- غزہ کی اجتماعی قبروں میں فلسطینیوں کو زندہ دفن کرنے کا انکشاف
- اسمگلنگ کا قلع قمع کرکے خطے کو امن کا گہوارہ بنائیں گے ، شہباز شریف
- پاکستان میں دراندازی کیلیے طالبان نے مکمل مدد فراہم کی، گرفتار افغان دہشتگرد کا انکشاف
- سعودی دارالحکومت ریاض میں پہلا شراب خانہ کھول دیا گیا
- موٹر وے پولیس اہل کار کو ٹکر مارنے والی خاتون جوڈیشل ریمانڈ پر جیل روانہ
- کراچی میں رینجرز ہیڈ کوارٹرز سمیت تمام عمارتوں کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم
- اوگرا کی تیل کی قیمتیں ڈی ریگولیٹ کرنے کی تردید
- منہدم نسلہ ٹاور کے پلاٹ کو نیلام کر کے متاثرہ رہائشیوں کو پیسے دینے کا حکم
- مہنگائی کے باعث لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں، پشاور ہائیکورٹ
- کیا عماد، عامر اور فخر کو آج موقع ملے گا؟
- سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ
- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
- امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی وزیراعظم کی چیخیں نکل گئیں
- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
- قصور ویڈیو اسکینڈل میں سزا پانے والے 2 ملزمان بری کردیے گئے
- سپریم کورٹ نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کو بحال کر دیا
- مرغی کی قیمت میں کمی کیلیے اقدامات کر رہے ہیں، وزیر خوراک پنجاب
- عوام کو کچھ نہیں مل رہا، سارا پیسہ سرکاری تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
- وزیراعلیٰ بننے کیلئے خود کو ثابت کرنا پڑا، آگ کے دریا سے گزر کر پہنچی ہوں، مریم نواز
دیوالیہ آپشن نہیں
گزشتہ برسوں میں، مستحکم مارکیٹ اور طویل مدت سے فعال بینکاری نظام رکھنے والی، کئی ترقی یافتہ ترین معیشتوں نے بینکاری نظام کے بحرانوں اور بینک دیوالیہ (Banking Failure) ہونے جیسے چیلنجز کا سامنا کیا ہے۔ مرکزی بینک کا کردار صرف اس لیے اہم نہیں کہ وہ بینکوں کو دیوالیہ ہونے سے روکنے کے لیے پیشگی اقدامات کرتا ہے بلکہ اس صورت حال کے اسباب کا حل فراہم کرنے میں بھی اسے بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ بڑی سطح پر بینکوں کے دیوالیہ ہونے سے کساد بازاری وبائی انداز میں پھیلتی ہے اور یہ صورت حال کسی بڑے مالیاتی بحران کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔
ڈپوزیٹرز کے مفادات کا تحفظ بینک کے دیوالیہ ہونے کے اثرات کا دائرہ محدود کرنے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے تاکہ پورا نظام ہی ڈھے نہ پڑے۔ مالیاتی اداروں کا بحران ملکی معیشت کے لیے ہولناک نتائج کا سبب بن سکتا ہے۔ پاکستان گزشتہ چار دہائیوں سے حالت جنگ میں ہے، جس کی وجہ سے معیشت پر پڑنے والا دباؤ مزید بڑھ جاتا ہے، اس کے باوجود بینکاری کا شعبہ اس دباؤ کو برداشت کرنے میں کیسے کام یاب رہا؟
اسٹیٹ بینک پاکستان کی اہلیت اور کارکردگی کا اعتراف کم کم ہی کیا جاتا ہے۔ اسٹیٹ بینک پاکستان ایکٹ 1956ء اور بینکنگ کمپنی آرڈیننس 1962ء کے تحت یہ ادارہ احسن طریقے سے اپنی یہ ذمے داریاں نبھا رہا ہے (الف) ڈپوزیٹرز کے مفادات کا تحفظ(ب) مالیاتی اور قرضوں کے نظام کے ضابطوں کے تحت لانا(ج) باقاعدہ نظام کے تحت بینکنگ کمپنیوں کی کارکردگی کی نگرانی(د) ان کی مطلوبہ انتظامی صلاحیت کو یقینی بنانا۔ اسٹیٹ بینک قانون کے مطابق اپنی یہ ذمے داریں پوری کررہا ہے(الف) کمرشل بینکوں کو لائسنس کی فراہمی(ب) مطلوبہ سرمائے کا تعین(ج) اسپانسر شیئر ہولڈرز کے استحکام اور ملکیت سے متعلقہ امور کا جائزہ (د)بورڈ اور مینجمنٹ میں تقرری/ برطرفی/سپر سیڈ کرنا/معطلی(ہ) بینکوں کے مسائل کا حل کرنا(و) بینکوں کو قرض یا مالیاتی تعاون فراہم کرنا اور (ح) آخری حل کے لیے قرضوں کی فراہمی(ایس بی پی ایکٹ 1956ء)۔
مفادِ عامہ کا تحفظ کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک نے اسپانسرز کی واضح کوتاہیوں اور بدترین بدانتظامی کے باوجود کسی بینک کو دیوالیہ نہیں ہونے دیا۔ دیوالیہ ہونے سے روکنے کے لیے اسٹیٹ بینک یہ دو اقدامات کرنے کا اختیار رکھتا ہے: (1) بینک کی لائسنس کی تنسیخ کے ذریعے حساب بے باق کرنا (2)کسی دوسرے مالیاتی ادارے میں انضمام یا (3) ادارے کی بحالی کے لیے مداخلت۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق،ایک کالعدم نجی بینک میں متواتر خسارے نے بینک ایکوٹی کو غیر معمولی طور پر متاثر کیا،اور یہ قواعد میں متعین کم از کم مطلوبہ سرمائے(ایم سی آر) اور کیپیٹل ایڈیکیویسی کی شرح سے بھی کم ہوگئی۔ پیڈ اپ کیپیٹل 30ستمبر 2014ء تک (خسارے کے بغیر) اعشاریہ 958ارب اور سی اے آر 4.63فی صد تھا جو کہ بالترتیب مطلوبہ دس ارب روپے اور دس فیصد سے کم تھا۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے بارہا تنبیہ کے باوجود اسپانسرز بینک کے لیے مزید سرمایے کا انتظام یا تنظیم نو/انضمام کی صورت کوئی حل پیش نہیں کرسکے۔ ڈپوزیٹرز کے اربوں روپے اور تمام مالیاتی نظام کو خدشات لاحق ہوگئے، بعدازاں وفاقی حکومت نے اسٹیٹ بینک کو بی سی او 1962ء کی شق 47کے تحت مذکورہ بینک کو چھ ماہ کی مہلت دینے کی توثیق کی، اس کے ساتھ ہی اسٹیٹ بینک کے لیے قانون کے مطابق نئے انتظامی ڈھانچے یا انضمام کی اسکیم تیار کرنے کی ہدایات بھی جاری کی گئیں۔ کھاتے داروں کو دی گئی مہلت کے دوران تین لاکھ فی اکاؤنٹ تک نکالنے کی اجازت بھی دے دی گئی۔
غیر مستحکم بینک کے لیے، موریٹوریم آرڈر کے بعد، تنظیم نو یا انضمام کی اسکیم ناگزیر ہوچکی تھی۔وفاقی حکومت نے اس بینک کی دوسرے بینک کے ساتھ فوری انضمام کی توثیق کر دی۔ انضمام کے نتیجے میں اثاثوں اورواجبات کے مابین پائی جانے والی خلیج کو مؤثر انداز میں پاٹنا انتہائی ضروری تھا۔ اسٹیٹ بینک ڈپوزیٹرز کے مفادات کا تحفظ کرنے کی تاریخ رکھتا ہے، اس کی کئی مثالیں ماضی میں بھی موجود ہیں جس کے لیے متعدد بینکوں کو سہولتیں فراہم کی گئیں۔ ایسا پہلا موقع نہیں تھا۔ اسٹیٹ بینک پہلے بھی بہترین کام کر چکا ہے۔
کچھ بینکوں کا زوال خارج از امکان قرار دیا جاتا تھا، ایسے ہی اداروں کو بین الاقوامی ریگولیٹرز نے مدد فراہم کرکے نہ صرف انھیں بچایا بلکہ دراصل پورے مالیاتی شعبے کو تحفظ فراہم کیا۔ اس کے لیے دو مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جب 2008ء میں امریکا نے اپنے 13مالیاتی اداروں کے لیے 700ارب ڈالر اور اسی برس برطانیہ نے 400یورو کا امدادی منصوبہ فراہم کیا۔
کوئی بھی مرکزی بینک اسی وقت مؤثر ثابت ہوسکتا ہے جب وہ اپنے اختیارات کو پوری اہلیت، دیانت اور ذمے داری کے ساتھ ادا کرے۔ پاکستانی معیشت پر کئی دور ایسے گزرے ہیں جب بیک وقت معیشت کو کئی چیلنجز کا سامنا رہا۔ اس معاملے میں پاکستان خوش قسمت ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں ایسی غیر معمولی افرادی قوت موجود ہے جس نے ملک کے مالیاتی اداروں کو چٹان کی طرح مضبوط کردیا ہے۔ دھمکیوں، خوف، مداخلت حتی کہ بلیک میلنگ کی پروا کیے بغیر مستعدی سے اپنے فرائض انجام دینے والے، اسٹیٹ بینک کے یہ ہیروز، اس قابل ہیں کہ انھیں بہادری کے تمغوں سے نوازا جائے۔
(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔