- امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی کا بل سینیٹ سے بھی منظور
- محمد رضوان اور عرفان خان کو نیوزی لینڈ کے خلاف آخری دو میچز میں آرام دینے کا فیصلہ
- کے ایم سی کا ٹریفک مسائل کو حل کرنے کیلئے انسداد تجاوزات مہم کا فیصلہ
- موٹروے پولیس اہلکار کو کچلنے والی خاتون گرفتار
- ہندو جیم خانہ کیس؛ آپ کو قبضہ کرنے نہیں دیں گے، چیف جسٹس کا رمیش کمار سے مکالمہ
- بشری بی بی کو کچھ ہوا تو حکومت اور فیصلہ سازوں کو معاف نہیں کریں گے، حلیم عادل شیخ
- متحدہ وفد کی احسن اقبال سے ملاقات، کراچی کے ترقیاتی منصوبوں پر تبادلہ خیال
- کراچی میں سیشن جج کے بیٹے قتل کی تحقیقات مکمل،متقول کا دوست قصوروار قرار
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبروں نے اقوام متحدہ کو بھی خوفزدہ کردیا
- ایکس کی اسمارٹ ٹی وی ایپ متعارف کرانے کی تیاری
- جوائن کرنے کے چند ماہ بعد ہی اکثر لوگ ملازمت کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟
- لڑکی کا پیار جنون میں تبدیل، بوائے فرینڈ نے خوف کے مارے پولیس کو مطلع کردیا
- تاجروں کی وزیراعظم کو عمران خان سے بات چیت کرنے کی تجویز
- سندھ میں میٹرک اور انٹر کے امتحانات مئی میں ہونگے، موبائل فون لانے پر ضبط کرنے کا فیصلہ
- امریکی یونیورسٹیز میں اسرائیل کیخلاف ہزاروں طلبہ کا مظاہرہ، درجنوں گرفتار
- نکاح نامے میں ابہام یا شک کا فائدہ بیوی کو دیا جائےگا، سپریم کورٹ
- نند کو تحفہ دینے کے ارادے پر ناراض بیوی نے شوہر کو قتل کردیا
- نیب کا قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں غیر قانونی بھرتیوں کا نوٹس
- رضوان کی انجری سے متعلق بڑی خبر سامنے آگئی
- بولتے حروف
ہم زوال پذیر کیوں ہیں ؟
خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنھیں اللہ تبارک تعالیٰ نے دو وقت کی روٹی عطا کر دی ہے اور ان پر سوائے ان کی اپنی محنت کے کوئی بوجھ نہیں ڈالا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی زمین پر عزت کی روٹی کھاتے ہیں اور کسی کے محتاج نہیں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اپنے خزانوں میں سے ان کا اتنا حصہ مختص کر دیا ہے جسے وہ خود ہی اپنی محنت کے ساتھ حاصل کر لیتے ہیں اور اس کے حصول میں کسی کے محتاج نہیں ہوتے ۔ایسے خوش نصیب روئے زمین پر زیادہ نہیں ملتے اور جو ملتے ہیں وہ اپنی دھن میں اس قدر گم رہتے ہیں کہ دنیاداری کی ان کو ہوش تو رہتی ہے مگر وہ دنیا سے بے خبر اور لاپرواہ ہو کر زندگی بسر کرتے ہیں۔
ایسے خوش نصیب اگرچہ چند ہیں لیکن جو ہیں وہ اگر کسی کو مل جائیں تو غنیمت اور نعمت ہیں اس کی دنیا سنور جاتی ہے اور وہ خدا کے ان بندوں کا بندہ بن کر زندہ رہتا ہے۔ انسانی آلائشوں سے محفوظ اور صاف ستھرا۔ ایسی خوبصورت اور پاک صاف زندگی کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے اور جنھیں ملتی ہے وہ دنیا میں سرخرو ہو کر زندہ رہتے ہیں اور اللہ ایسے بندوں کے لیے دوسری اَن دیکھی دنیا کے دروازے بھی کھول دیتا ہے۔یہ سب اس کا کرم اور خاص فضل ہے جو ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتا ۔یہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی جانتی ہے کہ کن لوگوں پہ خوشیوں کے دروازے کھلتے ہیں اور وہ کون بد نصیب ہیں جن پر یہ دروازے بند ہی رہتے ہیں ۔ بہرکیف اللہ تبارک تعالیٰ ہی ایسے راز جانتا ہے اور وہ ان کو صرف اپنے بندوں پر ہی کھولتا ہے۔
یہ دنیا بلا شبہ محنت اور دن رات کی مشقت کا نام ہے لیکن ایسے لوگ زیادہ نہیں ملتے جن پر خوش کُن مشقت کے دروازے کھلتے ہیں اور غلط کاموں والوں پر بند ہوجاتے ہیں ۔ ایسے لوگ زیادہ نہیں ہوتے جو دوسروں کے لیے مشقت برداشت کر لیتے ہیں اور اس میں نیکی تلاش کرلیتے ہیں یہی نیکی ان کی زندگی کا نہ ختم ہونے والا اثاثہ ہوتی ہے اور اسی کے لیے وہ زندہ رہتے ہیں اور اسے جمع کرنے کے لیے دن رات محنت کرتے ہیں اور خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو زیادہ سے زیادہ یہ اثاثے جمع کر لیتے ہیں، یہی اثاثے ان کی زندگی کی دولت بن کر ان پر مشکلیں آسان کرتے ہیں اور آج کی مشقت سے زندگی کو آسان بناتے ہیں۔ یہ زندگی انسانوں کے باہمی تعاون کے ذریعے چلتی ہے اور آسان بن جاتی ہے اگر یہ تعاون حاصل نہ ہو تو خدا کی زمین پر ان کی زندگی آسان نہیں ہوتی اور وہ مل جل کر زندہ نہیں رہتے جو انسانی زندگی کا اثاثہ اور دولت ہے اور کامیابی کا راز۔
زندگی کی مشکلیں ہماری اپنی ہی پیدا کی ہوئی ہیں اور ہم نے خود سے اپنی ہی آسان زندگی کو مشکل بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی بلکہ ہم تو اس حد تک چلے گئے ہیں کہ اگر کسی دوسرے کو ہماری کسی مشکل میں ہونے سے تکلیف پہنچتی ہے تو ہم اپنے آپ کو بھی مشکل میں ڈالنے سے گریز نہیں کرتے، یہی وہ وجہ ہے کہ انسانی زندگی کی مشکلات کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی جا رہی ہیں حالانکہ جس طرح کے وسائل انسان کو آج کل کے جدید دور میں دستیاب ہیں ان کے ہوتے ہوئے انسان کی راحت کا ہر سامان موجود ہے مگر ہم نے اس راحت کو اپنے اوپر حرام کر رکھا ہے اور زندگی کو مشکل تر بنادیا ہے، ایک دوڑ لگی ہوئی ایک سراب کے پیچھے سب بھاگے جا رہے ہیں اور یہ سراب ہے کہ اور دور ہوتا جا رہا ہے، اتنا دور کہ کوئی اس تک کبھی بھی پہنچ نہیں سکتا، اس کے باوجود اس کا تعاقب جاری ہے۔ خواہشات کا ایک لامتناہی سمندر ہے جس میں ہم سب ڈوبے ہوئے ہیں اور ان خواہشات کو پورا کرنے کے چکر میں مزید ڈوبتے جا رہے ہیں بلکہ اس حد تک کہ ہمیں ان سے نکالنے والا بھی کوئی نہیں کہ ہر ایک اپنی اپنی ہوس کا شکار ہو چکا ہے اور دنیا کو اپنے اوپر عذاب کر بیٹھا ہے۔
قیامت کا منظر اور اس کے بارے میں پیش گوئیاں کرنے والے کا کہنا ہے کہ نفسا نفسی کا دور ہو گا ہر ایک انسان اپنی ہی فکر اور پریشانی میں گم ہوگا۔ وہ وقت ہم سب دیکھ رہے ہیں اور ہم اسی دور میں زندہ ہیں اور انسانی نفسا نفسی کا مشاہدہ بھی کر رہے ہیں اور خود اس کا شکار بھی ہیں۔ ایسا زمانہ آگیا ہے جس کے بارے میں ہم صرف سنتے آئے تھے اور اب اس زمانے کے حوادث کا خود شکار ہو رہے ہیں۔ ہر انسان اپنی ہی ذات میں مگن ہے اور دوسروںکے لیے آسانیاں فراہم کرنے کے بجائے پریشانیاں بڑھانے میں پیش پیش ہے۔ رزق سے برکت ختم ہو گئی ہے کہ رزق حلال ہماری اولین ترجیح نہیں رہی جس کی وجہ سے پریشانیاں ہی پریشانیاں ہیں۔روز بروز معاشرتی برائیوں میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے مگر ہمیں یہ سمجھ نہیں آرہی کہ اللہ تبارک تعالیٰ ہم سے کیوں ناراض ہیں اور یہ بھی اللہ کی ناراضگی ہی ہے کہ اس نے ہمارے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم کر دی ہے اور اسی وجہ سے ہم میں سے برے بھلے کی تمیز ختم ہو گئی ہے اور برائی کو ایمان کے سب سے نچلے درجے کے مطابق دل میں بھی برا کہنے سے گریز کرتے ہیں۔ یہی ہمارے زوال کی بڑی وجہ اور نشانی ہے۔ بیشک انسان خسارے میں ہے صرف ان لوگوں کے علاوہ جو ایمان لائے اور اس پر عمل بھی کرتے رہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔