میرے بچپن والی پیپلز پارٹی

نصرت جاوید  ہفتہ 2 مارچ 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

میری عمر کے لاہور کی گلیوں میں پیدا ہو کر بڑے ہونے والے بچے اپنے اپنے اسکولوں تک پیدل جایا کرتے تھے۔ اوسطاََ اس عمل میں پندرہ سے بیس منٹ صرف ہوتے۔ مگر یہ وقت اس حوالے سے اب مجھے بہت ہی قیمتی نظر آنا شروع ہو گیا ہے کہ وہ میرے جیسے نسبتاََ کم گو اور شرمیلے بچے کو بھی پیدل چلتے ہوئے اپنے دائیں بائیں نظر آنے والی چیزوں میں دلچسپی لینے پر مجبور کر دیتا تھا۔ اِرد گرد کے مناظر، اشیاء اور لوگوں کے بارے میں پیدا ہونے والا بے ساختہ تجسس آپ کے ذہن میں بے تحاشہ سوالات اٹھاتا، جن کے جواب جاننے کے لیے آپ لوگوں کے ساتھ بات چیت کرنے کی خواہ مخواہ ضرورت محسوس کرتے۔

قرۃ العین حیدر کے ’’آگ کا دریا‘‘ کا آغاز بھی دو طالب علموں کے درمیان ایک ایسے ہی مکالمے سے ہوتا ہے اور وہ ناول پڑھتے ہوئے آپ کو پتہ چلتا ہے کہ قدیم زمانوں میں کھاتے پیتے گھرانوں کے طالب علم اپنے ماں باپ سے بہت دور پیدل سفر کرتے ہوئے اپنے استادوں تک پہنچتے تھے۔ شام ڈھلنے سے پہلے جن علاقوں یا دیہاتوں میں موجود ہوتے، وہاں گھر گھر جا کر کچھ اناج جمع کرتے اور اپنے ہاتھوں سے کھانا بنا کر درختوں کے نیچے یا غاروں میں کوئی کپڑا بچھا کر سو جاتے تھے۔

ہم تو خیر ایسی ریاضتوں سے محفوظ رہے مگر اسکول جاتے اور وہاں سے لوٹتے ہوئے دنوں میں دریافت ہوا کہ کوئی بھٹو ہے۔ اس نے ایک جماعت بنائی ہے۔ نام اس کا پیپلز پارٹی ہے۔ یہ جماعت پاکستان میں سوشلسٹ نظام لانا چاہتی ہے۔ ہمارے بہت سارے لوگوں کا خیال تھا کہ امیر اور غریب کے درمیان فرق مٹانے کے دعوے کرنے والا یہ نظام ان کے مذہب کے خلاف ہے۔ لاہور کے پرانے محلوں اور تھڑوں میں ایک شدید بحث شروع ہو گئی جس کا تمام تر مقصد سوشلزم کو اسلام کے خلاف یا اس کے عین مطابق ثابت کرنا نظر آتا تھا۔ سردیوں میں گرم حمام اس بحث کے سب سے بڑے مراکز ہوا کرتے اور گرمیوں کی شاموں میں بارہ دروازوں کے اِرد گرد پھیلے باغ اور وہاں گلابوں کی کیاریوں کے قریب بیٹھے لوگوں کے گروہ۔

پاکستانی آپس میں مل بیٹھیں تو اب بھی بات زیادہ ترسیاست ہی پر کرتے ہیں۔ ان کے درمیان البتہ اب کوئی ’’نظریاتی‘‘بحث نہیں ہوتی۔ زیادہ تروقت سیاستدانوں کی کرپشن اور بے حسی پر سیاپا کرنے میں صرف ہو جاتا ہے۔ ایک بڑے پیمانے پر شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک ہماری ٹیلی وژن اسکرینوں پر چلائے جانے والے ’’ٹاک شوز‘‘ اسی رویے کی عکاسی کرتے ہیں۔ اب سے چند روز پہلے تک میرا خیال تھا کہ اپنے موضوعات اور مہمانوں کو اُکتا دینے کی حد تک دہرانے والے یہ ٹاک شوز اپنا اثر کھو چکے ہیں۔ انھیں دیکھنے والوں کی اکثریت تو اب ان ٹاک شوز کے اینکرزکو بھی کسی نہ کسی سیاستدان یا ایجنسیوں کا کارندہ سمجھتی ہے اور ان کی باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیتی۔ دو روز پہلے مگر کچھ باتوں کا علم ہوا اور میں چونک کر رہ گیا۔

چند لوگ جنھیں میں باخبر سمجھتا ہوں اور جن کے بارے میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ میرے ساتھ جھوٹ نہیں بولتے، مجھے ایک دوست کے ہاں کھانے پر ملے۔ اس محفل کے شرکاء کو یقین ہو چکا تھا کہ انتخابات اپنے معینہ وقت پر ہوں گے اور اسے وہ لوگ روکنا نہیں چاہ رہے جو اپنی غیر جمہوری خواہشات پورا کرنے کی پوری سکت رکھتے ہیں۔ چونکہ انتخابات کا ہونا طے کر لیا گیا تھا، اس لیے بحث اب یہ ہورہی تھی کہ کون سی جماعت کتنی سیٹیں لے سکتی ہے۔ نواز شریف کی جماعت کا پلہ اس ضمن میں یقیناً بھاری دِکھ رہا تھا۔ اگرچہ چند افراد اصرار کرتے رہے کہ لاہور میں 23مارچ کو اپنے نو منتخب عہدیداروں سے حلف لینے کے بعد تحریک انصاف کا سونامی ایک بار پھر اپنی توانائی دکھانا شروع ہوجائے گا۔ مسلم لیگ قاف نامی ایک جماعت کا کسی نے اس محفل میں ذکر تک نہ کیا۔ مجھے اس بارے میں قطعی حیرت نہ ہوئی۔ اصل حیرانی اس بات پر ہوئی کہ اس محفل کے شرکاء نے پیپلز پارٹی کو ’’سندھ میں کچھ سیٹیں‘‘ دینے کے بعد اپنی گفتگو میں قطعی نظر انداز کیے رکھا۔

میں یہاں اس بات کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس محفل میں جو لوگ بیٹھے ہوئے تھے، ان کی اکثریت شہری پنجابیوں پر مشتمل تھی۔ ان کے ہمارے مشہور سیاسی خاندانوں سے کسی نہ کسی حوالے سے قریبی تعلق اور واسطے بھی تھے، اسی لیے آیندہ انتخابات کے ممکنہ امیدواروں اور ان کے امکانات پر تبصرہ آرائی کرتے ہوئے وہ ٹھوس زمینی حقائق کا تذکرہ بھی کر رہے تھے۔ پاکستان کی سیاست پر گرما گرم بحث کرتے ہوئے ان کا ’’جغرافیہ‘‘ مگر اٹک سے اوکاڑہ تک محدود تھا اور اس علاقے میں بھی زیادہ تر فوکس ان حلقوں پر جو جی ٹی روڈ یا موٹروے کے دائیں اور بائیں پائے جاتے ہیں۔ ان علاقوں سے پرے حلقوں کا ذکر کرتے سنتے ہوئے مجھے ’’ٹاک شوز‘‘ کے اثر کا حقیقی اندازہ ہوا۔

ایک بڑے ہی قابل اعتبار شخص نے ایک شخصیت کا نام لیا۔ وہ 2002ء سے قومی اسمبلی کے رکن چلے آ رہے ہیں۔ آج کل پیپلز پارٹی کے وزیر بھی ہیں۔کچھ روز پہلے میں نے سنا تھا کہ وہ نواز شریف کی جماعت میں جانا چاہ رہے ہیں۔ میاں صاحب راضی نہ ہوئے۔ اب فیصلہ یہ کیا ہے کہ آیندہ کا انتخاب بطور آزاد امیدوار کے لڑیں۔کسی بھی جماعت کی ٹکٹ کے بغیر پیپلز پارٹی کی صفوں سے نکل کر ’’آزاد‘‘ لڑنے والوں کا شمار کرتے ہوئے اس محفل میں پانچ بڑے نام سامنے آئے۔ ان میں سے ایک نام سے میری کافی شناسائی ہے۔ میں نے ان سے رابطہ کر کے اکیلے میں ملاقات کی درخواست کی۔ انھوں نے کمال شفقت سے دوپہر کے کھانے پر بلالیا۔ اور اس امر کی تصدیق کر دی کہ وہ اور کم از کم ایک اور بھاری بھر کم شخصیت آیندہ انتخاب آزاد امیدوار کے طور پر لڑنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔

انھوں نے اعتراف کیا کہ ان کے حلقوں میں ’’ہوا‘‘ تو نواز شریف کی ہے مگر ان کی پارٹی کے متوقع امیدواروں سے لوگ تنگ ہیں۔ وہ ان کے مخالفین کو ترجیح دیں گے کیونکہ وہ اپنے اپنے حلقوں میں شریف سمجھے جاتے ہیں اور لوگوں کی شادی غمی میں شرکت کرنے والے۔ میں جن صاحب سے ملا اور جس شخصیت کا ذکر ان صاحب نے کیا واقعی اچھی شہرت والے ملنسار لوگ ہیں۔ مگر ان کا خیال تھا کہ ٹیلی وژن والوں نے گزشتہ پانچ سالوں میں پیپلز پارٹی کو بدنام کر دیا ہے۔ اس ’’بدنامی‘‘ کی وجہ سے آیندہ انتخابات میں بہت سارے ووٹر اپنے گھروں سے پولنگ اسٹیشنوں تک صرف اس جماعت کے امیدواروں کے خلاف ووٹ ڈالنے جائیں گے۔ ’’میں پیپلز پارٹی کا ٹکٹ لے کر اپنا بیڑا غرق کیوں کروں؟‘‘ وہ بڑبڑاتے رہے اور مجھے 1967ء سے 1970ء کے وہ دن یاد آنا شروع ہو گئے جب اس جماعت نے لاہور کے تھڑوں، بیٹھکوں اور گرم حماموں میں ہل چل مچا رکھی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔