ملکی استحکام کے لیے مضبوط معیشت ناگزیر

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 23 اکتوبر 2017
ماہرین اقتصادیات کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہارِخیال۔ فوٹو: ایکسپریس

ماہرین اقتصادیات کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہارِخیال۔ فوٹو: ایکسپریس

ملک اس وقت جہاں سیاسی عدم استحکام اور دیگر مسائل میں گرا ہوا ہے وہیں معاشی عشاریے بھی خطرناک صورتحال کا طبل بجا رہے ہیں۔ حکومت سب اچھا ہے کہ رپورٹ دے رہی ہے جبکہ اس کے برعکس معاشی ماہرین پاکستان کی اقتصادی صورتحال کو غیر تسلی بخش قرار دے رہے ہیں۔ اس ساری صورتحال کا جائزہ لینے اور حقائق جاننے کیلئے ’’ملکی معیشت کی موجودہ صورتحال‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین اقتصادیات اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں نے اپنے اپنے خیالات کاا ظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

 منظور ملک (نائب صدر ایف پی سی سی آئی وریجنل چیئرمین پنجاب)

آرمی چیف ہماری دعوت پر سیمینار میں تشریف لائے جس پر بہت واویلا کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ ہم نے تو اپنے ملک کے آرمی چیف کو مدعو کیا، کسی دشمن ملک کے آرمی چیف کو نہیں لہٰذا اس میں کیا غلط ہے؟ کراچی میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کیلئے فوج کے مثبت کردار کے باعث سکیورٹی اداروں کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتر ہیں۔ یہ ہماری اپنی فوج ہے اور دہشت گردی کے خلاف اس کی قربانیاں قابل تعریف ہیں۔ آرمی چیف کومعیشت کے حوالے سے سیمینار میں عوت دینے کے پیچھے وجہ یہ تھی کہ بیرونی سرمایہ کار سمجھتے ہیں کہ حکومت کے ساتھ ساتھ دیگر ادارے بھی انہیں سرمایہ کاری کرنے کا اندیہ دیں اور بتائیں کہ پاکستان سرمایہ کاری کیلئے محفوظ ملک ہے۔ آرمی چیف نے وہاں سیاست پر بات نہیں کی بلکہ صرف معیشت پر بات کی جو درست ہے۔ اس پر محاذ آرائی کی طرف جانا غلط ہے، پہلے ہی ہمارے ملک میں بحران کی کیفیت ہے۔ افسوس ہے کہ حکومتی پالیسیوں نے بزنس کمیونٹی کیلئے مشکلات پیدا کردی ہیں اور اس کے لیے یہاں کاروبار کرنا انتہائی کٹھن ہے۔ ڈینگی و دیگر ماحولیاتی مسائل کو وجہ بنا کر مینوفیکچرنگ سیکٹر کی تذلیل کی گئی اور اسے تنگ کیا گیا۔ بڑے بزنس مین کے مسائل اپنی جگہ مگر چھوٹے کاروبار کرنے والوں کیلئے بے تحاشہ مشکلات ہیں۔ جہاں گرڈ سٹیشن الگ ہے وہاں تو لوڈ شیڈنگ صفر ہے لیکن چھوٹی صنعتیں جہاں الگ گرڈ سٹیشن نہیں ہے وہاں لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں دیگر مسائل کا بھی سامنا ہے۔ ایف بی آر کے ذریعے بزنس مین کو تنگ کرکے بھگایا جارہا ہے اور ٹیکس کا ایسا نظام قائم کیا گیا ہے جو سرمایہ دار کے لیے  مشکل ہے کیونکہ ایڈوانس ٹیکس لیا جارہا ہے۔ زراعت ہماری ریڑھ کی ہڈی ہے مگر اب وہاں بھی مسائل ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم ملک کو غربت کے ماڈل پر چلانا چاہتے ہیں کیونکہ دنیا کے مقابلے میں ہمارے پاس ایسی کوئی پالیسی نہیں ہے جس سے معیشت کو بہتر کرکے لوگوں کو غربت سے نکالا جاسکے۔ حال ہی میں چین نے اپنا 10 سالہ پلان دیا ہے جو بہترین ہے ۔  اس کے بعد وہ مزید مضبوط معیشت بن جائے گا۔ ہمیں بھی بہتر پالیسی بنا کر صنعتکاری کی طرف جانا چاہیے اور ایک روڈ میپ بنانا چاہیے جس کے ذریعے اہداف حاصل کیے جاسکیں۔ افسوس ہے کہ ہماری نیت ٹھیک ہے اور نہ ہی ترجیحات۔دنیا جدید ٹیکنالوجی کی طرف جارہی ہے جبکہ ہم اس طرف توجہ ہی نہیں دے رہے۔ حالت یہ ہے کہ ہمیں ایکسپورٹ کوالٹی کی اشیاء تیار کرنے کیلئے ٹیکنالوجی درآمد کرنا پڑتی ہے جس کے باعث ہماری ایکسپورٹ کا 100 فیصد ، 60 فیصد درآمد کے بعد حاصل ہوتا ہے جس کے باعث لاگت بھی بڑھ جاتی ہے۔ ہمیں اس چیز کا ادراک کرنا چاہیے کہ صرف ہمارا سرمایہ دار ہی باہر نہیں جارہا بلکہ ہمارے ملک کا ’’برین‘‘ بھی باہر جارہا ہے جو ہمارا نقصان ہے۔ افسوس ہے کہ ہماری نیت ٹھیک نہیں ہے۔ روپے کی قدر میں کمی جرم ہے۔ اس سے مسائل بڑھ جاتے ہیں، سوال یہ ہے کہ جب ہم قرضے واپس نہیں کرسکتے تو پھر اتنے زیادہ قرضے کیوں لیے؟ ہم نے اس سال 17بلین ڈالر واپس کرنے ہیں جبکہ ہمارے پاس 14بلین ڈالر ہیں جو قابل فکر ہے۔ میرے نزدیک یہ صورتحال ابھی اتنی خراب نہیں ہوئی۔ اب بھی اگر تمام سٹیک ہولڈرز سر جوڑ کر بیٹھیں اور ذاتی مفاد سے بالاتر ہوکر ملکی مفاد میں کام کریں تو معیشت بہتر بنائی جاسکتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ صنعتکار کو سہولیات اورسیاحت کو فروغ دے تاکہ بیرونی سرمایہ دار کو متوجہ کیا جاسکے۔

ڈاکٹر قیس اسلم (ماہرا قتصادیات)

ہمارے ملک کی دو معیشتیں ہیں۔ ایک امراء کی ہے جو ترقی کرتی جارہی ہے جبکہ دوسری غرباء کی ہے جو کبھی بہتر ہی نہیں ہوئی۔ یہ 80 فیصد لوگوں کی معیشت ہے جس میں کچھ لوگ خط غربت سے نیچے ہیں جبکہ بعض لوگ اس لکیر سے اوپر ہیں مگر سب غریب ہیں اور اپنے روزمرہ و دیگر اخراجات پورے نہیں کرسکتے۔ جو ٹیکس دے سکتا ہے اور پکڑا جاسکتا ہے، اس پر مزید ٹیکس لگا دیئے جاتے ہیں جبکہ ایک خاص طبقہ جو گرفت میں نہیں آتا وہ ٹیکس ہی نہیں دیتا۔تعلیمی اداروں، سرکاری ہسپتالوں دیگر اداروں میں امراء اور غرباء کے لیے الگ الگ نظام ہے۔ امیر کو سب کچھ میسر ہے جبکہ غریب آدمی کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ جنوبی افریقہ میں سفید اور سیاہ فام کے لیے نظام الگ الگ تھا، ہمارے ہاں رنگ کا امتیاز تو نہیں ہے مگر امیر اور غریب کا فرق موجود ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ امیر اور غریب ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ صرف امراء کی معیشت کی ترقی سے ملکی معیشت بہتر ہوجائے لہٰذا دونوں ایک ساتھ ڈوبیں گے اور موجودہ معاشی صورتحال اس کی عکاس ہے۔ سکیورٹی اور معیشت کا بہت گہرا تعلق ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ جب تک بھارت اور افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتر نہیں ہونگے اور ایران کے ساتھ تجارت نہیں کریں گے تب تک ہمارے سکیورٹی اخراجات بڑھتے رہیں گے ، مشرقی اور مغربی بارڈر پر فوج تعینات کرنی پڑے گی جس کی وجہ سے معیشت پر مزید بوجھ پڑے گا۔ سی پیک منصوبے کے تحت یہاں کام کرنے والے ہر چینی کے لیے دو سکیورٹی اہلکار ہوں گے جس کا اثر ہمارے بجٹ پر پڑے گا۔ ہم نے ملک کو گریژن سٹیٹ بنا دیا ہے۔ اب ہمیں اس کا متبادل طریقہ سوچنا ہوگا۔ ہمیں اپنے ہمسایوں اور تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ ملکر معاشی پالیسی بنانا ہوگی کیونکہ جب معیشت بہتر ہوگی تو لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال خود بخود بہتر ہوجائے گی۔ اگر قلعے کے اندر عوام بھوکے مریں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ہمیں سکیورٹی کے ساتھ ساتھ خوراک، تعلیم، صحت و دیگر سہولیات بھی چاہئیں جن کے بغیر زندگی گزارنا مشکل ہے۔ ہمارے پاس وہ تمام قدرتی وسائل موجود ہیں جو تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک کے پاس ہیں مگر ہم نے ان سے فائدہ نہیں اٹھایا اور درست پالیسیاں نہیں بنائیں جن کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے۔چند روز قبل ورلڈ بینک نے بیان دیا کہ پاکستان نے 30بلین ڈالر واپس کرنے ہیں جس پر وزارت خزانہ نے کہا کہ ہم نے 18بلین ڈالر واپس کرنے ہیں جس کے بعد ورلڈ بینک نے تصیح کی اور کہا کہ پاکستان نے17بلین ڈالر واپس کرنے ہیں۔ اس وقت پاکستان کے پاس 14بلین ڈالر ہیں جبکہ ہم نے 17بلین ڈالر کی قسط دینی ہے جو خسارے کو ظاہر کرتا ہے۔ حالت یہ ہے کہ ہماری ترسیلات زر 19بلین ڈالر سے کم ہوکر 14 بلین ڈالر پر آگئی ہیں۔ ہماری فی کس آمدن 15سوڈالر ہے جبکہ ہر پاکستانی 15سو ڈالر کا ہی مقروض ہے۔گزشتہ چار برسوں میں اوسط گروتھ ریٹ 4.5 فیصد ہے۔ مینوفیکچرنگ سیکٹر کا گروتھ ریٹ5.3 فیصد ہے اور جی ڈی پی میں اس کا حصہ 13.5فیصد ہے جبکہ گزشتہ برس یہ شرح 19فیصد سے زیادہ تھی جو کم ہوئی ہے۔ اس سیکٹر میں مندی کے باعث بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔ زراعت کی گروتھ 3.5فیصد ہے جبکہ جی ڈی پی میںا س کا حصہ 21فیصد سے کم ہوکر 19.5فیصد رہ گیا ہے۔یہ تمام اعداد و شمار اکنامک سروے کے ہیں۔ مینوفیکچرنگ اور زراعت جی ڈی پی کا 33فیصد حصہ ہیں جبکہ باقی کا حصہ سروسز سے ہے جس میں ڈاکٹر، وکلاء و دیگر ملازمین شامل ہیں۔ اب سوال ہے 17بلین ڈالر کا۔ یہ ہم نے اوورسیز پاکستانیوں سے لینا ہے یا پھر اپنی ایکسپورٹ سے۔ ہم جی ایس پی پلس میں بھی نہیں ہیں اور جو خسارہ ہے ہم وہ پورا نہیں کرپارہے۔ حال ہی میں اشیاء پر ٹیکس میں اضافہ کرکے میرے نزدیک حکومت نے آئی ایم ایف سے قرض لینے کی شرط پوری کی ہے، اگر ہم اس سال آئی ایم ایف سے قرض نہیں لیں گے تو ہمیں اگلے برس لینا پڑے گا لیکن اگر قرض نہ لیا اور معیشت کی صورتحال یہی رہی تو 2020ء میں ملک دیوالیہ ہوجائے گا۔ ہم نے قرضوں کیلئے موٹرویے، ایئرپورٹ اور ریڈیو گروی رکھ دیئے، سی پیک منصوبے کیلئے ملنے والی رقم بھی قرض ہے اور ہم مزید قرضوں تلے دبتے جارہے ہیں۔ ہم نے اس حوالے سے کوئی ایسی پالیسی بنائی ہی نہیں کہ اپنے وسائل استعمال کرکے، قرضوں کو کم کریں اور ملکی معیشت کو سنبھالا دیں۔ ہم نے کوئی نیا ڈیم نہیں بنایا، ہم قدرتی وسائل سے زرعی اجناس و تیل دنیا کو برآمد کرسکتے تھے مگر ہم نے ان وسائل سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ ہم نے مینوفیکچرنگ سیکٹر کو بھی بہتر نہیں کیا، ہماری لیبر کے پاس جدید سکلز نہیں ہیں اور جن کے پاس ہیں وہ پاکستان میں نہیں ہیں کیونکہ یہاں ان کے مطابق ٹیکنالوجی نہیں ہیں۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ انڈسٹری ’’انجن آف گروتھ‘‘ ہے لہٰذا ہمیں صنعتکاری کی طرف جانا ہوگا۔ معیشت اور گورننس کو ری سٹرکچر کرنا ہوگا ۔ بحران سے نکلنے کے لیے لانگ ٹرم پالیسی بنانا ہوگی، لوگوں کو سکل بیسڈ ایجوکیشن دینا ہوگی اور اپنا گھر سیدھا کرنا ہوگا۔ میرے نزدیک اگر ان چیزوں پر نیک نیتی سے کام ہوجائے تو معیشت مستحکم ہوجائے گی۔

سلمان عابد (تجزیہ نگار)

معیشت آئسولیشن میںنہیں چل سکتی بلکہ اس کا تعلق بہت سارے عوامل سے ہے جن میں سیاسی استحکام بھی شامل ہے۔ ملکی معیشت اور سکیورٹی ایک دوسرے سے جڑے ہیں۔ جہاں سکیورٹی اور سیاسی صورتحال بہتر ہوں وہاںمعیشت بھی مستحکم ہوتی ہے بصورت دیگر بحران پیدا ہوجاتے ہیں۔ آرمی چیف کا معیشت کے حوالے سے بیان درست ہے۔ انہیں بزنس کمیونٹی کی جانب سے ایک ایسے سیمینار میں بلایا گیا جومعیشت اور ملکی سکیورٹی کے حوالے سے تھا جہاں انہوں نے معیشت کی بہتری کی بات کی جو درست ہے۔ افسوس ہے کہ ہمارے ملک میں اداروں اور جماعتوں کے درمیان مقابلہ بازی کا رجحان اورٹکراؤ کی کیفیت ہے۔ حکومت اپنی ناکامیوں کا ملبہ اداروں اور اپوزیشن پر ڈال کر بری الذمہ ہونا چاہتی ہے جبکہ اپوزیشن حکومت کی ناکامیوں پر سیاست کرنا چاہتی ہے اور کوئی بھی مل بیٹھ کر کام کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اگر اداروں، حکومت اور اپوزیشن کے درمیان یہی صورتحال رہی تو مسائل میں مزید اضافہ ہوگا۔ضروت یہ ہے کہ سب ملکی مفاد میں اکٹھے ہوکر کام کریں۔ حکومت اشرافیہ کی معیشت کو ٹھیک کرکے سمجھتی ہے کہ معیشت ٹھیک ہوگئی جبکہ عام آدمی کے مسائل پر بات ہی نہیں کی جاتی۔غربت، بے روزگاری، تعلیم، صحت و دیگر بنیادی حقوق کی طرف توجہ نہیں ہے جبکہ ٹیکسوں کا بوجھ بھی غریب آدمی پر ڈال دیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں ٹیکس کا درست نظام نہیں ہے۔ ملک ڈائریکٹ ٹیکس سے چلتا ہے جسے نظر انداز کیا گیا ہے اور بے تحاشہ ٹیکس لگانے کے باوجود معاملات بہتر نہیں ہورہے۔ میرے نزدیک سماجی معاہدہ فیل ہوچکا ہے اور لوگوں کو ان کی بنیادی سہولیات نہیں مل رہیںجس کے باعث وہ ٹیکس نہیں دیتے۔ افسوس ہے موجودہ ماڈل ڈیلور نہیں کر رہا۔ حکومت نے ’’چارٹر آف اکانومی‘‘ کی بات کی مگر یہ چارٹر انہوں نے ہی بنانا ہے جس کے لیے کوئی کوشش نہیں کی گئی اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی خود کو احتساب کیلئے پیش نہیں کرنا چاہتا۔ میرے نزدیک قرض لینا جرم نہیں ہے مگر اس کا درست استعمال اور شفافیت اہم ہے۔ قرضے لینے کے باوجود ملک کی صورتحال بہتر اور معیشت مستحکم نہیں ہوئی، ہم دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں لہٰذا ایسی صورتحال میں قرض لینے پر اب تک کی تمام حکومتوں کا احتساب ہونا چاہیے کہ وہ پیسہ کہاں استعمال ہوا۔میرے نزدیک اس وقت ملک میں مافیا پر مبنی معیشت ہے اورسب ایک دوسرے کو تحفظ فراہم کررہے ہیں لہٰذا احتساب کا عمل یقینی بنانا ہوگا۔پاکستان کے سیاستدانوں کو سمجھنا چاہیے کہ ملکی معیشت مذاق نہیں ہے۔ ہمیں ملک کو سیاسی اور معاشی طور پر ساتھ لیکر چلنا ہوگا لیکن اگر محاذ آرائی چلتی رہی تو معاملات مزید خراب ہوجائیں گے۔ اگر اسی طرح سیاست ہوتی رہی، حکومت اور اپوزیشن یہی کردار ادا کرتے رہے تو پھر انہیں سمجھ لینا چاہیے کہ حکومت جس بھی جماعت کی آجائے صورتحال یہی رہے گی لہٰذا سب کو اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر ملکی مفاد میں کام کرنا ہوگا۔حکمران طبقہ اپنے ملک میں سرمایہ کاری نہیں کررہا جبکہ بیرون ملک موجود سرمایہ داروں کو یہاں سرمایہ کاری کی پیش کش کی جارہی ہے جو حیران کن ہے۔ وہ سرمایہ دار بھی ہمارے حکمرانوں پر تنقید کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ پاکستان سرمایہ کاری کیلئے شاید محفوظ ملک نہیں ہے۔ اداروں کے درمیان ٹکراؤ، بیڈ گورننس، ضرورت سے زائد قرضوں اور غلط ترجیحات کی وجہ سے ہمیں معیشت کے مسائل کا سامنا ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے فوج نے تو اپنا کام کردیا اب ہمیں ان مسائل کو حل کرنا ہوگا۔وزیر خزانہ سب اچھا ہے کہ رپورٹ دے رہے ہیںمگر ان کے اعداد و شمار بوگس ہیں۔ حقیقت میں ہمیں معاشی بحران کا سامنا ہے، اس پر قابو پانے کیلئے ہمیں اپنی ترجیحات درست کرنا ہوںگی۔ ہمارے پاس شارٹ ٹرم پالیسی ہے اور وہ بھی ردعمل کی صورت میں بنائی جاتی ہے، حکومت کو معلوم ہی نہیں ہے کہ آئندہ پانچ برسوں میں ملک کو کس طرح ان مسائل سے نکالنا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔