خونیں انقلاب

ظہیر اختر بیدری  پير 23 اکتوبر 2017
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

ہماری سیاست میں جھوٹ بولنا، جھوٹے وعدے کرنا، عوام کو جھوٹی تسلیاں دینا ایک فیشن بن گیا ہے لیکن ان ’’خوبیوں‘‘ کی بھی ایک حد ہوتی ہے، ہمارے سیاستدان ان حدوں کو صبح و شام پار کرتے نظر آتے ہیں۔ اس حوالے سے جھوٹ بولنا اگرچہ ہمارے سیاستدانوں کی روزمرہ کی پریکٹس ہے، لیکن اس کے باوجود اہل سیاست اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ جھوٹ اتنا بولا جائے جتنا عوام ہضم کرسکیں۔

لیکن بعض اوقات جھوٹ کے بارڈر کو اسی طرح کراس کیا جاتا ہے جس طرح پاکستان اور افغانستان کے بارڈر کو عوام بے دھڑک کراس کرتے ہیں اس طرح کے بارڈر کراس کرکے سیاستدان غالباً یہ سمجھتے ہیں کہ وہ عوام کو بے وقوف بنانے میں کامیاب ہو رہے ہیں، لیکن یہ ان کی بھول ہوتی ہے، کیونکہ حد سے بڑے جھوٹ بولنے سے جھوٹ بولنے والا عوام کی نظروں سے گر جاتا ہے اور عوام میں اپنا رہا سہا اعتبار بھی کھو دیتا ہے۔

ہمارے پنجاب کے وزیراعلیٰ بہت محنتی ہیں اور بلاشبہ ’’محنت کی کمائی‘‘ کھاتے ہیں، اسی لیے موصوف دیگر وزرائے اعلیٰ کے مقابلے میں زیادہ پاپولر ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ زور بیان اور اپوزیشن کے دباؤ میں وہ اس طرح حد سے گزر جاتے ہیں کہ عوام منہ میں انگلیاں رکھ لیتے ہیں۔ موصوف نے اورنج ٹرین کی بوگیوں اور انجنوں کی تقریب رونمائی کے موقع پر حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ترقیاتی منصوبوں کو روکا گیا تو خونیں انقلاب آجائے گا۔‘‘

ترقیاتی منصوبوں کے لیے اربوں روپے آسمان سے نہیں ٹپکتے، بلکہ یہ اربوں روپے غریب عوام کی محنت اور خون پسینے کی کمائی ہوتی ہے اور یہ حقیقت عام ہے کہ ہر جمہوری ملک میں ترقیاتی فنڈ ہی وہ اہم اور بھاری فنڈ ہوتا ہے جس میں بھاری کرپشن کے امکانات ہوتے ہیں۔ ترقیاتی فنڈ کے استعمال کے لیے ترقیاتی منصوبوں کی ضرورت ہوتی ہے جو ہمارا حکمران طبقہ بڑی محنت اور منصوبہ بندی کے ساتھ تیار کرتا ہے لیکن میڈیا کی تیز رفتاری اور تیز نظری کی وجہ سے ترقیاتی کاموں کا پوسٹ مارٹم ہوجاتا ہے۔

پنجاب میں اورنج میٹرو ٹرین کا منصوبہ سابقہ بس منصوبوں کا حصہ ہے اور بلاشبہ اس قسم کے منصوبوں سے عوام کو ٹرانسپورٹ کی کچھ سہولتیں میسر آجاتی ہیں لیکن ملک میں ایسے کوئی عمومی اور عوام کو انقلابی سہولتیں فراہم کرنے والے منصوبے پاکستان کی 10 سالہ تاریخ میں نہیں بنائے گئے جن کو روکنے سے ملک میں خونیں انقلاب آجائے۔ خونیں انقلاب کسی بھی ملک میں ’’خواص‘‘ نہیں لاتے بلکہ عوام لاتے ہیں اور عوام خونیں انقلاب اس وقت لاتے ہیں جب ان کا خون نچوڑ لیا جاتا ہے۔

عوام کے خون نچوڑنے کا سلسلہ نیا نہیں بلکہ پرانا 70 سالہ سلسلہ ہے اور عوام کا خون پاکستان میں جس بری طرح نچوڑا جا رہا ہے اس کی مثال شاید ہی کسی پسماندہ ملک میں مل سکے۔ اس حقیقت کے تناظر میں اس ملک میں خونیں انقلاب کو بہت پہلے آ جانا چاہیے تھا، لیکن بدقسمتی سے اس ملک میں ایسی قیادت، ایسی طاقتیں موجود نہیں یا انتہائی کمزور اور انتشار کا شکار ہیں جو خونیں انقلاب کی رہنمائی کرسکتی ہیں، لیکن یہ بات بہرحال سمجھ سے بالاتر ہے کہ اربوں روپے کی کرپشن کا ارتکاب کرنے والی کوئی اشرافیائی طاقت کسی ملک میں نہ خونیں انقلاب لاسکتی ہے نہ خونیں انقلاب کی راہ ہموار کرسکتی ہے، کیونکہ خونیں انقلاب کا سب سے بڑا محرک اربوں روپوں کی اشرافیائی کرپشن ہی ہوتا ہے۔

انقلاب لانے والی قوتوں کا ہراول مزدور اور کسان ہوتا ہے اور بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ان دو طبقات کو اس قدر دبا کر رکھا گیا ہے کہ وہ انقلاب کی جنگ لڑنے کے بجائے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہمارے ملک کی سیاست میں ان دو طبقات کی طاقت اور کردار کا کسی سیاسی رہنما یا کسی سیاسی جماعت نے نہ اعتراف کیا، نہ اس طاقت کے استعمال کے لیے راہ ہموار کی۔ بھٹو نے مزدور کسان راج کا نعرہ لگایا لیکن یہ نعرہ وڈیرہ شاہی ہڑپ کرگئی۔

ہمارے ملک میں مزدور طبقے کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے قانونی حق تنظیم سازی یعنی ٹریڈ یونین بنانے کے حق ہی سے محروم ہے اگر کسی مل یا کارخانے میں کوئی مزدور ٹریڈ یونین کا نام لیتا ہے تو اسے کھڑے کھڑے کان پکڑ کر ملازمت سے نکال باہر کیا جاتا ہے۔

پاکستان کی مزدور تحریکوں کی تاریخ میں 1973-1972ء اس لیے ایک خصوصی مقام رکھتے ہیں کہ یہ دور ٹریڈ یونین کے ابھار کا ایسا دور تھا کہ اگر اس ملک میں کوئی انقلابی پارٹی ہوتی تو مزدور طبقے کی اس تحریک اور طاقت کو انقلاب کی راہ ہموار کرنے میں استعمال کرتی لیکن چونکہ ملک میں ایسی کوئی طاقت موجود نہیں تھی لہٰذا حکومت وقت نے اس مضبوط لیکن غیر منظم تحریک کو ریاستی طاقت سے کچل دیا۔

انقلابی طاقت کا دوسرا مضبوط حصہ کسان ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں دیہی علاقوں کی 60 فیصد آبادی ہاریوں اور کسانوں پر مشتمل ہے لیکن اس آبادی کو ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت غلام بلکہ غلام سے بدتر بناکر رکھا گیا ہے۔ پاکستان دنیا کا غالباً واحد ملک ہے جہاں اب تک جاگیردارانہ نظام موجود اور مستحکم ہے اور سیاست اور اقتدار میں وہ صنعتی اشرافیہ کا پارٹنر بنا ہوا ہے۔

یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ ملک کی کوئی سیاسی جماعت زرعی اصلاحات اور جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کی بات ہی نہیں کرتی، کیونکہ سیاسی جماعتوں کی قیادت خود لاکھوں ایکڑ زمین کی مالک ہے۔ اور صنعتی اشرافیہ کے اشتراک سے عوام کی لوٹ مار کا کاروبار کر رہی ہے۔ ہر ملک میں ان طبقات کی قیادت روایتی طور پر بایاں بازو کرتا ہے لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے دلالوں نے بڑی مہارت کے ساتھ بائیں بازو میں ایسا انتشار پیدا کردیا ہے کہ وہ اپنا تاریخی اور طبقاتی کردار ادا کرنے کے بجائے نظریاتی کونسلوں اور اعلیٰ عدالتوں میں زرعی اصلاحات تلاش کرتا پھر رہا ہے۔

دنیا کے انقلابوں کی تاریخ میں انقلاب فرانس وہ خونی انقلاب تھا جس میں زرعی اشرافیہ اور اس کے دلالوں کو بپھرے ہوئے عوام نے گاجر مولی کی طرح کاٹ کر پھینک دیا تھا۔ فرانس میں اشرافیائی کرپشن اپنی انتہا کو پہنچ گئی تھی اور لوٹ مار کا یہ عالم تھا کہ اشرافیہ ججوں کے عہدے کھلے عام اسی طرح بیچ رہی تھی جس طرح آج ہمارے ملک میں تھانے اور نوکریاں بیچی اور خریدی جا رہی ہیں۔

اشرافیائی لوٹ مار کو روکنے والا کوئی نہ تھا۔ عوام ضروریات زندگی سے اسی طرح محروم تھے جس طرح پاکستان کے عوام محروم ہیں۔ اقربا پروری کا وہی عالم تھا جو آج پاکستان میں دیکھا جا رہا ہے۔ وزیر نوکریاں اسی طرح بیچتے تھے جس طرح ہمارے ملک میں بیچی جا رہی ہیں۔ طبقاتی مظالم اسی طرح جاری تھے جس طرح آج ہمارے ملک میں جاری ہیں۔

قانون اور انصاف کا وہی حشر تھا جو آج ہم پاکستان میں دیکھ رہے ہیں، رشوت، چور بازاری ویسی ہی تھی جیسی آج ہم پاکستان میں دیکھ رہے ہیں۔ یہ وہ مظالم تھے جنھوں نے بے بس عوام کو مجبور کیا کہ وہ لٹیروں اور بدعنوان اشرافیائی عناصر کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور عوام اٹھ کھڑے ہوئے اور چاقو چھری لے کر باہر نکلے اور لاکھوں لٹیروں کا اسی طرح قتل عام کیا کہ ان کی لاشیں اٹھانے والا کوئی نہیں رہا۔ اسے دنیا میں تاریخ کا خونی انقلاب مانا جاتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نام نہاد ترقیاتی پروگراموں کو روکنے سے خونی انقلاب آسکتا ہے؟ جب کہ یہ تاثر عام ہے کہ یہی ترقیاتی منصوبے ہیں جن کے اربوں کھربوں کے بجٹ کا بڑا حصہ خورد برد کیا جاتا ہے۔ کیا ان ترقیاتی منصوبوں کو روکنے سے ہماری جمہوری سیاسی جماعتیں اور اس کے اطاعت گزار کارکن خونی انقلاب برپا کریں گے یا وہ مظلوم اور مقہور عوام خونی انقلاب برپا کریں گے جو اپنی بھوک مٹانے کے لیے اپنے بچوں کو بیچ رہے ہیں یا اجتماعی خودکشیاں کر رہے ہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔