کوئی ایک درخت

عبدالقادر حسن  بدھ 25 اکتوبر 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

دنیا موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہو رہی ہے اور ارضیات کے ماہرین اس بارے میں نہایت متفکر ہیں کہ اگلے چند برسوں میں دنیا کے مختلف خطوں کے موسمی حالات بالکل بدل جانے کو ہیں، ٹھنڈے ملک گرم ملکوں میں تبدیل ہوتے جا رہے ہیں اور گرم ملکوں کا موسم ٹھنڈا نہیں ہو رہا بلکہ گرمیوں کا دورانیہ بڑھتا جا رہا ہے، ان موسمیاتی تبدیلیوں پر ماہرین کی پریشانی بجا ہے اور وہ ا س کے قابل عمل حل کے لیے تحقیق بھی کر رہے ہیں تا کہ دنیا ان تبدیلیوں سے کم سے کم متاثر ہو اور انسان اپنے معمول کی زندگی گزار سکیں۔ ہمارا حال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں اور ہم بھی ان موسمیاتی تبدیلیوں کے شکار بنتے جا رہے ہیں مگر ہمارے ہاں اُلٹا رواج چل نکلا ہے، ہم بدلتے موسموں سے اپنے آپ کو بچانے کے بجائے ان موسموں کا آسان شکار بننے کی تگ و دو میں مصروف ہیں اور اس کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔

موسم کی تبدیلی سے اپنے ملک کو بچانے کے لیے ہمیں طویل منصوبہ بندی کی ضرورت ہے لیکن یہ بات بڑی حیران کن ہے کہ ہم اس منصوبہ بندی کے برعکس موسم کو اپنے لیے سازگار بنانے کے لیے کی جانے والی کوششوں کو روک رہے ہیں۔ موسم کو معتدل رکھنے میں ملک کے طول و عرض میں پھیلے جنگلات کا کردار اہم ہے، بارشوں کے سلسلے انھی درختوں کے مرہون منت ہیں کہ جہاں پر درختوں کی بہتاب ہو وہاں قدرتی طور پر بارشیں زیادہ برستی ہیں جن سے ہماری پانی کی ضرورتوںکو پورا کرنے میں مدد ملتی ہے۔

مشاہدے کی بات ہے کہ میں لاہور کے جس علاقے میں قیام پذیر ہوں وہاں گردو نواح میں درختوں کی تعداد معقول حد تک ہے جس کی وجہ سے گرمیوں میں موسم کے اثرات میں خاطر خواہ تبدیلی محسوس ہوتی ہے میں جب بھی لاہور کی مال روڈ پر سفر کرتا ہوں تو مجھے سر گنگا رام اور سر ریواز یاد آجاتے ہیں جنہوںنے لاہور کی گرم دوپہروں میں لاہور کی خوبصورتی کے لیے باقاعدہ فیتے کے ساتھ مال روڈکی پیمائش کر کے درخت لگائے تھے جن کی ٹھنڈی چھاؤں کے مزے ہم آج تک لوٹ رہے ہیں۔ ہماری طرف سے گو کہ ان میں کوئی اضافہ تو نہیں ہو سکا بلکہ ہمارے منتظموں نے ترقیاتی کاموں اور سڑک کی کشادگی کے نام پر پیمائش کے ساتھ لگائے گئے درختوں کا قلع قمع کرنے کی کوشش ضرور کی ہے .

جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی رہے ہیں اور عوام کا اس سلسلے میں احتجاجی واویلا بیکار گیا ہے کہ سرکار کو یہ پسند نہیں کہ سڑک کے راستے میں شہریوں کو گھنی چھاؤں فراہم کرنے والے درخت رکاوٹ بن جائیں۔ لاہور کی ایک سڑک تو اپنے موسم کی وجہ سے اس قدر مشہور تھی کہ اس کا نام ہی ٹھنڈی سڑ ک پڑ گیا اور اس کو آج تک اسی نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ وہ اب اتنی ٹھنڈی تو نہیں رہی کہ اس کی کشادگی میں بھی درختوں کا قتل عام کیاگیا تھا۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ شہباز شریف کے جدہ جانے سے پہلے کے اپنے وزارت اعلیٰ کے دور میں لاہور کی جیل روڈ کو کشادہ کرنے کے دوران بھی صدیوں پرانے درختوں پر کلہاڑا چلا دیا گیا اور جب اس سلسلے میں احتجاج ہوا تو کہا گیا کہ ہم پہلے سے زیادہ شجر کاری کریں گے۔ اب جب کہ جیل روڈ کی کشادگی کو ایک عرصہ بیت گیا مگر وہ سڑک درختوں کے بغیر ننگی منگی اور شہباز شریف کے شجر کاری کے ہوائی وعدوں کی منتظر ہے۔

اگر اس وقت اس سڑک پر بڑے درختوں کی شجر کاری کر دی جاتی تو وہ لاہور کے رہنے والوں کو اپنی گھنی چھاؤں فراہم کرتے اس کے علاوہ اس سڑک پرسرکاری اور نجی اسپتال بھی ہیں مریضوں کے ساتھ آنے والے لواحقین ان درختوں کی چھاؤں سے لطف اندوز بھی ہوتے اور اگر کسی زچہ کو اسپتال میں زچگی کے لیے جگہ نہ بھی ملتی تو یہ درخت اس کے نو مولود کو بھی اپنا سایہ فراہم کرسکتے تھے۔ مگر یہ سب تو تب ہوتا جب ہم نے درختوں کی شجر کاری کی ہوتی ہم تو آج بھی سڑکوں کے نام پر صدیوں سے خوبصورتی اور سایہ فراہم کرتے درختوں کو کاٹ نہیں بلکہ نیست و نابود کر رہے ہیں۔

لاہور میں سڑکوں کی کشادگی کے نام پر در ختوں کی کٹائی اب ایک معمول بن چکی ہے سڑکیں چوڑی ہو چکی ہیں اور ان پر گاڑیاں فراٹے بھرتی گزر رہی ہیں مگر ان گاڑیوں کے اندر موجود لاہور کے باسیوں سے ان کے سایہ دار درخت چھن چکے ہیں جو کہ سڑکوں کو ٹھنڈا کرنے کا باعث تھے۔

لاہور کے ہمدردوں نے کئی دفعہ درختوں کی کٹائی کے خلاف عدالت سے رجوع بھی کیا جس کے بعد وقتی طور پر تو درختوں کی کٹائی کا عمل رک گیا لیکن جیسے ہی عدالت نے حکم امتناعی ختم کیا تو راتوں رات ان بے زبان اور بے ضرر سایہ دار درختوں کو مشینی آروں سے کاٹ دیا گیا۔ ایک درخت کو بڑا ہونے میں کئی دہائیاں درکار ہوتی ہیں لاہور جو کہ پہلے ہی موسم کی وجہ سے گردوغبار میں اَٹا رہتا ہے بعض علاقوں میں تو بسا اوقات سانس لینا بھی دوبھر ہو جاتا ہے یہی درخت ہی سانس کو رواں رکھنے میں مددگار ہوتے ہیں۔

سڑکیں ضرور کشادہ ہونی چاہئیں لاہور میں ٹریفک کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے سامنے موجودہ سڑکیں چھوٹی پڑتی جا رہی ہیں ہر روز ترقیاتی کام ہو رہے ہیں لیکن اگر ان ترقیاتی کاموں میں ٹھیکہ دیتے وقت یہ شرط بھی رکھ دی جائے کہ جتنے درخت کاٹے جائیں گے اس سے دگنے درخت لگائے بھی جائیں گے تو یہ لاہور کے شہریوںکے لیے حکومت کی جانب سے ایک ایسا تحفہ ہو گا جس کو مدتوں یاد رکھا جائے گا جیسے کہ ہم آج تک لاہور کے صدیوں پہلے کے باغبانوں کو یاد رکھتے ہیں۔

درختوں کی بے دریغ اور بے رحمانہ کٹائی مجھے دو ایسی خبروں نے یاد دلائی جن میں سے ایک تو ہمارے دارالحکومت اسلام آباد میں سڑک کی کشادگی اور دوسری ملتان میں ایک ہاؤسنگ اسکیم کے نام پر آموں کے کئی ہزار درختوں کی کٹائی ہے۔ ہم ایک درخت کو نہیں کاٹ رہے ہوتے بلکہ اس سے منسلک کئی ایسی سہولتوں کا گلا بھی گھونٹ رہے ہوتے ہیں جن میں سے اکثر کے بارے میں ہم آگاہی بھی نہیں رکھتے۔ یہ درخت جو کہ کسی سڑک کنارے اپنے خوبصورت خدوخال کی وجہ سے ایستادہ ہیں یہ گھنی چھاؤں کے  علاوہ کئی پرندوں کا مسکن بھی ہیں۔ درختوں کی شاخوں میں بنائے گئے ان پرندوں کے گھر جو کہ انھوں نے محاورتاً نہیں بلکہ حقیقت میں تنکا تنکا جوڑ کر بنائے ہوتے ہیں کٹائی کی وجہ سے انسان ان کو دوبارہ تنکا تنکا کر کے چرند پرند کو بے گھر کر دیتے ہیں۔

؎کٹ گیا درخت مگر تعلق کی بات تھی

بیٹھے رہے زمین پہ پرندے ہی رات بھر

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔