شیر وزیر خارجہ

سردار قریشی  بدھ 25 اکتوبر 2017

ایک طرف قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے امورخارجہ نے وزیرخارجہ خواجہ آصف کو صفائی پیش کرنے کے لیے حاضر ہونے کا حکم دیا ہے، تو دوسری جانب مذہبی وسیاسی جماعتوں نے بھی اپنی توپوں کا رخ ان کی طرف موڑ دیا ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان بھلا کہاں چپ رہنے والے تھے سو انھوں نے بھی بیان داغ دیا کہ ان جیسے وزیر خارجہ کے ہوتے ہوئے پاکستان کو بیرونی دشمنوں کی ضرورت نہیں۔

قائمہ کمیٹی نے جواب طلبی کی وجہ یہ بتائی ہے کہ ان کے اختیارکردہ موقف سے پاکستان کے مسائل میں اضافہ ہوگا، جب کہ مذہبی و سیاسی جماعتوں کو وزیرخارجہ کی طرف سے حقانی گروپ، حافظ سعید اور لشکرِ طیبہ وغیرہ کو پاکستان پر بوجھ قرار دینے سے تکلیف پہنچی ہے۔

وزیر خارجہ قائمہ کمیٹی کے سامنے پیش ہوکر اپنی صفائی میں کیا کہتے ہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا، مذہبی و سیاسی جماعتوں کا محاصرہ توڑکر نکلنا بلکہ الٹا انھیں آڑے ہاتھوں لینا بھی وہ خوب جانتے ہیں۔ وہ ایک منجھے ہوئے سیاستدان اور جہاندیدہ پارلیمینٹرین ہیں اور اس حیثیت سے ان کی کارکردگی کا مشاہدہ کرنے والے خوب جانتے ہیں کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینے میں ان کا جواب نہیں۔ جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے، میرے خیال میں وزیر خارجہ کے خلاف بیان دے کر انھوں نے بھڑکے چھتے میں پتھر مارا ہے۔ اگر خواجہ صاحب نے کچھ عرصہ قبل والے قومی اسمبلی کے اجلاس کی فلم ’’حیا بھی کوئی چیز ہوتی ہے، شرم بھی کوئی چیز ہوتی ہے‘‘ پھر چلادی تو خان صاحب منہ چھپاتے پھریں گے۔ آخر بھی تو وہ سیالکوٹی ہیں اور ان سے کچھ بعید نہیں۔

خواجہ صاحب نے بین الاقوامی برادری، خصوصاً امریکا سے کہا تھا کہ وہ پاکستان کو حقانی نیٹ ورک اور دوسرے انتہا پسند گروہوں کی موجودگی کا الزام دینا بند کریں اور انھیں یاد دلایا کہ چند عشرے قبل تک یہی ’’دہشتگرد‘‘ وائٹ ہاؤس کے ’’دلارے‘‘ سمجھے جاتے تھے۔ انھوں نے بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات، تنازعہ کشمیر، دہشتگردی کے خلاف کیے جانے والے اقدامات اور ملک کی اقتصادی ترقی پر بھی روشنی ڈالی۔

نیویارک میں ایشیا سوسائٹی کے سوال و جواب اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا ’’حقانیوں (حقانی نیٹ ورک) اور حافظ سعید (کالعدم جماعت الدعوۃ ٰکے سربراہ) کے لیے ہمیں الزام مت دیں۔‘‘ انھوں نے مزید کہا ’’یہ وہ لوگ ہیں جو صرف 30۔ 20 سال قبل تک آپ کے دلارے تھے۔ وہ وائٹ ہاؤس میں دعوتیں اڑاتے تھے اور اب آپ کہتے ہیں کہ پاکستانیو جہنم میں جاؤ کیونکہ تم نے ان لوگوں کو پناہ دے رکھی ہے۔‘‘ انھوں نے برملا کہا کہ ’’حافظ سعید اور لشکرِ طیبہ ان کے ملک پر بوجھ ہیں۔ یہ کہنا بہت آسان ہے کہ پاکستان حقانیوں، حافظ سعید اور لشکرِ طیبہ کو پال پوس رہا ہے۔ وہ بوجھ ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ وہ بوجھ ہیں، لیکن ان سے نجات پانے کے لیے ہمیں وقت دیں کیونکہ ہم یہ بوجھ اتارنے کی سکت نہیں رکھتے اور آپ ہیں کہ ہمارے بوجھ میں مزید اضافہ کیے جا رہے ہیں۔‘‘

انھوں نے کہا کہ پاکستان دہشتگردوں کی آمدورفت روکنے اور مسئلہ افغانستان کے پْرامن تصفیے میں مدد دینے کے لیے افغان سرحد کے موثر انتظام کی خاطر امریکا کے ساتھ ملکر کام کرنے کو تیار ہے جب کہ اْس ملک میں آئے روز پیچیدہ ہوتے ہوئے تنازعے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔خواجہ آصف نے، جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 72 ویں اجلاس میں شریک تھے، کہا ’’افغانستان کی تمام خرابیوں کے لیے پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانا نہ تو صحیح ہے نہ ہی منصفانہ۔ اس سے صرف ان قوتوں کو مدد ملے گی جن سے ہم ملکر لڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

انھوں نے کہا، پاکستان نے ماضی میں مسئلہ افغانستان کے سیاسی تصفیے میں مدد دینے کے لیے وہ سب کچھ کیا جو اس کے بس میں تھا، اور اس امر کو یقینی بنایا کہ پاکستان کی سرزمیں کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہ ہو۔ انھوں نے مزید کہا ’’افغانستان میں امن و استحکام کی واپسی دیکھنا کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ پاکستان کے مفاد میں ہے جس نے اس تنازعے اور سرحد پار عدم استحکام کے باعث بہت زیادہ سہا ہے۔‘‘ وزیر موصوف نے کہا ’’ ہم جانتے ہیں کہ افغانستان میں طویل جنگ کا خاتمہ امریکا کی شدید خواہش ہے، ہم دل سے اس مقصد کی حمایت کرتے ہیں اور افغانستان میں امن و استحکام کے لیے حتی الوسع مدد دینے کو تیار ہیں۔‘‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ پاکستان جو کچھ کر سکتا ہے اس کی حدود واضح ہونی چاہئیں۔ انھوں نے اپنے سامعین کو مخاطب کرکے کہا ’’ہم افغانستان کے امن و سلامتی کی ذمے داری نہیں لے سکتے اور نہ ہمیں وہ کچھ کر دکھانے کے لیے کہا جائے جو بعض انتہائی طاقتور اور امیر ملک ملکر بھی حاصل نہیں کرسکے۔‘‘ انھوں نے کہا سچ یہ ہے کہ موثر سرحدی انتظام ہی تمام مسائل کے حل کی کنجی ہے، اگرکچھ مزید کرنے کی ضرورت ہے تو سرحد کے اس طرف افغانستان میں ہے جہاں دہشتگرد عناصر کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔ مسئلے کے فوجی حل کو لغو قرار دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ ناکام ہو چکا ہے۔

خواجہ آصف نے کہا ہم افغان سرحد کا انتظام موثر طور پر چلانے کے لیے امریکا کے ساتھ ملکر کام کرنے اور جہاں تک ہوسکا امن عمل میں مدد دینے کو تیار ہیں۔‘‘ داعش سمیت جو نئے خطرات سامنے آئے ہیں ان کا تقاضا ہے کہ ہمخیال ممالک باہمی روابط کو پہلے سے زیادہ مضبوط بنائیں تاکہ اندھیروں اور انتہاپسندی کی ان قوتوں کو شکست دی جاسکے۔ ‘‘ وزیر خارجہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان اور بھارت کو مذاکرات کی میز پر لانے اورکئی عشرے پرانے مسئلہ کشمیر سمیت، جو دونوں ملکوں میں کشیدگی کی بڑی وجہ ہے، تمام معاملات پر بات چیت کے لیے نئی کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر ہونے تک پڑوس میں امن کا حصول ناممکن ہے۔ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری کی بلا اشتعال خلاف ورزیاں، بڑھتی ہوئی سیاسی بیان بازیاں، مقبوضہ کشمیر میں نہتے شہریوں کے خلاف طاقت کا بے رحمانہ استعمال اور اقلیتوں خصوصاً بھارتی مسلمانوں کو ہراساں کرنا جنوبی ایشیا میں امن، مفاہمت اور بات چیت کے لیے نیک شگون نہیں۔ خواجہ آصف نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’’پاکستان تمام تنازعات کو پرامن طور پر حل کرنے اور امن و استحکام کا ماحول پیدا کرنے کے لیے بھارت کے ساتھ ملکر کام کرنے کو بھی تیار ہے تاکہ دونوں ملکوں کے عوام خوشحالی اور ترقی کے اپنے خواب کی تعبیر پا سکیں۔‘‘

انھوں نے کہا پاکستان علاقائی روابط بڑھانے کا حامی ہے اور پاک، چین اقتصادی راہداری خواہ تاپی، کاسا 1000 اور پاکستان، افغانستان اور تاجکستان کے مابین تجارتی سرگرمیوں میں بھرپور شرکت اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو امریکا ہمارا اہم پارٹنر ہے اور مستقبل میں اس تعلق کو قائم رکھنے اور مضبوط بنانے کے لیے ٹھوس بنیادیں موجود ہیں۔ پاکستان اور امریکا دہشتگردی کے خلاف مل کر لڑتے بھی رہے ہیں اور انھیں داعش جیسی پرتشدد انتہا پسندی کو پھیلنے سے روکنے کے کام کا وسیع تجربہ بھی حاصل ہے۔ اسی طرح افغانستان میں امن و استحکام ہمارے باہمی مفاد میں ہے کیونکہ اس علاقے کے محفوظ ومستحکم ہونے کا جتنا فائدہ ہمیں ہوگا اتنا ہی امریکا کو بھی ہوگا۔ ہمارے خیال میں تو پاکستان اور امریکا نے جب بھی ملکر کام کیا ہے اس کا دونوں ملکوں کو یکساں فائدہ پہنچا ہے۔ خواجہ آصف نے زندگی کے مختلف شعبوں میں مدد دینے اور حمایت کرنے پر امریکا کا شکریہ بھی ادا کیا۔

ہمیں تو سچی بات یہ ہے کہ اپنے شیر وزیرخارجہ کی باتوں میں ایسی کوئی خرابی نظر نہیں آئی جس پر ان سے جواب طلب کیا جائے یا طعن وتشنیع کے تیر برسائے جائیں، بھٹو صاحب کے بعد وہ پاکستان کے دوسرے وزیر خارجہ ہیں جو لگی لپٹی رکھے بغیر امریکا کو کھری کھری سنا آئے ہیں اور خراج تحسین کے مستحق ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔