حرام سکون اور حلال سکون

میاں عمران احمد  منگل 24 اکتوبر 2017
اگر کوئی شخص حرام اور ناجائز کام کرکے بھی چین کی نیند سو رہا ہے تو آپ سمجھ لیجیے کہ اللہ نے اس کے دل پر مہر لگادی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اگر کوئی شخص حرام اور ناجائز کام کرکے بھی چین کی نیند سو رہا ہے تو آپ سمجھ لیجیے کہ اللہ نے اس کے دل پر مہر لگادی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کمرے میں عجیب قسم کی میٹھی میٹھی خنکی تھی، جس میں روح کو چھو جانے والا احساس اور دماغ کو معطر کردینے والی ٹھنڈک بھری ہوئی تھی۔ سکون ہی سکون، اطمینان ہی اطمینان۔ میں جسٹس صاحب کے قدموں میں بیٹھ گیا۔

مزید لکھنے سے پہلے میں آپ کو جسٹس صاحب کے متعلق بتاتا چلوں کہ جسٹس صاحب ہائیکورٹ سے ریٹائرڈ ہوچکے ہیں۔ ساری زندگی کبھی رشوت نہیں لی۔ اس کا ثبوت ان کا کرائے کا تین مرلے کا مکان ہے جہاں وہ ریٹا ئرمنٹ کے بعد رہائش پذیر ہیں۔ گھر میں اے سی فریج نہیں۔ ایک بکری، دو مرغیاں اور کتابوں کی لائبریری کل جائیداد ہیں۔ جسٹس صاحب بیک وقت تصوف، علمائے دین اور لبرلزم کا چلتا پھرتا مرکب ہیں۔ میری ان سے ملاقات پانچ سال قبل ہوئی تھی اور پہلی ہی ملاقات میں انہوں نے مجھے انسپائر کردیا تھا۔ اس ملاقات کا ذکر میں کسی اور تحریر میں کروں گا۔ فی الحال میں اپنی حالیہ ملاقات کی طرف واپس آتا ہوں۔

وہ مسکرائے، آگے بڑھ کر میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور پوچھا کہ خیریت سے آج آنا ہوا؟ میں نے عرض کیا کہ آج آپ کی خدمت میں دعا کےلیے حاضر ہوا ہوں۔ میں دماغ کی نسوں سے لے کر پاؤں کے ناخنوں تک اضطراب میں ڈوب گیا ہوں۔ آپ دعا کیجیے کہ اللہ مجھے سکون عطا کردے۔ جسٹس صاحب نے بائیں ہاتھ سے تسبیح کا دانہ گرایا۔ دائیں ہاتھ سے چائے کا ایک گھونٹ پیا اور دائیں ٹانگ کو بائیں ٹانگ پر رکھتے ہوئے مجھے مخاطب کیا: حرام سکون یا حلال سکون؟

یہ اصطلاح میرے لیے بالکل نئی تھی۔ میرے دماغ کی ساری کھڑکیاں کھلی تھیں لیکن میں ان کی بات سمجھ نہیں پایا۔ میں ہونق بنا انہیں دیکھتا رہا۔ پھر ہمت کرکے میں نے عرض کیا کہ میں آپ کی بات سمجھ نہیں پایا۔ وہ کچھ دیر خاموش رہے، پھر میری طرف دیکھ کر گویا ہوئے:

’’آپ زندگی میں جتنی بھی محنت کرتے ہیں، جتنا بھی پیسہ کماتے ہیں، جتنی بھی کرپشن کرتے ہیں، جتنا بھی جھوٹ بولتے ہیں، جتنی بھی شراب پیتے ہیں، جتنا بھی زنا کرتے ہیں، جتنا بھی حرام کماتے ہیں، کسی بیوہ کا حق کھاتے ہیں، کسی یتیم کی زمین پر قبضہ کرتے ہیں، کسی لاوارث کے سر سے چھت چھینتے ہیں، امانت میں خیانت کرتے ہیں، دودھ میں ملاوٹ کرتے ہیں، نشہ کرتے ہیں،وزن کم تولتے ہیں، آپ دونوں ہاتھوں اور پیروں سے ملک کو لوٹتے ہیں، آپ پوری دنیا میں اپنی جائیدادیں بناتے ہیں، آپ ستر سال کی زندگی کےلیے ہزاروں سال نہ ٹوٹنے والے محل بناتے ہیں، آپ زمین پر جنت اور دوزخ تک بنا دیتے ہیں۔

’’آپ نماز پڑھتے ہیں، قرآن کی تلاوت کرتے ہیں، ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرتے ہیں، رات کو سونے سے پہلے کتاب پڑھتے ہیں، سارے دن کی تھکان اتارنے کےلیے چائے پی لیتے ہیں، سونے سے پہلے آیت الکرسی پڑھ لیتے ہیں، ماں کی گود میں جا کر سر رکھ لیتے ہیں، بلاوجہ گنگنانے لگتے ہیں، بیوی کو گھمانے ورلڈ ٹور پر لے جاتے ہیں، بچے کی پیدائش پر پورے شہر میں مٹھائیاں بانٹ دیتے ہیں، بچوں کے منہ سے نکلنے سے پہلے ان کی خواہش پوری کر دیتے ہیں، کھانے کےلیے بہترین ہوٹل کا انتخاب کرتے ہیں، ہر نئے ماڈل کی گاڑی خرید لیتے ہیں، بچوں کو شہر کے سب سے مہنگے اسکول میں پڑھاتے ہیں، اپنی حیثیت سے بڑھ کر اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، ہر سال یا تو خود حج کرتے ہیں یا کسی خواہش مند کوحج کروا دیتے ہیں، گنبد خضری کے سامنے بیٹھ کر اسے گھنٹوں تکتے رہتے ہیں، آپ ایک بریگیڈیئر سے ایک ملنگ بن جاتے ہیں، آپ ایئر کنڈیشنڈ روم چھوڑ کر درباروں میں رہنے لگتے ہیں، آپ ڈھول کی تھاپ پر دھمال ڈالنے لگتے ہیں، آپ بلا وجہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتے ہیں، آپ ہر راہ جاتے کو نصیحت کرنے لگتے ہیں، یہاں تک کہ اپنی زندگی کی ساری جمع پونجی ایک طوائف کے کوٹھے پر لٹا دیتے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟‘‘

میں انہیں مسلسل گھور رہا تھا۔ میں سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ وہ کہنا کیا چاہتے ہیں۔ میں نے لمبی سانس لی، دنوں بازوؤں کی کہنیاں اپنی ٹانگوں پر رکھیں اور دونوں ہاتھوں سے منہ کو سہارا دے کرجواب دیا، ’’نہیں! میں نہیں جانتا۔‘‘ وہ مسکرائے، آنکھوں کو مکمل کھولا، ماتھے پر تیوریاں بنائیں، چائے کا گھونٹ پیا اور تسبیح کا ایک اور دانا گراتے ہوئے بولے، ’’آپ یہ سب کام سکون حاصل کرنے کےلیے کرتے ہیں۔‘‘

میرے اندر سوالوں کے سمندر نے سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں جنم لیا اور میں نے فوراً سوال کیا کہ انسان اچھے کام تو یقیناً سکون کےلیے کرتا ہے لیکن برے، غلط، حرام اور ناجائز کاموں سے سکون کیسے حاصل ہوسکتا ہے؟ جسٹس صاحب نے چائے کا ایک آخری گھونٹ پیا اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گویا ہوئے، ’’جن سے اللہ خوش ہے انہیں حلال کاموں میں سکون دے دیتا ہے، اور جن سے اللہ ناراض ہے انہیں حرام کاموں میں سکون دے دیتا ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ایک شخص تب تک سو نہیں پاتا جب تک وہ شراب کے نشے میں دھت نہیں ہوجاتا کیونکہ اس نے اپنا سکون شراب میں تلاش کرلیا ہے؛ اور ایک شخص تب تک نہیں سو پاتا جب تک وہ عشا کی نماز ادا نہیں کرلیتا، کیونکہ اس نے اپنا سکون نماز میں تلاش کرلیا ہے۔ ایک شخص تب تک بے چین رہتا ہے جب تک وہ زنا نہیں کر لیتا کیونکہ اس نے زندگی کا سکون زنا میں تلاش کرلیا ہے؛ اور ایک شخص جب تک قرآنِ پاک کی تلاوت نہ کرلے تو اسے سکون نہیں آتا کیونکہ اس نے اپنا سکون اللہ کے کلام میں ڈھونڈ لیا ہے۔ ایک شخص کو سکون حاصل کرنے کےلیے چائے کا ایک کپ ہی کافی ہوتا ہے جبکہ کچھ لوگ ایک اچھی کتاب پڑھ کر سکون حاصل کرلیتے ہیں۔ کچھ لوگ اچھے کام میں سکون تلاش کرلیتے ہیں۔

کچھ لوگ سونے سے پہلے آیت الکرسی پڑھ کر سکون میں آجاتے ہیں جبکہ کچھ لوگوں کو سکون تاریخ کے مطالعے سے مل جاتا ہے۔ کچھ لوگ سکون کےلیے کلا سیکی گانے کا انتخاب کر لیتے ہیں۔ کچھ لوگ سیرت النبیﷺ پڑھ کر سکون کی نعمت حاصل کرتے ہیں، اور کچھ نعت پڑھ کر سکون سے سرشار ہوجاتے ہیں۔

لہذا اگر کوئی شخص حرام اور ناجائز کام کرکے بھی چین کی نیند سو رہا ہے تو آپ سمجھ لیجیے کہ اللہ نے اس کے دل پر مہر لگادی ہے۔ اللہ یقیناً اس سے ناراض ہے۔ اس نے یہ سکون اللہ کو ناراض کرکے حاصل کیا ہے اور اللہ اسے اس زندگی میں یہ موقع دینا ہی نہیں چاہتا کہ وہ سکون کے حلال طریقے تلاش کرے۔ اللہ روز محشر اس کے سکون کے یہ ستر سال ستر ارب برسوں کی تکلیف میں بدل دے گا۔ لہذا میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ اللہ سے صرف سکون نہ مانگیے بلکہ حلال سکون کی دعا کیجیے، اور سکون ہمیشہ حلال کاموں میں تلاش کیجیے۔ یہ اپروچ آپ کے ستر سال بھی سکون سے گزار دے گی اور ستر ارب سال بھی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

میاں عمران احمد

میاں عمران احمد

بلاگر نے آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی لندن سے گریجویشن کر رکھا ہے۔ پیشے کے اعتبار سے کالمنسٹ ہیں، جبکہ ورلڈ کالمنسٹ کلب اور پاکستان فیڈریشن آف کالمنسٹ کے ممبر بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔