طالبان امن کی طرف آئیں، ٹلرسن

ایڈیٹوریل  بدھ 25 اکتوبر 2017
امن اور مستحکم پاکستان کے لیے بھی بات چیت کی جائے گے۔ فوٹو: فائل

امن اور مستحکم پاکستان کے لیے بھی بات چیت کی جائے گے۔ فوٹو: فائل

امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے کہا ہے پاکستان کے ساتھ تعلقات کا انحصار طالبان کے خلاف ایکشن پر ہوگا۔ کابل میں افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں  نے پاکستانی قیادت سے ملاقاتوں کے دوران افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے گفتگو کا اشارہ بھی دیا اور کہا کہ پرامن اور مستحکم پاکستان کے لیے بھی بات چیت کی جائے گی۔

بلاشبہ پاک امریکا تعلقات کے سیاق و سباق میں ٹلرسن کا دورہ اپنے مقاصد کی روشنی میں ٹرمپ انتظامیہ کے لیے اہم چیلنج ہوگا، ٹلرسن اپنی پاک امریکا تعلقات کی تاریخ میں پہلی بار گن بوٹ ڈپلومیسی، وار ہسٹیریا اور گاجر و چھڑی کے ہمہ جہتی ڈاکٹرائن اور نئی افغان پالیسی کے ساتھ پاکستان آئے ہیں،ِ ان کا دورہ دور رس اثرات کا حامل ہے، ایک طرف طالبان کے مسلسل ہولناک حملوں سے افغان حکومت کو سنبھلنے کا موقع نہیں مل رہا، افغانستان میں سیکیورٹی فورسز سے جھڑپوں اور آپس کی لڑائی میں 96 طالبان اور 4 پولیس اہلکار مارے گئے جب کہ سی آئی اے نے افغانستان میں اپنی سرگرمیاں بڑھا نے کا اعلان کردیا جب کہ افغان فورسز نے شدت پسندوں کے خلاف نئی کارروائی کا آغاز کر دیا، خطے میں امن کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

دوسری جانب ٹلرسن نے افغان صدر سے گفتگو میں افغانستان میں جنگ اور دہشتگردی کے خاتمے اور طالبان سے مزاکرات کے امکان پر بات کی، وہ اپنے بیانات میں دہشتگردی کے خفیہ ٹھکانوں کے خاتمہ میں پاکستان سے مکمل حمایت اور تعاون کی خصوصی استدعا کرتے ہوئے افغان صدر سے اس حقیقت کا اقرار بھی کرتے رہے کہ افغان امن کے قیام میں پاکستان کا کردار اہم ہے، مگر امریکی دوعملی بھی ہمرکاب ہے، کیونکہ پاکستان کے فرنٹ لائن کردار کو کلیدی حیثیت ملتی تو ہے مگر اسے رگیدا بھی جاتا ہے جب کہ موجودہ پاک امریکا تعلقات کو حالات سے مشروط کیا گیا ہے۔

یہ نہ صرف پاکستان کے اصولی اور غیر معمولی کردار اور قربانیوں کی نفی ہے بلکہ ایک بااعتماد حلیف کی دلٓا زاری کے مترادف ہے، ادھر افغان حکومت امریکا کے خطے میں ہر اقدام کی غیر مشروط حمایت اور بھی صورتحال کو تشویش ناک بنائے ہوئے ہے، ستم بالائے ستم گزشتہ روز افغان صدر اشرف غنی نے پاکستانی ٹرکوں کے افغانستان میں داخلے پر پابندی لگا دی، افغان وزارت ٹرانسپورٹ کے مطابق پاکستانی ٹرک اب صرف افغان سرحد تک آ سکیں گے۔ اس سے خلفشار جنم لے گا جب کہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ طالبان امریکا کی اپیل پر بات چیت پر تیاری، ممکنہ سرینڈر اور شراکت اقتدار کے کسی فارمولے پر رضامند نہیں، ان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ پہلے امریکی فوجیں افغان سر زمین سے نکل جائیں، ادھر بھارتی مبصرین بھی امریکی پالیسیوں کے تناظر میں مودی حکومت کو خبردار کر چکے ہیں کہ وہ امریکی شطرنج کی بساط پر کھیلتے ہوئے خطے کے توازن کو ہر گز نظر انداز نہ کرے، بھارتی اخبار ’’ہندوستان ٹائمز‘‘ نے عندیہ دیا ہے کہ امریکی افغان پالیسی اور ٹرمپ کی اقوام متحدہ میں تقریر اسلام آباد سے دوری کا عندیہ ہے۔

واضح رہے امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن ہفتے سے مشرق وسطیٰ، ایشیا اور یورپ کے دورے پر ہیں، اپنے دورے کے پہلے مرحلے میں انھوں نے سعودی عرب کے بادشاہ شاہ سلمان اور سعودی حکام سے تبادلہ خیال کیا، قطر بھی گئے، ٹلرسن پاکستان کے دورے کے بعد بھارت بھی جائیں گے، موقر امریکی اخبار ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘نے ٹلرسن کے دورہ افغانستان کو سرپرائز وزٹ اور غیر علانیہ دورہ قراردیا، اپنی رپورٹ میں اخبار کا کہنا تھا کہ وزیر خارجہ نے افغانستان کی شورش زدہ صورتحال اور انتہا پسندوں کے رد عمل سے بچنے کے لیے دورہ کو خفیہ رکھا۔ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے کہا ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی پر پاکستانی قیادت کو اعتماد میں لیا جائے گا، انھوں نے کہا پاکستان سے متعلق پالیسی کی بنیاد وہ اقدامات ہیں جوہم ضروری سمجھتے ہیں، اسلام آباد کو خطے کی صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لینا ہو گا کیوں کہ افغانستان اور پاکستان میں استحکام ہماری اولین ترجیح ہے، افغانستان میں امن اور مفاہمتی مواقعے پیدا کرنے کا عمل آگے بڑھانا ضروری ہے۔

امریکی قیادت کی جانب سے اٹھائے جانے والے یہ اقدامات پاکستان کے مستحکم مستقبل کی بھی ضمانت ہوں گے۔ دریں اثنا جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق سے ملاقات کے ایک دن بعد پاکستان میں افغانستان کے سفیر عمر زاخیل وال نے پیر کو اسلام آباد میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی، ملاقات میں افغانستان کے نائب سفیر زرتشت شمس بھی شریک تھے، افغان ذرایع کے مطابق افغان سفیر کی پاکستانی مذہبی رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں کا بنیادی مقصد افغانستان میں جاری لڑائی کے خلاف ان کے بیانات کے ذریعے حمایت حاصل کرنا ہے، امکان ہے کہ افغان سفیر پاکستانی سیاسی رہنماؤں سے مزید ملاقاتیں کریں گے، دریں اثناء افغانستان کے سفیر عمر زاخیل وال نے امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل سے بھی ملاقات کی جس میں افغانستان کی صورتحال سمیت مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

حقائق بھی خطے میں امن کا صرف ایک راستہ بتاتے ہیں کہ پاکستان کے کلیدی کردار کو سب تسلیم کر کے سنجیدگی سے افغان مسئلہ کا کوئی منصفانہ ، اصولی اور پائیدار حل نکالیں۔ خونریزی سے افغان عوام کو کبھی امن حاصل نہیں ہو سکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔