اندھیرا جتنا سیاہ، صبح اتنی قریب

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 21 اکتوبر 2017

ایک دن ایک استاد نے شاگر د سے پوچھا برائی کیا ہے۔ شاگرد نے جواب دیا استاد محترم میں بتا تا ہوں ۔لیکن پہلے مجھے آپ سے کچھ پوچھنا ہے استاد نے کہا ہاں پوچھو کیا پو چھنا چاہتے ہو ۔شاگر دنے پوچھا کیا ٹھنڈ کا وجود ہے ۔استاد بولا بالکل ہے۔ شاگر د نے جواب دیا غلط محترم استاد ٹھنڈ جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی بلکہ دراصل یہ گرماہٹ کی غیر موجودگی کا نام ہے۔ شاگر د نے پھر پوچھا بھلا اندھیرا ہوتا ہے۔

استاد نے جواب دیا ہاں بالکل ہوتا ہے۔ شاگر د نے کہا نہیں استاد محترم اندھیرا کوئی چیز نہیں بلکہ وہ روشنی کی غیر موجودگی ہے جس کو ہم اندھیرا کہتے ہیں ۔کیونکہ فزکس کے اصولوں کے مطابق ہم روشنی یاگرماہٹ کا مطالعہ تو کرسکتے ہیں لیکن ٹھنڈک یا اندھیرے کا نہیں ۔ کچھ لمحے ٹھہر کر شاگر دنے پھر کہا برائی کا بھی کوئی وجود نہیں بلکہ یہ دراصل اچھائی ، ایمان ، محبت ، اور خدا پہ پختہ یقین نہ ہونے کا متبادل نتیجہ ہے جس کو ہم برائی کہتے ہیں۔ یہ شاگر د مشہور مسلمان سائنس دان البیرونی تھا۔

حالی ’’مسدس مدو جزر اسلام ‘‘ میں ہندوستان کے مسلمانوں کے بارے میں لکھتے ہیں قوم کی حالت تباہ ہے عزیز ذلیل ہوگئے ہیں شریف خاک میں مل گئے علم کا خاتمہ ہوچکاہے دین کا صرف نام باقی ہے افلاس کی گھر گھر پکار ہے پیٹ کی چاروں طرف دہائی ہے اخلاق بالکل بگڑ گئے ہیں۔

رسم و رواج کی بیٹری ایک ایک پاؤں میں پڑی ہے جہالت و تقلید سب کی گردن پر سوار ہے امراء جو قوم کو بہت کچھ فائدہ پہنچا سکتے ہیں ۔ غافل اور بے پرواہیں علما جن کا قوم کی اصلاح میں بہت بڑا دخل ہے زمانہ کی ضرورتوں اور مصلحتوں سے ناواقف ہیں۔ حالی نے مسدس میں عرب میں اسلام سے پہلے دور جاہلیت کا نقشہ کھینچا ہے معاشرہ میں تمام اخلاقی برائیاں موجود تھیں مگر اسلام کی آمد کے ساتھ ہی ان کی حالت بدلتی ہے اور عرب کے یہ بدو فاتح کی صورت میں شام و ایران کی بڑی سلطنتوں کو فتح کرتے ہیں اور ایک عظیم سلطنت کی بنیاد کے ساتھ ہی ان کے ہاں تہذیب و تمدن و ثقافت کی ابتداء ہوتی ہے۔ انھوں نے دنیا کو علم و فن سے روشناس کرایا اپنی عظیم تہذیب کی یادگاریں نہ صرف علم و ادب و فن میں چھوڑیں بلکہ عالیشان عمارات آج بھی ان کی یاد دلاتی ہیں پھر اس عروج کے بعد زوال آتا ہے۔

ان کی تمام خو بیاں اور اچھائیاں ایک ایک کرکے رخصت ہوتی ہیں اور وہ دوبارہ سے پھر اسی جاہلیت میں آجاتے ہیں ابھی کچھ ہی عرصے قبل پاکستانی سماج اخلاق ، تہذیب ، شرافت ، اچھائی کے ستونوں پر کھڑ ا ہوا تھا اور پھر اچانک ایک ایک ستون مسمار ہوتے چلے گئے اور آج دنیا بھر میں ناپید برائیاں اور خرابیاں سب آپ کو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں باکثرت اور وافر مقدار میں گلی کوچوں ، بازاروں ، گھروں ، محلوںاور ایوانوں میں موجود ملیں گی ، کرپشن، منافقت ، چور بازاری ، حسد ، جلن ، لوٹ مار، فراڈ ، دھوکہ دہی ، ملاوٹ ، لالچ ، جھوٹ ، بے ایمانی ، کھینچاتانی غرض ہر برائی موجود ہونے کا انمول اعزاز ہمیں حاصل ہوگیا ہے بنیاد پرستی ، توہمات، نفرت، انتہاپسندی، وہم و تعصب میں تو ہمارا کوئی ثانی ہی نہیں ہے ۔ سارا پاکستان ڈپریشن کا مریض ہوگیا ہے بے ایمانی اور کرپشن نے ہمیں ایسا دبوچا ہے کہ ہمارا ایمان پارہ پارہ ہوکر رہ گیا ہے ۔

سب کے سب ایک دوسرے کو کچلتے ، روندتے روپوں کی دوڑ میں آگے نکلنے کی کوششوں میں دن رات مصروف ہیں شرافت ایک گالی بن کر رہ گئی ہے ایمانداری اس وقت سب سے بڑ جرم ہے ۔ سچ کا ہر جگہ مذاق اڑایا جاتاہے روپے پیسے نے سب سے بڑے دیوتا کا روپ دھار لیا ہے اور ہم سب اس کے پجاری بن کر رہ گئے ہیں ۔ لوئی فشر کہتا ہے ’’کہ ایک نئے عالم کی ضرورت ہے نیا عالم کہاں ہے روشن مستقبل کہاں ہے ان میں سے فی الحال کوئی بھی دکھائی نہیں دے رہا یہ مقلدین کے ہاتھوں صورت پذیر نہیں ہوگا۔

بلکہ مصلحین اس کی تعمیر کریں گے وہ باغی جن کے پاس ایک واضح لائحہ عمل ہوگا افراد جن کے پاس نئے نئے خیالات ہونگے وہ لوگ جو دلیرانہ ایک کٹھن راستے پر چل کھڑے ہونگے جب کہ دونوں طرف سے ان پر تیروں کی بوچھاڑ پڑ رہی ہوگی‘‘۔ سماجی بے چینی ، افراتفر ی ، بے حسی ، اخلاقی و سماجی روایات و اقدار کا ختم ہونا۔ طاقتور طبقوں کی بدعنوانی و لوٹ مار ، اداروں کا کمزور ہوجانا، سیاسی ، انتشار یہ سب اس بات کی علاما ت ہیں کہ ہمارا معاشرہ تیزی کے ساتھ زوال پذیر ہے اور اس میں صحت مندی کے آثار بالکل ختم ہوچکے ہیں۔

سماج اور افراد دونوں بیماریوں میں مبتلا ہو چکے ہیں لیکن اگر باریکی کے ساتھ غور کیا جائے اور بغور دیکھا جائے تو اسی انتشار ، بے چینی ، بے حسی اور ٹوٹ پھوٹ کے عمل میں تعمیر اور ایک نئے صحت مندانہ سماج کے جراثیم موجود ہیں ایک بالکل نئی صبح کے آثار نظر آرہے ہیں کیونکہ اندھیرا جتنا سیاہ ہوگا صبح اتنی ہی قریب ہوگی ۔

ایک وعظ کی یہ نرالی عادت تھی کہ جب وہ وعظ کے لیے منبر پر جاتا گمراہوں ، سیاہ کاروں ، بدفطرتوں ، بدکاروں ، ظالموں ، اور بت پرستوں کے لیے خشو ع خضو ع سے دامن پھیلا پھیلا کر دعائیں کرتا کہ یاالہی ان سب پر اپنی رحمت نازل فرما ان لوگوں کے علاوہ خدا کے پاک اور نیک بندوں کا ذکر اپنی دعا میں لاتا ہی نہ تھا ۔جب لوگ عرصے تک واعظ کے منہ سے یہ دعائیں برے آدمیوں کے حق میں سنتے رہے تو ان کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور انھوں نے واعظ سے پوچھا، مولانا یہ کیا تماشا ہے آپ کی دعائیں صرف بدکاروں اور ظالموں کے لیے ہوتی ہے۔ واعظ نے جواب دیا ان دعاؤں کی حقیقت سمجھو تواعتراض نہ کرو، واقعہ یہ ہے کہ مجھے ان بد فطرتوں ، سیاہ کاروں اور ظالموں سے بہت فائدہ پہنچا ہے۔

اس لیے ان کے حق میں ہمیشہ دعا کرنااپنے اوپر فرض سمجھتاہوں ان لوگوں نے اللہ کی زمین پر اس قدر ظلم و ستم ، ناپاکی اور برائی پھیلائی کہ میرا نفس متو حش ہوگیا اور میں نے حتی الامکان اپنی اصلاح کرکے برائیاں دور کیں اور بھلائیاں چن لیں جب کبھی میں ہوائے نفس سے مجبور ہو کر دنیا کی طرف لپکا یہ ہی مفسد ، سیاہ کار ظالم مجھے اذیتیں پہنچانے کے لیے سامنے آجاتے تھے یہاں تک کہ دنیا کی حرص وہوس میرے اندر سے نکل گئی اور میں سیدھے راستے پر آگیا۔ یہ سچ ہے کہ ہم سب موجودہ اذیت ناک صورتحال کی وجہ سے اذیت میں ہیں اور اس سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں یہ ہماری منزل نہیں ہے اس دلدل سے باہر نکلنے کا راستہ موجود ہے بس ذرا سی ہمت ، نئے خیالات ، واضح لائحہ عمل ، دلیرانہ روئیے، مرض کی تشخیص کی ضرورت ہے۔

ہم بھی ایک ایسے سماج میں رہنا چاہتے ہیں جہاں جھوٹ، دغا بازی ، لالچ، حسد، منافقت ، انتہاپسندی ،ملاوٹ نہ ہوجہاں صرف سچ کا بول بالا ہو جہاں کرپشن ، لوٹ اور عدم مساوات نہ ہو۔جہاں ایک دوسرے کا احترام ہو جہاں رواداری ہو ، جہاں برداشت ہو ، جہاں اخلاقی اقدار و تہذیب کاراج ہو، جہاں خوف خدا ہو یہ کام کوئی بھی اکیلے نہیں کرسکتا اس کے لیے ہم سب کو مل کر جدو جہد کرنا ہوگی اور قربانیاں دینا ہونگی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔