اس کے مرنے کا انتظار نہ کریں؟؟

شیریں حیدر  اتوار 22 اکتوبر 2017
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’ میری پیاری ماں جی!! دنیا بھر میں آپ کے سوا کوئی مجھے یوں پیار نہیں کرتا… ‘‘

’’ ماں تجھے دیکھتا ہوں تو تصور میں جنت آتی ہے!! ‘‘

’’ پاپا… میں آج آپ کو بتا رہا ہوں کہ میں آپ سے بہت پیار کرتا ہوں !!‘‘

’’ آپ کی سالگرہ کا دن میرے لیے شکرانے کا دن ہے ابا کہ اس روز آپ پیدا ہوئے، میری دنیا، میرا جہاں !!‘‘

’’ بابا جان… آپ میری دنیا کو ویران کر کے چلے گئے…‘‘

’’ آپ دنیاسے چلے گئے ہیں اباجان مگر میرے دل میں ہمیشہ رہیں گے!!‘‘

’’ ماں تیرے جانے سے سورج کی تپش بہت بڑھ گئی ہے کیونکہ… ماواں ٹھنڈیاں چھاواں!!‘‘

’’ اماں آپ چلی گئیں اب میں اپنے دکھ کس سے کہوں گی؟ ‘‘

’’ پیارے بھائی… اپنی بہنا کو اداس کر کے چلے گئے!!‘‘

’’ میری بہن… میری دوست… تم بن تنہا ہو گئی ہوں !!‘‘ وغیرہ وغیرہ-

اس طرح کے اسٹیٹس اکثر میں فیس بک پر پڑھتی ہوں، شاید خود بھی کبھی ان جیسا کوئی نہ کوئی اسٹیٹس میں نے بھی لکھا ہو گا- جانتے ہوئی بھی کہ نہ ہمارے ماں باپ فیس بک پر ہیں… نہ وہ مدرز اور فادرز ڈے جیسی خرافات پر یقین رکھتے ہیں، نہ وہ جانتے ہیں کہ ہم نے فیس بک پر ان کے ساتھ اپنی محبت کا ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کیا ہے- جو دنیا سے جا چکے ہیں وہ تو بالکل بھی نہ ہمارے اسٹیٹس پڑھ سکتے ہیں اور نہ ہی بعد از وفات ہمارے جذبات کو جان کر ان کی قدر کر سکتے ہیں، تو پھر یہ سارے تردد، اسٹیٹس، ڈرامہ بازی اور فارورڈ پوسٹ دنیا دکھاوے کے لیے ہی ہیں نا-

ہم سب whatsapp اور facebook  کے علاوہ کئی طرح کے سوشل میڈیا پر ہیں جہاں سب دن بھر پوسٹ فارورڈ کرتے رہتے ہیں ، بنا جانے کہ ان میں سے کتنی درست ہیں اور کتنی غلط، یعنی ہم بلا تحقیق سنی سنائی بات کو آگے بیان کر دیتے ہیں-

ہم دوستوں والے گروپ سے فیملی والے گروپ میں اور فیملی والے گروپ سے دوستوں والے گروپ میں ادلے بدلے میں جو پوسٹ بھیجتے ہیں وہ پوسٹ کی ہوئی بہت سی چیزیں گھوم پھر کر واپس ہمارے پاس آ جاتی ہیں، کیونکہ ہماری دوستوں میں سے کوئی نہ کوئی ہماری فیملی کے کسی ممبر کے دوست کا دوست ہوتا ہے –

ان پوسٹوں سے ہماری واقعی کوئی خاص مراد نہیں ہوتی، یعنی ہم جو کچھ کہیں اور سے چرا کر پوسٹ کر رہے ہوتے ہیں اس سے ہمارا متفق ہونا اتنا ضروری نہیں ہوتا – ماں سے محبت کے اظہار کی پوسٹ لگاتے وقت اکثر بھول جاتا ہے کہ تھوڑی دیر پہلے ماں سے کتنے اکھڑ لہجے میں بات کی تھی- ابا سے محبت کی داستان تو پوسٹ کر دیتے ہیں مگر دل سے ہر وقت ابا سے بد گمان ہوتے ہیں اور ان کی روک ٹوک پر بد ظن اور چڑے ہوئے، یہ سوچتے ہوئے کہ فلاں کے ابا کتنے اچھے ہیں ، کاش میرے ابا بھی ویسے ہی ہوتے یا میں انھی کے ہاں کیوں پیدا نہ ہو گیا- اس سے پوچھیں تو وہ بھی اپنے ابا سے اتنا ہی متنفر ہو گا… اماں سے اتنا ہی بیزار کہ اتنی روک ٹوک کرتی ہیں-

دنیا سے چلے جانے والا ہمارا ہر قریبی رشتہ دار، خونی رشتہ، عزیز دوست… ہمیں پچھتاؤں کا ایک گلدستہ دے کر جاتا ہے ، اس گلدستے کو ہم ہر وقت ساتھ لے کر چلتے ہیں، نہ سکون سے سو سکتے ہیں نہ جی سکتے ہیں – بہت سے کاش اس گلدستے میں جڑے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کے رنگ اور خوشبو ہمارا احاطہ کیے رکھتی ہے-

… کاش ہم اس سے یہ کہتے اور یہ نہ کہتے-

… کیا ہوتا جو ہم اسے بتا دیتے کہ اس کی اہمیت ہماری زندگی میں کیا ہے-

… کاش فلاں موقعے پرمیں نے اس کے غصے کو تھوڑی دیر کے لیے برداشت کر لیا ہوتا اور پلٹ کر اسے جواب نہ دیا ہوتا-

… کاش میں نے اس کی مدد کردی ہوتی اور اسے کسی اور کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑتا-

… کاش میں نے اس پر خواہ مخواہ شک نہ کیا ہوا اور کسی کی بتائی ہوئی بات کی تصدیق کر لی ہوتی-

…اس نے اپنی غلطی تسلیم کر کے مجھ سے معافی مانگی تو کاش میں نے اسے معاف کر دیا ہوتا-

…کاش میں نے اسے اس وقت کال کر لی ہوتی جب مجھے علم ہو کہ وہ ایک موذی مرض کا شکار ہو گیا ہے-

… میں اس کے شہر گیا تھا، جو مجھے علم ہوتا کہ وہ نہیں رہے گا تو میں اس سے آخری بار مل ہی آتی-

… کاش میں نے اپنے ماں باپ سے گستاخی نہ کی ہوتی-

… کاش میں اس کا راز دوستوں پر فاش کر کے اس کا مضحکہ نہ اڑاتی-

… کاش میں نے اسے بتا دیا ہوتا… وہ کہہ دیا ہوتا… یہ تکلیف دہ بات نہ بتائی ہوتی… اسے تنہا نہ چھوڑا ہوتا!!!

یہ گلدستے ان نا خوشگوار باتوں اور غلطیوں کی یادوں کے ہوتے ہیں جو ہم سے سرزرد ہوئیں اور اب وقت گزر چکا کہ ان کا مداوا کیا جا سکے- ہم ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے ہوتے ہیں اور بات کرنے کی بجائے فون پر پیغامات بھجوا رہے ہوتے ہیں- سامنے بیٹھے شوہر یا بیوی کو نہیں بتاتے کہ وہ ہمارے لیے کتنا اہم ہے… اس سے ہمیں کتنی محبت ہے مگر فیس بک پر اسٹیٹس لگا کر اسے اور پورے احباب کو بتاتے ہیںکہ ہمیں اس سے پیار ہے – ماں باپ سے محبت کا اظہار ان کے منہ پر اس لیے نہیں کرتے کہ ہمیں ان سے کہتے ہوئے شرم آتی ہے- دوست احباب ہمارے لیے اہم اور لازمی، ان کا وجود ہمارے لیے باعث طاقت و تسکین مگر ہم ان سے اس لیے نہیں کہتے کہ جانے ایسا کہنے پر وہ کیا سوچیں-

’’ مجھے تائی جی بہت اچھی لگتی ہیں… ‘‘ – ’’ اچھا تم نے انھیں بتایا؟ ‘‘ – ’’ اوہوں … جانے وہ کیا سوچیں کہ شاید مجھے ان سے کوئی غرض ہے!!‘‘

’’ میری بیوی بہت اچھا کھانا پکاتی ہے!! ‘‘ – ’’ تم نے اس کے سامنے اس کی تعریف کی؟ ‘‘- ’’ نہیں بھئی، ایسے ہی سر چڑھ جائے گی! ‘‘

’’ مجھے اپنے شوہر سے بہت پیار ہے! ‘‘- ’’ ان کے سامنے اعتراف تو کیا ہو گا؟ ‘‘- ’’ لو بھئی، انھیں پتا ہی ہو گا… اصل زندگی اور ڈراموں میں ڈائیلاگ بولنے کا ہی تو فرق ہوتا ہے!!‘‘

’’ میرا دوست بہت مخلص اور وفادار ہے!!‘‘ -’’ اس سے کہا تم نے؟ ‘‘ – ’’نہیں، کیونکہ دوستوں میں یہی تو خوبی ہوتی ہے کہ انھیں کچھ کہنا نہیں پڑتا، وہ بن کہے سب جانتے ہیں!!‘‘

اس طرح کی صورت حال ہم سب کے ساتھ ہے، یقین کریں کہ یہ سب کچھ کہہ کر بتانا پڑتا ہے- یوں ہی جیسے ہوا ہمارے گرد ہمہ وقت ہوتی ہے مگر ہم اس وقت اس کے بارے میں جانتے ہیں جب وہ متحرک ہوتی ہے- دل ہر وقت دھڑکتا ہے مگر ہمیں کب معلوم ہوتا ہے جب دھڑکنیں بول کر اپنے ہونے کا احساس دلاتی ہیں، اسی طرح محبت، احترام، پیار اور عزت ہم سب کے دلوں میں موجود تو ہوتا ہے مگر اسے اظہار کی ضرورت ہے- نفرت، ناپسندیدگی اور غصہ تو ہم فٹ سے دوسروں کے منہ پر دے مارتے ہیںتو محبت کیوں نہیں؟؟

اب بھی وقت ہے… اپنے سامنے دیکھیں، ارد گرد دیکھیں، جو سامنے ہے، اس کے لیے دل میں جو اچھا جذبہ (صرف اچھا) ہے، اس سے کہہ دیں، بغیر کسی موقعے، خاص دن کے- اپنی زبان سے اظہار کر کے بالمشافہ، نہ کہ فیس بک یا whatsappپر-

جس کی تعریف کرنا ہے، پیار کا اظہار کرنا ہے ، اس کے سامنے کہیں… سوشل میڈیا پر نہیں، اسے بتائیں، دوسروں کو نہیں- اس کی زندگی میں بتائیں، اس کے مرنے کا انتظار نہ کریں!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔