پاکستان فٹبال کی معطلی کے بعد فیفا ٹرافی کی آمد پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا

میاں اصغر سلیمی  اتوار 22 اکتوبر 2017
فیفا ورلڈ کپ کی دیگر تقریباً کے علاوہ ایک دلکش روایت اس کی ٹرافی کا دنیا کے چند ممالک میں بھیجا جانا بھی ہے۔ فوٹو: فائل

فیفا ورلڈ کپ کی دیگر تقریباً کے علاوہ ایک دلکش روایت اس کی ٹرافی کا دنیا کے چند ممالک میں بھیجا جانا بھی ہے۔ فوٹو: فائل

آئندہ برس روس میں شیڈول ورلڈکپ کو دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا فٹ بال ایونٹ قرار دیا جا رہا ہے اور کروڑوں شائقین فٹبال بے تابی سے اس کا انتظار کر رہے ہیں۔

ورلڈ کپ کی رنگا رنگی اپنے اندر بڑی جاذبیت رکھتی ہے۔ جس ملک میں ورلڈ کپ کا انعقاد ہوتا ہے اس پر اس کے معاشی، سماجی اور عالمی روابط کے لحاظ سے گہرے اثرا ت مرتب ہوتے ہیں۔ یہ تمام پہلو ہی کسی ریاست اور اس میں بسنے والے لوگوں کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں مگر اپنے حالات کے پیش نظر ہر ملک کی مخصوص ترجیحات ہوا کرتی ہیں جن میں وقت کے ساتھ تبدیلی بھی واقع ہو جایا کرتی ہے۔ گو کہ پاکستان کی ترجیحات میں عالمی روابط کا فروغ اور اپنے بین الاقوامی امیج کو بہتر بنانا شاید معاشیات میں قابل ذکر بہتری جیسا ہی اہم ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ معاشی بہتری بھی بڑی حد تک بہتر بین الاقوامی امیج سے جڑی ہوئی ہے تو غلط نہ ہو گا۔

فیفا ورلڈ کپ کی دیگر تقریباً کے علاوہ ایک دلکش روایت اس کی ٹرافی کا دنیا کے چند ممالک میں بھیجا جانا بھی ہے جس کا بنیادی مقصد کروڑوں شائقین فٹبال کو ورلڈ کپ کی خوشیوں میں شامل کرنا اور دنیا بھر میں اس ایونٹ کو مقبول بنانا ہوتا ہے۔ فیفا ورلڈ کپ 2018ء کی ٹرافی کا سفرگذشتہ ماہ ستمبرکی 9تاریخ سے شروع ہو چکا ہے۔ اس سلسلہ میں روس کے شہر ماسکو میں قائم لزنیکی سٹیڈیم میں ایک رنگا رنگ تقریب منعقد ہوئی جس میں روسی صدر ولادی میر پیوٹن اور فیفا کے صدر جیانی انفنٹینو نے شرکت کی۔

لزنیکی اسٹیڈیم میں 81ہزار تماشائیوں کے بیٹھنے کی گنجائش موجود ہے اور امکان غالب یہی ہے کہ فیفا ورلڈ کپ 2018روس کا فائنل میچ بھی اسی انتہائی خوبصورت اور دلکش سٹیڈیم میں منعقد ہو گا۔ ٹرافی کی رونمائی کے سلسلہ میں مختلف تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے جس سے شائقین فٹ بال میں فیفاورلڈ کپ کی بابت بہت جوش و ولولہ پیدا ہوتا ہے۔

شائقین اپنے پسندیدہ اور دنیائے کھیل کے سب سے بڑے ایونٹ کی ٹرافی کو اپنے درمیان پا کر خود کو اس میگا ایونٹ کا حصہ تصور کرتے ہیں۔ اسی سلسلہ میں کچھ دن قبل جب فیفا نے اپنی ویب سائٹ پر ورلڈ کپ 2018 ء کے لیے ٹرافی ٹور کا اعلان کرتے ہوئے ٹور کے لیے منتخب روٹ کا ایک نقشہ جاری کیا تو اس میں پاکستان بھی شامل تھا۔ ملک میں فٹ بال کے لاکھوں چاہنے والوں میں یہ خوشی کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔

فٹ بال کے ناقدین نے اس خبر کے نشر ہونے پر خوشگوار حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان فٹ بال فیڈریشن کا اپنے ہیڈ کوارٹر اور بنک اکاؤنٹس پر اختیار نہ ہونے سے ملک میں فٹ بال کی تمام سرگرمیاں معطل ہونے کے باوجود پاکستان کو فیفا ورلڈ کپ ٹرافی کے ٹور کیلئے منتخب کیا جانا خاصی اچھنبے کی بات ہے۔

اس سے بھی دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ساؤتھ ایشیا میں پاکستان کے علاوہ بھارت سمیت کسی ملک کو اس ٹور کے لئے نہیں چنا گیا جبکہ بھارت میں اس وقت بھی انڈر 17فٹ بال ورلڈکپ جاری ہے اور کوئی عام فہم آدمی بھی اس بات کا بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ ہندوستان نے مذکورہ ٹرافی ٹور کی ایک منزل کے طور پر منتخب ہونے کے لئے کیا کیا جتن نہ کئے ہوں گے۔

یہاں یہ دلچسپ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بھارت کی عالمی سطح پر مضبوط سیاسی پوزیشن اور فٹ بال کی دنیا میں اہمیت اور پاکستان کی کمزور سیاسی ساکھ اور پاکستان میں فٹبال سرگرمیوں کے رکے ہونے کے باوجود ایسا کیا ہوا کہ بھارت کے بجائے پاکستان کا چناؤ کیا گیا۔ راقم نے جب اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی تو یہ دلچسپ حقیقت سامنے آئی کہ ایسا محض فیصل صالح حیات کی ذاتی کاوشوں اوربین الاقوامی فٹ بال میں بہترین سفارتکاری کی بناء پر ممکن ہواکہ پاکستان کو ان 50ممالک کی فہرست میں شامل کر لیا گیا جہاں پر اس ٹرافی نے اپنے عالمی سفر کے دوران عارضی طور پر ڈیرے ڈالنے تھے۔

ذرائع بتاتے ہیں کہ اس سلسلہ میں فیفا نے ایک خط کے ذریعے پی ایف ایف کو رسمی طور پر بھی آگاہ کر دیا تھا کہ پاکستان میں ورلڈ کپ ٹرافی3 فروری2018  کو لائی جائے گی جس کے بعدپی ایف ایف نے ٹرافی کی آمد اور اس سے منسلک تقریبات کو باوقار طریقے سے ممکن بنانے کیلئے حکمت عملی وضع کرنے کا آغاز کر دیا تھا۔

ابھی پاکستان کے لاکھوں شائقین اس خبر سے پوری طرح محظوظ بھی نہ ہو پائے تھے کہ انتہائی افسوسناک خبر نے فٹ بال کے چاہنے والوں کو دلگرفتہ کر دیاجب 11اکتوبر کو فیفا نے پاکستان کی رکنیت یہ کہتے ہوئے معطل کر دی کہ فیفاکی تسلیم شدہ پاکستان فٹبال فیڈریشن کی باڈی کو گزشتہ اڑھائی سال سے کام نہیں کرنے دیا جا رہا اور پی ایف ایف کے ہیڈ کوارٹرز فیفا فٹ بال ہاؤس لاہورمیں لاہور ہائیکورٹ کے حکم پر تعینات ایک ریٹائرڈ جج ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے بیٹھے ہیں اور پی ایف ایف کے بنک اکاؤنٹس کا کنٹرول بھی پی ایف ایف کے بجائے ایڈمنسٹریٹر کے پاس ہے لہٰذا پاکستان کی فیفا رکنیت معطل کی جارہی ہے۔

ساتھ ہی ساتھ فٹ بال کی عالمی باڈی فیفا کا یہ کہنا ہے کہ پاکستان کی رکنیت تب تک معطل رہے گی جب تک فیفا کی تسلیم شدہ پاکستان فٹ بال فیڈریشن جس کی قیادت بحیثیت صدر فیصل صالح حیات کے پاس ہے، کو اس کے ہیڈ کوارٹرز اور بنک اکاؤنٹس کا قبضہ واپس نہیں کیا جاتا۔

موجودہ صورتحال میں فیفا ورلڈ کپ 2018روس کی ٹرافی کا پاکستان آنا بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔ اس ایونٹ کودنیا بھر کا میڈیا کور کرتا ہے جس سے اقوام عالم میں پاکستان کانرم اور کھیل دوست ملک کے طور پر ایک اچھاامیج بنانے میں بہت مدد مل سکتی ہے، اگر پاکستان کی فیفا رکنیت کی بحالی کیلیے فوری اور موثر اقدامات نہ اٹھائے گئے تو معطل رہنے کی صورت میں پاکستان کو ان ممالک کی فہرست سے خارج کر دیا جائے گا جہاں مذکورہ ٹرافی کو رونما کیا جانا ہے۔ دنیا بھر میںفیفامعطلی سے پاکستان کی ساکھ خراب ہوئی ہے اور اگر ورلڈ کپ ٹرافی کا پاکستان ٹور منسوخ کیا گیا تو وطن عزیز کی مزید بدنامی ہو گی۔

پاکستان میں سیاسی مداخلت کی وجہ سے فٹ بال کا بین الاقوامی کھیل گزشتہ ڈھائی سال سے بندش کا شکار ہے جس سے لاکھوں فٹ بال کھلاڑی بری طرح متاثر ہوئے ہیں جبکہ متعدد ڈیپارٹمنٹ کی فٹ بال ٹیمز بند ہونے سے ہزاروں کھلاڑیوں کے بے روزگار ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔

اس مایوس کن صورتحال میں فیفا ورلڈ کپ ٹرافی کا پاکستان میں لایا جانا ملک میں موجود لاکھوں شائقین فٹ بال کیلئے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوتا۔ فٹ بال کے معروف کوچ سجاد محمود کا کہنا ہے کہ گزشتہ ڈھائی سال کی بندش سے پاکستان کا فٹ بال تباہ ہو چکا ہے، ہماری قومی ٹیمیں بکھر چکی ہیں جس سے نہ صرف کھلاڑی بلکہ فٹ بال کے لاکھوں چاہنے والے شدید کرب کا شکار ہو چکے ہیں۔ ایسی صورتحال میں فیفا ورلڈ کپ ٹرافی کا پاکستان لایا جانا فیصل صالح حیات کی قابل تحسین کاوش ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔