہنگیا پناہ گزینوں کے لیے قائم ہر کیمپ میں سسک رہی ہیں۔ لیڈھا پاڑہ کیمپ میں مقیم گیارہ سالہ سید نُل بتاتا ہے،’’راکھین بُدھوں نے میرا گھر جلادیا، لوگوں کو گولیاں برسا کر قتل کیا اور عورتوں کی عصمت دری کی۔‘‘ اس بچے نے حوا کی بیٹی کی تذلیل اپنی آنکھوں سے دیکھی اور ان مناظر کا مفہوم بھی اس کی سمجھ میں آگیا۔ بچپن کہاں بچا!

لیڈھا پاڑہ کیمپ میں تدریس کا فریضہ انجام دینے والے شامل داس کہتے ہیں،’’ان بچوں کے گاؤں جنگ کا تھیٹر تھے، جہاں ہر طرف گولیاں اور چیخیں تھیں۔‘‘

ہوش اور زندگی کی ابتدا کرتے یہ بچے جس حال میں بنگلادیش پہنچتے ہیں اس کا اندازہ ایک پانچ سالہ بچے کی حالت سے لگایا جاسکتا ہے، جو اس قدر ناتواں ہوچکا تھا کہ ڈاکٹر اس کے ڈھانچے سے ہاتھ میں ڈرپ کی سوئی داخل نہ کرسکے۔ اُس نے تُتلا کے بتایا کہ وہ آٹھ دن سے بھوکا پیاسا ہے۔۔۔۔!

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ کیمپوں میں مقیم روہنگیا پناہ گزین بچوں میں سے چودہ ہزار ایک سو موت کے خطرے سے دوچار ہیں۔

بنگلادیش کی حکومت روہنگیا مہاجرین کے لیے دروازے تو کھول چکی ہے، لیکن انھیں کوئی ایسی سہولت دینے کو تیار نہیں جو ان پناہ گزینوں کا بنگلادیشی سماج میں انضمام کا امکان رکھتی ہو، جن میں روہنگیا بچوں کو بنگلا سکھانا بھی شامل ہے۔ اسی طرح روہنگیا مہاجرین کی نقل وحرکت بہت محدود رکھی گئی ہے اور ان کے بنگلادیشی شہری سے شادی کرنے پر پابندی عاید ہے۔ گویا بنگلادیش کی سرزمین ان کے لیے بس عارضی ٹھکانا ہے، انھیں جتادیا گیا ہے کہ تمھیں خوف کی وادی میں واپس جانا ہے۔ یہ بچے اس حقیقت سے جتنی دیر ناآشنا رہیں ان کے لیے اتنا اچھا ہے۔

یونیسیف اور مقامی فلاحی اداروں کی جانب سے بنگلادیش آنے والے روہنگیا مہاجرین خاص طور پر بچوں کے لیے سہولیات کی فراہمی، اسکولوں کا قیام، تفریحی سرگرمیاں، انھیں صدمے سے نکالنے کی کاوشیں محدود وسائل کے ساتھ جاری ہیں، اور سرحد پار سے پناہ گزینوں اور شفقتِ پدری، ممتا اور سرپرستی سے محروم بچوں کی آمد کا سلسلہ بھی۔ یہ المیہ شاید میانمار کی دھرتی پر آخری روہنگیا کے قتل یا ہجرت پر ہی ختم ہوگا، کیوں کہ میانمار کی سرکار اور فوج کے خونیں ارادے بلند ہیں اور ان کے ظلم کی مذمت کرنے والوں کے حوصلے پست اور نیتیں ٹالنے اور ٹرخانے کی۔

دہشت ایک اور دہشت کی ماں ہوتی ہے اور خوف ایک نیا خوف جنتا ہے، راکھین کے جلتے بھڑکتے المیے کی راکھ سے جنم لینے والے یہ لاوارث اور خوف زدہ بچے کل کا خوف بن سکتے ہیں، اس اندیشے کو حقیقت میں بدلنے کے لیے دہشت گردوں اور انسانی اسمگلروں کے پنجے ان کی طرف بڑھ رہے ہوں گے، ان اقدامات کے مقابلے میں بہت تیزی سے جو روہنگیا مسلمانوں پر ہوتا ظلم روکنے کے لیے بے دلی اور سُست روی سے کیے جارہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔