رُباء کی کہانی

رئیس فاطمہ  اتوار 22 اکتوبر 2017
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

رباء کی کہانی بہت تکلیف دہ ہے۔ وہ چھوٹی سی تھی کہ باپ نے اس کی ماں کی زندگی میں ہی دوسری شادی کرلی تھی، یہ صدمہ ماں سے برداشت نہ ہوا اور وہ جان ہار گئی۔ رباء اور اس کی دو بہنوں کو (بھائی کوئی نہیں) خالہ اور ماموں نے پرورش کیا۔ باپ نے بیوی کے مرنے کے بعد تینوں بیٹیوں سے لاتعلقی اختیار کرلی۔

پانچ سال پہلے رباء کی شادی ہوگئی، اس وقت اس کی عمر 23 سال ہے، دو بچوں کی ماں ہے۔ ساڑھے تین سال کی ایک بیٹی اور ڈھائی سال کا بیٹا۔ بیٹے کی پیدائش کے بعد پتہ چلا کہ رباء کے دونوں گردے ناکارہ ہیں۔اب مسلسل ہفتے میں دو بار اس کا ڈائیلاسس نارتھ کراچی کے ایک اسپتال میں ہوتا ہے۔ کہانی یہیں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ عذابوں کی داستان تو اب شروع ہوتی ہے۔ دونوں گردے ناکارہ، پیسہ پاس نہیں، رباء کی خالہ ماموں اور شوہر نے اس کے باپ سے جاکر ایک گردہ عطیہ کرنے کی درخواست کی تو انھوں نے اپنے گھر کے دروازے اس پر بند کردیے، دل کے دروازے تو وہ بچپن میں ہی بند کرچکے تھے۔

انھوں نے نہایت ترش روئی سے انھیں اپنے گھر آنے سے منع کردیا کہ ’’مرتی ہے تو مرے میں کیا کروں؟‘‘ مایوس اور بیمار رباء سانسیں گن رہی ہے۔ اس کی اداس آنکھوں میں اتنا کرب اور دکھ ہوتا ہے کہ دیکھنے والے کا کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ شوہر بہت محبت کرنے والا اور خیال رکھنے والا ہے۔ کچھ خاندان کے لوگ اور کچھ دوست احباب مالی مدد کرتے ہیں تو ڈائیلاسس کے اخراجات پورے ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے رباء کے خون کا گروپ (O Negative) او نیگیٹیو ہے جو بہت کمیاب ہے۔

جسم میں خون کی کمی بھی ہے اور کوئی خون کا عطیہ دینے والا بھی نہیں۔ بلڈ بینک والے پہلے ’’ڈونر‘‘ مانگتے ہیں، مگر ڈونر بھی دستیاب نہیں۔ غربت ایسی بلا ہے کہ سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ بیوی کو ہفتے میں دو بار اسپتال لے جانے کے چکر میں رباء کے شوہر راحیل کی نوکری بھی چھوٹ گئی۔ اب سارا بوجھ اس کے دیور پر ہے۔

راحیل بہت محنتی انسان ہے، چھوٹے موٹے کام کرتا رہتا ہے تاکہ اخراجات پورے ہوسکیں۔ لیکن یہ سب ہوائی روزی ہے۔ کام مل گیا تو ٹھیک ورنہ لاچار۔ مفلسی اور بیروزگاری میں لوگ ویسے ہی دور ہو جاتے ہیں۔ رباء کا دیور اپنے بھائی بھابی اور بچوں کا خیال رکھتا ہے۔ لیکن اب صورتحال بہت گمبھیر ہے۔ بلکہ خاصی تکلیف دہ ہے۔ شریف اور خوددار آدمی بھیک نہیں مانگ سکتا نہ کسی رشتے دار کے آگے دست سوال دراز کرسکتا ہے۔

رباء میری بھتیجی کنول کی سہیلی ہے۔ اس بے کس اور مجبور لڑکی کے حالات جب مجھے پتہ چلے تو میں نے خود رباء اور اس کے شوہر سے اجازت لی تاکہ قارئین تک ان کا مسئلہ پہنچا سکوں۔ رباء کو تین طرح کی مدد چاہیے:

(1)۔ مالی مدد … جو سب سے زیادہ ضروری ہے۔

(2)۔او نیگیٹیو (O Negative) خون کی ضرورت۔

(3)۔ شوہر کے لیے کسی قسم کی ملازمت۔ (کسی بھی قسم کی ملازمت اسے منظور ہوگی)۔

رباء گلستان جوہر میں رہتی ہے، چوتھی منزل پر۔ شوہر چار منزل بلڈنگ سے بیوی کو گود میں اٹھا کر نیچے اترتا ہے، ڈائیلاسس کے لیے لے کر جاتا ہے، پھر واپسی میں یہی عمل دہراتا ہے۔

قارئین کرام! ایک بار پھر آپ لوگوں سے درخواست گزار ہوں کہ رباء کی جان بچا لیجیے۔ میں نے جب بھی کسی کی مدد کے لیے کالم لکھا ہے مجھے کبھی مایوسی نہیں ہوئی۔ ہمیشہ اندرون ملک اور بیرون ملک سے مدد آئی ہے۔ خاص کر ہمدرد فاؤنڈیشن کی سعدیہ راشد صاحبہ نے کبھی مایوس نہیں کیا۔ اس بار بھی امید ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔ رباء کا پتہ اور دیگر تفصیلات درج ذیل ہیں:

پتہ: شمائل کمپلیکس فیز 2، بلاک A۔ فلیٹ نمبر 403، گلستان جوہر، نزد موسمیات۔

فون نمبر:0313-5531090/ 0344-2023155

23 سال کی عمر میں رباء جس صورتحال سے دوچار ہے اسے دیکھ کر کئی سوال ذہن میں اٹھتے ہیں کہ اتنی کم عمری میں وہ جس جان لیوا موذی مرض کا شکار ہے تو کیوں ہے؟ اللہ میاں کو رحم کیوں نہیں آتا۔ قارئین! ایسے ہی موقعوں پر انسان اور انسانیت کی پہچان ہوتی ہے۔ انسان تو ہم سب ہی ہیں۔ لیکن انسانیت وہ عظیم جذبہ ہے جو بلا امتیاز مذہب و مسلک دوسروں کی مدد کے لیے ہمیشہ تیار رہتا ہے۔ آپ جو بھی ہیں ہندو، مسلم، عیسائی، پارسی یا کوئی اور، لیکن سب سے پہلے انسان ہیں جو آزاد پیدا ہوتا ہے۔ اسی حقیقت کو یاد رکھ کر اگر رباء کی مدد کی جائے تو بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ آپ شیعہ ہیں، سنی ہیں، دیوبندی ہیں یا بریلوی۔ جو بھی ہیں پہلے صرف انسان ہیں۔ آج میں آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ صرف اسی انسانیت کے جذبے کے تحت رباء اور اس کے خاندان کی مدد کیجیے۔

کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر

خدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر

ایک حکایت پیش خدمت ہے۔

حضرت عبداللہ بن جعفرؒ ایک مرتبہ جنگل میں کہیں جا رہے تھے، راستے میں ایک باغ سے گزر ہوا، وہاں ایک حبشی غلام باغ میں کام کر رہا تھا۔ اتنے میں اس کے لیے کھانا آیا، اس وقت باغ میں ایک کتا بھی موجود تھا جو کہیں سے چلا آیا تھا۔ غلام نے کام کرتے کرتے ایک روٹی کتے کی طرف بڑھا دی، کتے نے روٹی کھا لی لیکن پھر بھی کھڑا رہا، حبشی نے دوسری روٹی بھی اس کے آگے ڈال دی، وہ بھی اس نے کھا لی، پھر بھی وہ کھڑا رہا، حبشی نے تیسری روٹی بھی کتے کے آگے ڈال دی اور خود کام میں مصروف ہوگیا۔

حضرت عبداللہ بن جعفرؒ غور سے دیکھتے رہے، جب تینوں روٹیاں ختم ہوگئیں تو حضرت نے حبشی غلام سے پوچھا کہ تمہاری کتنی روٹیاں روز آتی ہیں؟ اس نے کہا ’’تین روٹیاں‘‘۔ آپ نے فرمایا جب صرف تین روٹیاں ہی آتی ہیں تو تینوں کا ایثار کیوں؟ اب تم کیا بھوکے رہوگے؟ غلام نے جواب دیا۔ ’’حضور یہاں جنگل میں کتے رہتے نہیں ہیں، اسے پہلی بار دیکھا ہے، یقیناً یہ کہیں دور کی مسافت طے کرکے آیا ہے اور بھوکا ہے، اس لیے مجھے اچھا نہ معلوم ہوا کہ اس کو بھوکا رہنے دوں، میرا کیا ہے ایک دن بھوکا رہ لوں گا تو کوئی بڑی بات نہیں۔‘‘

حضرتؒ نے اپنے دل میں سوچا کہ لوگ مجھے بہت بڑا سخی سمجھتے ہیں، لیکن اس غلام کے ایثار کے مقابلے میں تو میری سخاوت کچھ بھی نہیں، یہ سوچ کر شرمندہ ہوئے اور دل میں سوچا کہ اس غلام کی سخاوت کے مقابلے میں عبداللہ تیری سخاوت کی کوئی اہمیت نہیں۔ یہی سوچ کر اس باغ کے مالک کے پاس پہنچے اور بہ اصرار باغ اور غلام کو خرید لیا اور جاکر غلام سے کہا ’’جا میں نے تجھے آزاد کیا اور یہ باغ بھی تجھے بخش دیا۔‘‘

غلام نے انتہائی خودداری سے جواب دیا ’’میں آپ کا بے حد شکرگزار ہوں اور اس شکریے کے اظہار میں یہ باغ میں آپ کو بطور نذرانہ پیش کرتا ہوں، چونکہ اب آپ کے دل میں میری عزت و توقیر اور عقیدت پیدا ہوگئی ہے، جو میرے حق میں زہر قاتل ہے لہٰذا اب میں آپ سے رخصت ہوتا ہوں۔‘‘

یہ کہہ کر وہاں سے چل دیا اور حضرت عبداللہ بن جعفرؒ دیکھتے رہ گئے۔ سفر دو قسم کا ہوتا ہے، دنیا کا اور آخرت کا۔ دونوں کے واسطے توشہ درکار ہے، دنیا کے سفر میں انسان توشہ ساتھ رکھتا ہے، لیکن آخرت کے سفر کے لیے روانگی سے پہلے توشہ بھیج دینا چاہیے۔ آخرت کے توشے میں انسانی ہمدردی اور نیکی ضرور ہونی چاہیے۔ یہی سوچ کر قارئین کرام! رباء کی مدد کیجیے۔ یہ توشہ خاص آخرت میں کام آئے گا۔ خدا ان سے محبت کرتا ہے جو اس کے بندوں سے محبت کرتا ہے اور ان کی مصیبت میں کام آتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔