پاکستان کی سری لنکا کے خلاف سیریز میں کامیابی خوش آئند

عباس رضا  اتوار 22 اکتوبر 2017
پاکستان ون ڈے کرکٹ کے جدید دور میں داخل ضرور ہوا ہے لیکن منزل تک پہنچنے کے لیے طویل سفر باقی ہے۔  فوٹو: اے ایف پی

پاکستان ون ڈے کرکٹ کے جدید دور میں داخل ضرور ہوا ہے لیکن منزل تک پہنچنے کے لیے طویل سفر باقی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

چیمپئنز ٹرافی میں ایک نئے روپ میں نظر آنے والی پاکستان ٹیم کا میگا ایونٹ جیتنے کے بعد پہلا امتحان سری لنکا کے خلاف یواے ای میں کھیلی جانے والی ون ڈے سیریز میں تھا، گرچہ آئی لینڈرز مسلسل ناکامیوں کا سفر طے کرتے پہنچے تھے لیکن امارات کی کنڈیشنز دونوں ٹیموں کے لیے یکساں سازگار ہونے کی وجہ سے جاندار مقابلوں کی توقع کی جا رہی تھی۔

مہمان ٹیم نے ٹیسٹ سیریز میں 2-0سے کلین سوئپ کے ساتھ بھی اس احساس کو تقویت دی کہ ایک روزہ میچز میں اعتماد کی واپسی کا سفر شروع ہوگیا، دبئی میں پہلے میچ سے لے کر چوتھی شکست تک بیٹنگ لائن عدم استحکام کا شکار نظر آئی تو بولرز بھی ایک مقابلے کے سوا بہتر کارکردگی نہیں دکھا پائے۔ گرین شرٹس اب شارجہ میںایک اور فتح کے ساتھ کلین سویپ کا مشن مکمل کرنے کے لیے پر عزم ہیں۔ دوسرے میچ میں تھوڑا ڈگمگانے کے بعد تیسرے میں پاکستان کی بیٹنگ فارم لوٹ آئی۔

چیمپئنز ٹرافی میں ناکام ہونے کے بعد بنچ پر بٹھادیئے جانے والے احمد شہزاد اس بار بھی اپنی صلاحتیوں سے انصاف نہیں کرپائے اور ایک بار پھر ساتھی کھلاڑیوں کو پانی پلانے کی ڈیوٹی پر لگا دیئے گئے۔ اوپنر کا خلا پر کرنے کے لیے لائے جانے والے امام الحق نے ڈیبیو پر ہی سنچری بناکر روشن مستقبل کی نوید سنائی۔ چیف سلیکٹرانضمام الحق کا بھتیجا ہونے کی وجہ سے اٹھنے والے اعتراضات کے بعد سخت دباؤ میں بڑی اننگز کھیل کر انہوں نے داد تو سمیٹی لیکن شارجہ میں توقعات کا بوجھ اٹھانے میں ناکام رہے۔

ڈیبیو پر سنچری کے باوجود مبصرین ان کی تکنیک میں خامیوں کی نشاندہی کررہے ہیں۔ابھی آغاز ہے کیریئر کی لمبی اننگز کھیلنے کے لیے انہیں صلاحیتیں نکھارنے کا سلسلہ جاری رکھنا ہوگا۔ ورلڈالیون کے خلاف ہوم سیریز کے بعد یو اے ای میں بھی ففٹی نہ کر پانے والے فخرزمان کا یہاں سب سے بڑا سکور (43)دبئی میں سری لنکا کے خلاف پہلے ون ڈے میچ میں تھا۔ چیمپئنز ٹرافی کے ہیرو ہونے کا اعزاز کوئی نہیں چھین سکتا لیکن آئندہ کیریئر کے دوران کارکردگی میں تسلسل برقرار رکھنے کے لیے انہیں بھی اپنے غیر ضروری سٹروکس چیک کرنا ہوں گے۔

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ توقعات کا بوجھ اٹھانے کے لیے فخرزمان اپنا نیچرل کھیل چھوڑ دیتے ہیں جس کا انہیں وکٹ کی صورت میں نقصان اٹھانا پڑتا ہے، ٹیسٹ سیریز میں ناکامی کے بعد خدشہ تھا کہ ون ڈے کرکٹ میں بھی بابر اعظم کا بیٹ نہیں چل پائے گا لیکن انہوں نے محدود اوورز کے میچز میں اپنا انداز نہیں بدلا جس کی بدولت دفاع اور جارحیت کے امتزاج سے ٹیم کی بیٹنگ میں ریڑھ کی ہڈی کا کردرا ادا کرتے رہے۔ ایک اننگز کے سوا ان کی کارکردگی میں تسلسل نظر آیا۔ اس کا ثبوت 2 سنچریز کے بعد چوتھے ون ڈے میں ناقابل شکست ففٹی ہے،بڑا کرکٹر وہی بنتا ہے جو مشکل وقت میں بھی ٹیم کے لیے پرفارم کرنے کا حوصلہ اور صلاحیت رکھتا ہو۔

بابراعظم کے کھیل میں دونوں چیزیں نظر آتی ہیں۔ شعیب ملک کا تجربہ بھی ٹیم کے کام آرہا ہے۔آل راؤنڈر فٹنس کے حوالے سے بھی جونیئرز کے لیے ایک مثال ہیں۔ محمدحفیظ نے ایک دو اچھی اننگز کھیلی ہیں۔ کفایتی بولنگ کی وجہ سے ان کی ٹیم میں جگہ بن جاتی ہے لیکن ایکشن شکوک کی زد میں آنے کی وجہ سے ایک بار پھر مشکل میں ہیں۔ آئی سی سی کی نامزد کردہ لیب میں ہونے والے بائیومکینک ٹیسٹ بازو کا خم 15ڈگری سے متجاوز پایا گیا تو کیریئر میں تیسری بار پابندی کا شکار ہو جائیں گے۔

اس دیرینہ مسئلے کا کوئی حل نکلتا نظر نہیں آتا، آئی سی سی کا بے رحمانہ قانون کئی بولرز کے کیریئر کھا چکا ہے۔ سعید اجمل آج تک شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ تمام بولرز کے ایکشن کی جانچ کا پیمانہ یکساں نہیں، پی سی بی میں اتنی ہمت نہیں کہ عالمی پلیٹ فارم پر قوانین کو چیلنج کرسکے۔ فی الحال اس کا ایک علاج یہی ہے کہ کسی بھی سپنر کو آگے لانے سے قبل اپنے طور پر ایکشن کا جائزہ لے لیا جائے، ڈومیسٹک کرکٹ میں کئی آل راؤنڈرز محمد حفیظ کی جگہ لینے کے لیے تیار بیٹھے ہیں،ان کو موقع دیا جانا چاہیے۔

ٹیسٹ سیریز میں انجرڈ ہونے والے محمدعامر نے ایشیا کپ کے بعد چیمپئنز ٹرافی فائنل میں شاندار ماضی کی جھلک دکھلائی۔ان کی کارکردگی میں تسلسل کا فقدان نظر آتا ہے،اس کی ایک وجہ فٹنس نظر آتی ہے، کبھی کبھار ایسا محسوس ہوتا کہ وہ کھیل سے لطف اندوز ہونے کے بجائے دباؤ محسوس کررہے ہیں۔ چند ماہ قبل پیسر کی طرف سے ٹیسٹ کرکٹ چھوڑ دینے کا عندیہ بھی سامنے آیا تھا لیکن انہوں نے تردید کر دی۔

ہوسکتا ہے کہ کیریئر طویل کرنے کے لیے انہیں ایسا کوئی فیصلہ کرنا ہی پڑجائے۔ پاکستان اپنی ہوم ٹیسٹ سیریز یواے ای کے سخت گرم موسم میں ہی کھیلنے پر مجبور ہے۔ محمدعامر کو یہاں مہم جوئی مہنگی بھی پڑ سکتی ہے۔ بظاہر سپر فٹ نظر آنے والے حسن علی بھی ٹیسٹ سیریز میں کمر کی تکلیف کا شکار ہوئے جس کی وجہ سے بولنگ کمبی نیشن بھی خراب ہوا لیکن ون ڈے سیریز میں انہوں نے چیمپئنز ٹرافی کی عمدہ فارم برقرار رکھتے ہوئے آئی لینڈرز کی ناک میں دم کئے رکھا۔

کارکردگی میں تسلسل کی بدولت ہی پیسر وکٹوں کی تیز ترین ففٹی مکمل کرنے میں وقار یونس کو پیچھے چھوڑ گئے ہیں، انجریز سے نجات کے بعد کم بیک کرنے والے جنید خان بھی ردھم حاصل کرتے جارہے ہیں۔ رومان رئیس کی پلیئنگ الیون میں جگہ کسی بولر کے ان فٹ ہونے پر ہی بنتی ہے۔ وزن میں کمی اور فٹنس میں بہتری لانے کے بعد ان کی بولنگ میں نکھار آیا ہے، جب بھی موقع ملے، تاثر چھوڑنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

عثمان شنواری نے ڈیبیو میچ میں ان فارم سری لنکن بیٹسمین کو حیران کن گیند پر بولڈ کرکے ثابت کیا کہ ان کی بولنگ میں کافی بہتری آئی ہے، شاداب خان کنڈیشنز کا بہتر استعمال کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ خداداد صلاحیتوں سے مالا مال لیگ سپنر کم عمری کے باوجود کرکٹ کی اچھی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں، مشکل وقت میں ففٹی سکور کرکے انہوں نے بیٹنگ میں بھی اپنا لوہا منوالیا ہے۔

نوجوان کرکٹرز کا چیلنجز قبول کرتے ہوئے پرفارم کرنا پاکستان کرکٹ کے لیے بڑا خوش آئند ہے، تاہم بہتری کی جانب سفر جاری رکھنا ضروری ہے، سری لنکا کے خلاف سیریز میں کامیابی کی بدولت قومی ٹیم اور کرکٹرز کی رینکنگ میں بھی نمایاں بہتری آئی ہے۔ گرین شرٹس ساتویں سے چھٹی پوزیشن پر آگئے،حسن علی 6 درجے ترقی پاتے ہوئے بولرز میں سرفہرست آگئے۔ بیٹنگ میں بابر اعظم دودرجے چھلانگ کے ساتھ چوتھے نمبر پر براجمان ہوئے۔

محمد حفیظ نے بھی آل راؤنڈرز میں پہلی پوزیشن پر آگئے لیکن ٹاپ ٹیموں میں جگہ بنانے کے لیے انگلینڈ، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ میں جاکر بھی ایسی ہی کارکردگی دہرانے کی ضرورت ہے، پاکستان ون ڈے کرکٹ کے جدید دور میں داخل ضرور ہوا ہے لیکن منزل تک پہنچنے کے لیے طویل سفر باقی ہے۔ بولرز درست سمت میں گامزن ہیں لیکن بیٹسمینوں کو سپورٹنگ پچز پر 300 سے زائد رنز بنانے کا ہنر سیکھنے کے لیے بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔