پانچواں لائف اسٹائل

جاوید چوہدری  اتوار 22 اکتوبر 2017
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

شہاب زبیری آج ٹیلی ویژن کے سربراہ ہیں‘ یہ پاکستان کی مشہور زبیری فیملی سے تعلق رکھتے ہیں‘یہ کتابیں پڑھتے ہیں‘ دنیا کی سیر کرتے ہیں اور افواہیں سن کر خوش ہوتے ہیں‘ یہ میرے اکثر کالموں کی فکری‘ سیاسی اور لفظی رہنمائی کرتے رہتے ہیں‘ یہ اگر ہفتے دو ہفتے بعد ٹیلی فون نہ کریں تو میں پریشان ہو جاتا ہوں اور مجھے محسوس ہوتا ہے زبیری صاحب کی طبیعت خراب ہے یا پھر یہ ملک میں موجود نہیں ہیں اور میرا اندازہ اکثر درست ثابت ہوتا ہے‘ میں ان کے فقروں اور فکری طنز کو ہمیشہ انجوائے کرتا ہوں‘ یہ گہری اور روٹین سے ہٹ کر بات کرتے ہیں اور میں کئی دنوں تک اس بات کا مزہ لیتا رہتا ہوں۔

شہاب زبیری نے پچھلے اتوار مجھے فون کیا اور شکوہ فرمایا ’’آپ نے چار لائف اسٹائل کا ذکر کیا لیکن آپ پانچواں لائف اسٹائل بھول گئے‘‘ میں نے عرض کیا ’’وہ کون سا لائف اسٹائل ہے جناب‘‘ زبیری صاحب نے جواب دیا ’’وہ پاکستانی لائف اسٹائل ہے‘ ادھار پر زندگی گزار دیں‘‘ شہاب صاحب کا کہنا تھا ’’ادھار ہماری قومی عادت ہے‘ ہم صدر اور وزیراعظم سے لے کر عام ریڑھی بان تک ادھار کی عادت بد کا شکار ہیں‘ ہم نے ستر سال ادھار لے لے کر گزار دیے ہیں اور ہم مزید اتنے ہی سال اس لائف اسٹائل کے ذریعے گزارنے کی پلاننگ کر رہے ہیں‘‘۔

مجھے شہاب زبیری صاحب کا تجزیہ درست لگا‘ ہم واقعی ادھار خور قوم ہیں اور یہ ادھار خوری نیچے سے لے کر اوپر تک ہمارے مزاج کا حصہ بن چکی ہے‘ ہم ستر برسوں سے امداد پر چل رہے ہیں یا پھر قرض پر اور ہم نے اپنی اس عادت کو نہ صرف حقیقت تسلیم کر لیاہے بلکہ یہ اب ہماری معیشت بھی بن چکی ہے۔

ہمارے حکمران جہاں جاتے ہیں یہ وہاں اپنا کشکول پھیلا دیتے ہیں‘ یہ لوگ جب بیرونی دوروں سے واپس آتے ہیں تو قوم ان سے پوچھتی ہے آپ فلاں ملک کے دورے پر گئے تھے آپ وہاں سے کیا لائے اور اگر نصیب کا کوئی مارا ہمارے ملک میں آ جائے تو ہم اس کے سامنے بھی جھولی پھیلا دیتے ہیں‘ وہ اگراس میں چند روپے ڈال دے تو اچھا ورنہ ہم حکومت سے پوچھتے ہیں ’’فلاں آیا اور ہمیں کیا دے کر گیا؟‘‘۔

آپ کسی روز پاکستان آنے والے صدور‘ وزراء اعظم اور وزراء کی پریس کانفرنسیں نکال کر دیکھ لیجیے‘ آپ کو پاکستان آنے والا ہر ’’ہیڈ آف اسٹیٹ‘‘ ہماری مدد کرتا نظر آئے گا‘یہ ہمیں کچھ نہ کچھ دے کر ہی واپس گیا ہوگا۔ میں نے گوہر ایوب کی کتاب میں ایک واقعہ پڑھا تھا‘ میاں نواز شریف 1998ء میں چین کے دورے پر گئے‘ گوہر ایوب اس وقت وزیر خارجہ تھے‘ وزارت خارجہ نے بڑی مشکل سے چینی حکومت کو پاکستان کو چندملین ڈالر امداد دینے کے لیے رضا مند کیا تھا۔

میاں نواز شریف نے چینی صدر کے ساتھ اپنی ملاقات کے دوران بس ’’عرض‘‘ کرنی تھی اور چین نے امداد ہماری جھولی میں ڈال دینی تھی‘ گوہر ایوب خان نے میاں نواز شریف کو سمجھانا شروع کر دیا آپ چینی صدر کا ہاتھ پکڑتے ہی امداد کی درخواست کر دیں‘ باقی کام ہماراہو گا لیکن میاں نواز شریف نے چین سے پیسے مانگنے سے صاف انکار کر دیا‘ ان کا کہنا تھا’’میں چین سے بھیک نہیں مانگوں گا‘‘۔

گوہر ایوب نے اپنی کتاب میں بڑے تاسف سے لکھا‘ ہم میاں نواز شریف کی بے وقوفی کی وجہ سے چین سے امداد نہ لے سکے یعنی آپ ہمارا کمال دیکھئے ہمارا کوئی سربراہ اگر کسی ملک سے بھیک نہیں مانگتا تو وہ برا ہو جاتا ہے اور جو اسے کشکول پھیلانے کا درس دے رہا ہو وہ محب وطن‘ ہمارا وزیر خزانہ بھی وزیر خزانہ نہیں ہوتا وزیر بھیک یا چیف بیگر ہوتا ہے‘ ہم ہر اس وزیر خزانہ کو کامیاب گردانتے ہیں جو ہمارے لیے جی بھر کر امداد اور قرضے اکٹھے کر لیتا ہے۔

ہم آج بھی صدر ایوب خان‘ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار کی مثال دیتے ہیں‘ ہم ان ادوار کو ملکی معیشت کے حوالے سے شاندار قرار دیتے ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ ہم نے ان تینوں ادوار میں امریکا کی جنگ لڑ کر امریکا سے اربوں ڈالر اکٹھے کیے تھے‘ یہ اربوں ڈالر ہمارے خزانے میں آئے چنانچہ وہ ادوار ہم بھکاریوں کی زندگی کے شاندار ترین دن تھے‘ ہم شوکت عزیز کے دور کی مثال بھی دیتے ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ وہ بھی دنیا جہاں کے فراڈیوں اور منی لانڈرز کو پاکستان لے آئے تھے‘ وہ آئے‘ پاکستان میں پیسہ پمپ کیا اور رقم دگنی کر کے واپس چلے گئے‘ ہم نے اس دور میں افغانوں کو قتل کر کے بھی ٹھیک ٹھاک سرمایہ سمیٹاتھا۔

ملک میں افغان وار کا ’’کولیشن فنڈ‘‘ بھی آ رہا تھا‘ ہمیں 2005ء کے زلزلے کی امداد بھی مل رہی تھی اور ہم دنیا بھر سے پاکستان میں دہشتگردی کی فصل کی تیاری کے لیے بھی رقم اینٹھ رہے تھے چنانچہ ہم نے اس زمانے میں بھی ٹھیک ٹھاک موجیں ماریں‘ شوکت عزیز اور جنرل پرویز مشرف کی رخصتی کے ساتھ ہی امداد کا وہ سلسلہ بھی رک گیا اور یوں ہم ایک بار پھر غریب ہو گئے‘ میاں نواز شریف کی مہربانی سے اب ’’سی پیک‘‘ کا معاملہ چل رہا ہے‘ ہم اب اس سڑک پر نظریں جما کر بیٹھے ہیں‘ہمیں یقین ہے چین پاکستان کو 50 ارب ڈالر دے گا اور بھکاریوں کے دن دوبارہ پھر جائیں گے۔

یہ ہماری حکومتوں‘ ہمارے حکمرانوں کا چلن ہے‘ ہم عوام بھی ان سے مختلف نہیں ہیں‘ ہم بھکاری بھی ہیں اور ادھاریئے بھی‘ میں اپنے دوستوں کو اکثر کہتا ہوں پاکستان کے لوگوں کو چار ایسی سہولتیں حاصل ہیں جو دنیا میں کسی دوسرے ملک کے لوگوں کو دستیاب نہیں ہیں‘ پہلی سہولت شادی ہے‘ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جس میں ہر شخص کی شادی ہو جاتی ہے‘ آپ کو سڑک کنارے کھڑے بھکاری کے پیچھے بھی ایک بیوی اور دو چار بچے نظر آئیں گے‘ آپ کو ملک میں نشئی اور پاگل بھی بال بچے دار ملیں گے۔

ملک کا ہر بیروزگار روزگار سے پہلے شادی کی نعمت سے لطف اندوز ہوتا ہے‘ ہمارے ملک میں جوں جوں آمدنی کم ہوتی جاتی ہے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور جوں جوں آمدنی بڑھتی جاتی ہے بچے کم ہوتے چلے جاتے ہیں‘ ہمارے ملک میں بوڑھے بھی جوان بلکہ نوجوان بیویوں کے خاوند ہوسکتے ہیں اور آپ کسی بھی وقت داڑھی رکھ کر دوسری تیسری شادی کر سکتے ہیں اور لوگ عقیدت سے آپ کے ہاتھ چومیں گے‘ یہ سہولت دنیا میں کسی دوسرے ملک میں دستیاب نہیں۔

دوسرا ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جس میں آپ پوری عمر تنکا دوہرا کیے بغیر شاندار زندگی گزار سکتے ہیں‘ آپ بس پیدا ہوجائیں اور اس کے بعد بے شک اسکول نہ جائیں‘آپ کوئی کام بھی نہ سیکھیں‘آپ جوان ہوکر ہڈ حرامی کو اپنا مشن بنا لیں‘ دس گیارہ بجے جاگیں‘ نہائیں دھوئیں‘ اپنے بڑے بھائی کا ناشتہ اڑائیں‘ چھوٹے کے کپڑے پہنیں اور باہر نکل جائیں‘رات دیر گئے واپس آئیں‘ ماں اور بہن کو لیٹ دروازہ کھولنے پر گالیاں دیں اور کسی کی چار پائی اور لحاف پر قبضہ کر کے سو جائیں آپ کو کوئی نہیں پوچھے گا۔

کوئی مامی‘ پھوپھی‘ چچی یا خالہ آپ کو رشتہ بھی دے دے گی‘آپ کے بچے بھی ہو جائیں گے اور آپ کا کوئی بھائی یا کزن ان بچوں کو پال بھی لے گا‘ وہ ان کی فیسیں اور دواء دارو بھی کر دے گا اور یہ بچے بھی اپنے کزنوں کے کپڑے پہن کر بڑے ہو جائیں گے‘ یہ نہ ہو سکا تو آپ کی بیوی دوسروں کے برتن مانجھ کر بچے پال لے گی مگر آپ پر کوئی دباؤ نہیں آئے گا‘ یہ سہولت بھی دنیا کے کسی ملک میں دستیاب نہیں‘ تین‘ ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جس میں ہر شخص کو مرنے کے بعد کفن‘ جنازہ اور قبر مل جاتی ہے۔

لوگ چندہ جمع کر کے لوگوں کی تدفین کا بندوبست کر دیتے ہیں جب کہ دوسرے ملکوں میں لاوارث اور غریب مُردوں کو بھٹیوں میں جلا دیا جاتا ہے‘یہ ملک لاشوں کی ہڈیاں الگ کرتے ہیں اور یہ ہڈیاں بعد ازاں پیس کر فروخت کر دی جاتی ہیں‘ ہڈیوں کا یہ پاؤڈر دندان سازی میں استعمال ہوتا ہے‘ یہ سونے سے بھی مہنگا بکتا ہے‘ تدفین کی یہ سہولت بھی صرف پاکستان میں دستیاب ہے اور چار‘ ہم ایسی قوم ہیں جو ادھار کو باقاعدہ کاروبار سمجھتی ہے‘ ہم ہر سال لاکھوں نئے ادھاریئے پیدا کرتے ہیں‘ یہ لوگ ادھار مانگنے کے ایکسپرٹ ہوتے ہیں۔

یہ آپ سے ملیں گے اور یہ چند لمحوں میں اندازہ لگا لیں گے یہ آپ سے کتنے پیسے اینٹھ سکتے ہیں چنانچہ یہ بیوی کو میٹرنٹی ہوم میں چھوڑ کر آئیں گے‘ بچے کی فیس کا چالان لائیں گے‘ بجلی اور گیس کا بل دکھائیں گے‘ آپ کی ڈاکٹر سے بات کرائیں گے یا پھر ایکسیڈنٹ کا واویلا کریں گے اور آپ سے آپ کے مرتبے کے مطابق پیسے کھینچ کر غائب ہو جائیں گے‘ میرا تجربہ ہے جب کوئی شخص آپ کی زیادہ عزت کر رہا ہو۔

وہ آپ کے دائیں بائیں پھر رہا ہو یا پھر وہ ٹیلی فون پر آپ سے یہ کہے ’’مجھے آپ سے کام پڑ گیا ہے یا میں آپ سے مشورہ کرنا چاہتا ہوں‘‘ توآپ جان لیں آپ بس لٹنے کے قریب پہنچ چکے ہیں‘ یہ ادھارئیے پوری زندگی ادھار لے کر گزار دیتے ہیں اور ادھار دینے والوں سے سو گنا بہتر زندگی بھی گزارتے ہیں‘ یہ سہولت بھی دنیا کے کسی دوسرے ملک میں موجود نہیں۔

میں نے شہاب زبیری صاحب سے اتفاق کیا‘ واقعی میں بھول گیا تھا دنیا میں ایک پانچواں لائف اسٹائل بھی موجود ہے اور یہ لائف اسٹائل پاکستانی ہے‘ ہاتھ پھیلائیں اور مزے کریں‘ ادھار لیں اور شاندار زندگی گزاریں‘ اللہ کرم کرے گا‘ مجھے برسوں پہلے پی ٹی وی پر نعیم بخاری صاحب کا ایک پروگرام دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ بخاری صاحب جوانی میں پی ٹی وی پر ٹاک شو کیا کرتے تھے‘ وہ شو کمال ہوتا تھا‘ نعیم بخاری نے اس شو میں ایک بھکاری کو بلا رکھا تھا‘ بھکاری قوم کو مانگنے کے طریقے بتا رہا تھا۔

بخاری صاحب نے اس سے اچانک پوچھا ’’تم جب کسی کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہو تو تمہارے ضمیر پر بوجھ نہیں پڑتا‘‘ بھکاری نے مسکرا کر جواب دیا ’’جناب یہ ہاتھ ہے کوئی ایک من کا پتھر تو نہیں‘ لیں میں آپ کے سامنے ہاتھ پھیلا رہا ہوں‘ آپ خود دیکھ لیں‘ مجھے کتنا بوجھ اٹھانا پڑے گا‘‘ اور اس کے ساتھ ہی بھکاری نے نعیم بخاری کے سامنے ہاتھ پھیلا دیا‘ ناظرین نے تالیاں بجا کر بھکاری کو داد دی‘ ایک بھکاری کو اس کی اس پرفارمنس پر ایک بھکاری قوم ہی اتنی داد دے سکتی تھی‘ میں اس دن دل سے اپنی قوم کی صلاحیتوں کا معترف ہو گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔