خانہ عدل سے منصف کی صدا گونجتی ہے

شاہد سردار  اتوار 22 اکتوبر 2017

یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی انسانی معاشرہ بے چینی اور بدامنی کا شکار اسی صورت میں ہوتا ہے جب اس کے طاقتور عناصر ملک کے آئین اور قانون سے بالاتر ہوں اور ان کا اطلاق صرف معاشرے کے کمزور طبقات تک محدود رہے۔ ایسا ہونے کی وجہ سے محروم اور مظلوم طبقے بے اطمینانی کا شکار ہوتے ہیں اور اس کا نتیجہ معاشرے کی ٹوٹ پھوٹ کی شکل میں برآمد ہوتا ہے۔

اسلامی تعلیمات میں اس کے بہت واضح حوالے ہیں۔ ایک حدیث نبوی کے مطابق وہ قومیں تباہ ہوجاتی ہیں جو قانون کا نفاذ صرف اپنے کمزوروں پر کرتی ہیں اور طاقتوروں کو چھوڑ دیتی ہیں۔ حضرت علیؓ کا یہ قول بھی ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ معاشرے کفر سے نہیں بے انصافی اور ظلم سے تباہ ہوتے ہیں۔ اور ظلم فی الاصل یہی ہے کہ ایک ہی جیسے جرم پر کمزور تو سزا پائیں مگر طاقتور قانون کے شکنجے میں نہ کسے جائیں۔

پانامہ لیکس کے نتیجے میں دنیا کے کئی ملکوں کی حکمراں شخصیات جہاں متاثر ہوئیں وہیں پاکستان میں حکمراں خاندان کے احتساب کے حوالے سے بہت ہی سنسنی خیزی دیکھنے کو ملی اور ملک کے منتخب وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کے خلاف کھلی عدالت میں سنایا جانے والا متفقہ عدالتی فیصلہ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ کے اہم ترین مقدمے کا اہم ترین فیصلہ ثابت ہوا جس کے ہماری قومی زندگی پر نہایت دوررس اثرات مرتب ہوئے۔ لیکن یہ تلخ حقیقت ہے معاشرے کے تمام طبقات پر قانون کے یکساں اطلاق کی منزل ابھی حاصل نہیں ہوسکی ہے، اور یہ سوال بہرحال جواب طلب ہے کہ کیا کوئی عدالت آئین شکنی اور قتل و غارت کے مقدمات میں ملوث اشخاص اور آئینی و جمہوری نظام کے مقابلے میں آمریت کو برملا بہتر قرار دینے اور آئین مملکت کو نظرانداز کرنے کو جائز ٹھہرانے والے ملک کے سابق ڈکٹیٹر جنرل مشرف کو سزا دے پائے گی یا نہیں؟ کیونکہ سیاستدانوں کا احتساب تو اس ملک میں ہمیشہ ہوتا رہا ہے لیکن ملک کے دستور کو پامال کرنے، اپنے غیر منصفانہ اقدامات سے علیحدگی کی تحریکوں اور دہشت گردی کو پروان چڑھانے اور اپنے اقتدار کے لیے قومی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر عالمی طاقتوں کی تابعداری کرنے والے آمروں کو کسی عدالت سے آج تک ان کے جرائم کی سزا نہیں ملی اور کڑوی سچائی یہی ہے کہ جب تک ایسا نہیں ہوتا اس وقت تک وہ پاکستان وجود میں نہیں آسکتا جس میں کمزور اور طاقتور سب پر قانون کا یکساں اطلاق ہونے کے سبب مکمل امن و امان، استحکام اور خوشحالی ہو۔ اس کے لیے ایک ایسے بے لاگ اور ہمہ گیر نظام احتساب کی تشکیل اور نفاذ لازمی ہے جس کا دائرہ اختیار پارلیمنٹ، عدلیہ، فوج اور میڈیا سمیت قومی زندگی کے ہر شعبے تک کے افراد تک وسیع ہو اور جس کے تحت سب پر آئین اور قانون کا یکساں اطلاق کیا جاسکے کیونکہ قانون کی بالادستی ہی قومی سلامتی کی حقیقی ضامن ہوتی ہے۔

ملک میں انصاف کی سب سے اعلیٰ اور معزز ترین عدالت نے جو فیصلہ دیا وہ فریقین کی جانب سے قبول کرلینے کے باوجود تنقید، تبصرے سے مبرا ثابت نہیں ہوا کیونکہ اس کے قانونی ہونے کے علاوہ سیاسی پہلو بھی ہیں اور اس کے سب سے برے اثرات ہماری معیشت پر پڑے۔ پاکستان میں پرویز مشرف سمیت سب کا اسی طرح محاسبہ کیا جاتا تو یہ نوبت نہ آتی، الیکشن سے پہلے سیاست دان باتیں تو بہت کرتے ہیں مگر حکومت میں آنے کے بعد اداروں میں ریفارمز نہیں لاتے، یہ کام حکومت کا ہے جب حکومتیں یہ کام نہیں کرتیں تو پھر عدالت کو کرنا پڑتا ہے۔ تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہمارے ملک میں قانونی پیچیدگیوں، ججوں کی تعداد کم اور مقدمات زیادہ ہونے کی وجہ سے انصاف کا حصول اب بھی آسان نہیں۔

خانہِ عدل سے منصف کی صدا گونجتی ہے
اور ڈر جاتے ہیں زنجیر ہلاتے ہوئے لوگ

عدل کے کمیاب ہونے کی ایک بڑی وجہ قوانین کا غیر موثر اور فرسودہ ہونا بھی ہے۔ ہمارا نظام انصاف آج بھی 1860 میں تشکیل پانے والے مجموعہ تعزیرات پر قائم ہے جس کی وجہ سے بالخصوص ماتحت عدالتوں میں سالہا سال تک مقدمہ چلنے کے بعد بھی فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ سائیلین عدالتوں میں انصاف کے لیے دھکے کھاتے نظر آتے ہیں۔ وقت اور پیسے کے بے تحاشا ضیاع کے باوجود فریقین کو انصاف نہیں مل پاتا، بعض افراد تو انصاف کا انتظار کرتے کرتے ہی دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔

اس صورتحال میں عدالتی اصلاحات بہت ضروری ہیں اور یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ آئی ٹی کی مدد کے بغیر عدالتی نظام کو جدید خطوط پر استوار نہیں کیا جاسکتا، اسی طرح ’’ایکس کیڈر کورٹس‘‘ کو عدالتی نظام کا مکمل حصہ بنانا بھی ضروری ہے تاکہ ہر سیکٹر میں یکساں بنیادوں پر ترقی ہو اور مقدمات کا جلد تصفیہ ممکن بنایا جاسکے۔ اسی کے ساتھ ساتھ عدالتوں میں ہڑتال کلچر ختم کرنے سے لاکھوں لوگوں کے زیر التوا مقدمات کے جلد فیصلوں میں مدد مل سکتی ہے، ہمارا عدالتی نظام اب مزید ہڑتال کلچر کا متحمل نہیں ہوسکتا کیونکہ عدالتوں میں ہڑتال سے عدالتی نظام معطل ہوجاتا ہے اور سالہا سال سے عدالتوں کے چکر لگانے والے سائیلین کو انصاف کے لیے مزید ماہ و سال کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔

اس بات میں دو رائے نہیں ہوسکتی کہ آسان، سستا اور بروقت انصاف عدالتی نظام کی پہچان ہے اور عدلیہ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ’’اے آر ڈی‘‘ کی شکل میں دنیا بھر میں تیزی سے اپنی جگہ بنائی ہے۔ پاکستان میں بھی اگرچہ یہ نظام نافذ کردیا گیا ہے اور بار اور بینچ کا مشترکہ ورکنگ کلچر اسے کامیابی سے ہمکنار کرسکتا ہے تاکہ عدالتوں میں لاکھوں مقدمات جو روایتی طریقہ کار کی وجہ سے زیر التوا پڑے ہیں انھیں نمٹانے میں مدد مل سکے۔ اے آر ڈی نظام سے وکلا اپنے کام کو عالمی عدالتی نظام سے مربوط کرسکیں گے اور مقدمات کی سماعت میں شفافیت بڑھے گی۔

یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ انصاف صرف آئینی درخواست کی سماعت کا نام نہیں، انصاف تو چاندنی کی وہ کرن ہے جو قانون پسند شہریوں کے ساتھ ساتھ چلتی ہے جس میں دستور کی عملداری کو ہاتھ بھر کے فاصلے پر چھو کے محسوس کیا جاسکتا ہے اور جس میں ہمیں کسی کا نام لینے میں اس لیے ہچکچاہٹ نہیں ہوتی کہ جوابدہی کی مشعل تلے سب چہرے واضح نظر آتے ہیں۔ چھوٹے مقدمات کا فیصلہ ایک ماہ اور بڑے مقدمات کا فیصلہ ایک سال کے اندر کرنے کے قانون کے رائج کرنے کی ازحد ضرورت ہے۔ بڑے سے بڑے جرم یا کھلے فراڈ میں ضمانت کا بوسیدہ قانون یکسر ختم کرکے اس کی کم سے کم 5 سال قید سخت سزا لازمی قرار پانی چاہیے۔

قوم بجا طور پر یہ توقع رکھتی ہے کہ ملک کے مقتدر طبقوں کے احتساب کا عمل آگے بڑھے گا، آئین اور قانون کی خلاف ورزی اور کسی بھی نوعیت کی بدعنوانی اور کرپشن میں ملوث تمام بااثر اور طاقتور لوگ بہرطور احتساب کے شکنجے میں کسے جائیں گے، عدالتوں میں اس حوالے سے زیرالتوا مقدمات کو حتمی انجام تک پہنچانے کا عمل تیز ہوگا اور قومی دولت کی لوٹ کھسوٹ کے دوسرے مقدمات کی بحالی بھی عمل میں لائی جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔