پاک امریکا تعلقات میںمثبت پیش رفت

ایڈیٹوریل  ہفتہ 21 اکتوبر 2017
پاکستان تمام دہشت گرد گروپوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائیاں کر رہا ہے۔فوٹو: فائل

پاکستان تمام دہشت گرد گروپوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائیاں کر رہا ہے۔فوٹو: فائل

ترجمان دفتر خارجہ محمد نفیس ذکریا نے جمعرات کو اپنی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے امریکی حکام کے حالیہ مثبت بیانات کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ دوطرفہ تعلقات میں مثبت پیش رفت ہوئی ہے اور امریکا کا ایک وفد جلد پاکستان کا دورہ کرے گا‘ کینیڈین جوڑے کی بازیابی کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کا خیرمقدم کرتے ہیں‘ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر امریکا کے نائب صدر مائیک پنس سے ملاقات کی جس کے بعد وزیرخارجہ خواجہ آصف نے واشنگٹن کا دورہ کیا‘ پاکستان تمام دہشت گرد گروپوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائیاں کر رہا ہے۔

دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں افغانستان میں ہیں‘ پاکستان افغان حکومت اور عوام کی قیادت میں امن عمل کی حمایت اور اس میں سہولت کار کا کردار جاری رکھے گا‘ بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں مسلسل انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہی ہے‘ بھارت کا لائن آف کنٹرول پر دراندازی اور پھر پاکستان پر الزامات عائد کرنے کا مقصد مقبوضہ کشمیر کی صورت حال سے توجہ ہٹانا ہے‘ عالمی برادری مقبوضہ کشمیر میں جعلی مقابلوں اور ماورائے عدالت قتل عام کا نوٹس لے‘ سی پیک علاقائی رابطوں کا منصوبہ ہے جس سے پاکستان خطے کا اہم مرکز بن جائے گا اور اس منصوبے پر سو سے زائد ممالک اور تنظیموں کی حمایت حاصل ہے۔

پاک امریکا تعلقات اتار چڑھاؤ سے دوچار رہے ہیں کبھی امریکا کے پاکستان سے تعلقات اس قدر گہرے ہو جاتے ہیں کہ پاکستان کی ہر شعبے میں بھرپور مدد کی جاتی اور مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے عالمی فورم پر اس کے موقف کی تائید کی جاتی  اور اسے نیٹو اتحادی تک بنا لیا جاتا ہے۔ لیکن جب امریکا کے مفادات کا رخ بدلتا ہے تو وہ پاکستان کے اس حد تک خلاف چلا جاتا ہے کہ اس کی امداد بند کرنے ‘ پابندیاں لگانے اور نیٹو اتحادی کا درجہ ختم کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔گزشتہ دنوں ایک کینیڈین امریکی خاندان کو پاکستان نے آپریشن کر کے افغان طالبان سے بازیاب کرایا تو امریکا مہربان ہو گیا اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے توصیفی بیان سامنے آیا جس پر دونوں ممالک کے درمیان جاری سرد مہری کے تعلقات میں مثبت پیش رفت ہوئی۔

امریکی صدر ٹرمپ نے افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج سے نبرد آزما جنگجو گروپوں کے خلاف بھرپور کارروائی کا آغاز کر دیا ہے اور ان پر فضائی حملے کیے جا رہے ہیں۔ ایسے موقع پر پاکستان نے امریکا کو بھرپور یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی میں ہر ممکن وسائل بروئے کار لائے گا۔ پاکستان نے اپنے علاقے میں موجود دہشت گردوں کی پناہ گاہوں پر بھرپور حملے کر کے انھیں تباہ کر دیا‘ آپریشن ضرب عضب کے ذریعے شمالی وزیرستان میں امن قائم کر دیا گیا اب آپریشن ردالفساد کے ذریعے چھپے ہوئے دشمنوں کے خلاف بھی کارروائی کی جا رہی ہے۔

دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کے نتیجے میں اب پاکستان میں دہشت گردوں کے ایسے ٹھکانے موجود نہیں رہے جن کی واضح نشاندہی کی جا سکے جو بھی دہشت گرد موجود ہیں وہ بے چہرہ اور بے شناخت ہیں اور ان کے ٹھکانے بھی غیرواضح ہیں جب کہ افغانستان کے شورش زدہ علاقوں میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں جہاں سے وہ امریکی اور افغان حکومت کے لیے حملے کرکے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ افغانستان کے ایک بڑے حصے پر کابل حکومت کا کنٹرول نہیں، ان حصوں پر جنگجوؤں کا قبضہ ہے۔

اب افغان حکومت اپنی اس نااہلی پر پردہ ڈالنے کے لیے جنگجوؤں کے حملوں کا الزام پاکستان پر عائد کر دیتی ہے جو قطعی طور پر درست عمل نہیں۔ جہاں تک مقبوضہ کشمیر میں جاری مظالم اور کنٹرول لائن پر بھارتی فائرنگ کی صورت حال ہے تو پاکستان بارہا عالمی دنیا کی توجہ اس جانب مبذول کرا چکا ہے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ عالمی برادری مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم‘ جعلی مقابلوں اور ماورائے عدالت قتل سمیت لائن آف کنٹرول پر بھارتی خلاف ورزیوں کا نوٹس لینے کے بجائے مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔بھارت بلاجواز سی پیک منصوبے کی مخالفت کر رہا ہے جب کہ اس منصوبے کی تکمیل سے پورے خطے کو تجارتی فوائد حاصل ہوں گے۔

پاکستان امریکا پر واضح کر چکا ہے کہ افغان مسئلے کا حل جنگ نہیں بلکہ مذاکرات میں مضمر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے افغان امن عمل میں ہمیشہ سہولت کار کا کردار ادا کیا اور اب بھی وہ یہ کردار ادا کرنے کے لیے آمادہ ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ تمام تر جنگی حکمت عملی کے باوجود امریکا اور نیٹو افواج افغانستان میں کامیابی حاصل نہیں کر سکیں اور اب بھی خدشہ ہے کہ وہ اپنی حالیہ کارروائیوں کے ذریعے حتمی نتائج حاصل نہیں کر سکیں گے۔ بہتر ہے کہ جنگی حکمت عملی کے بجائے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔