ہم زوال پذیر کیوں ہیں ؟

عبدالقادر حسن  جمعرات 26 اکتوبر 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنھیں اللہ تبارک تعالیٰ نے دو وقت کی روٹی عطا کر دی ہے اور ان پر سوائے ان کی اپنی محنت کے کوئی بوجھ نہیں ڈالا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی زمین پر عزت کی روٹی کھاتے ہیں اور کسی کے محتاج نہیں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اپنے خزانوں میں سے ان کا اتنا حصہ مختص کر دیا ہے جسے وہ خود ہی اپنی محنت کے ساتھ حاصل کر لیتے ہیں اور اس کے حصول میں کسی کے محتاج نہیں ہوتے ۔ایسے خوش نصیب روئے زمین پر زیادہ نہیں ملتے اور جو ملتے ہیں وہ اپنی دھن میں اس قدر گم رہتے ہیں کہ دنیاداری کی ان کو ہوش تو رہتی ہے مگر وہ دنیا سے بے خبر اور لاپرواہ ہو کر زندگی بسر کرتے ہیں۔

ایسے خوش نصیب اگرچہ چند ہیں لیکن جو ہیں وہ اگر کسی کو مل جائیں تو غنیمت اور نعمت ہیں اس کی دنیا سنور جاتی ہے اور وہ خدا کے ان بندوں کا بندہ بن کر زندہ رہتا ہے۔ انسانی آلائشوں سے محفوظ اور صاف ستھرا۔ ایسی خوبصورت اور پاک صاف زندگی کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے اور جنھیں ملتی ہے وہ دنیا میں سرخرو ہو کر زندہ رہتے ہیں اور اللہ ایسے بندوں کے لیے دوسری اَن دیکھی دنیا کے دروازے بھی کھول دیتا ہے۔یہ سب اس کا کرم اور خاص فضل ہے جو ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتا ۔یہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی جانتی ہے کہ کن لوگوں پہ خوشیوں کے دروازے کھلتے ہیں اور وہ کون بد نصیب ہیں جن پر یہ دروازے بند ہی رہتے ہیں ۔ بہرکیف اللہ تبارک تعالیٰ ہی ایسے راز جانتا ہے اور وہ ان کو صرف اپنے بندوں پر ہی کھولتا ہے۔

یہ دنیا بلا شبہ محنت اور دن رات کی مشقت کا نام ہے لیکن ایسے لوگ زیادہ نہیں ملتے جن پر خوش کُن مشقت کے دروازے کھلتے ہیں اور غلط کاموں والوں پر بند ہوجاتے ہیں ۔ ایسے لوگ زیادہ نہیں ہوتے جو دوسروں کے لیے مشقت برداشت کر لیتے ہیں اور اس میں نیکی تلاش کرلیتے ہیں یہی نیکی ان کی زندگی کا نہ ختم ہونے والا اثاثہ ہوتی ہے اور اسی کے لیے وہ زندہ رہتے ہیں اور اسے جمع کرنے کے لیے دن رات محنت کرتے ہیں اور خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو زیادہ سے زیادہ یہ اثاثے جمع کر لیتے ہیں، یہی اثاثے ان کی زندگی کی دولت بن کر ان پر مشکلیں آسان کرتے ہیں اور آج کی مشقت سے زندگی کو آسان بناتے ہیں۔ یہ زندگی انسانوں کے باہمی تعاون کے ذریعے چلتی ہے اور آسان بن جاتی ہے اگر یہ تعاون حاصل نہ ہو تو خدا کی زمین پر ان کی زندگی آسان نہیں ہوتی اور وہ مل جل کر زندہ نہیں رہتے جو انسانی زندگی کا اثاثہ اور دولت ہے اور کامیابی کا راز۔

زندگی کی مشکلیں ہماری اپنی ہی پیدا کی ہوئی ہیں اور ہم نے خود سے اپنی ہی آسان زندگی کو مشکل بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی بلکہ ہم تو اس حد تک چلے گئے ہیں کہ اگر کسی دوسرے کو ہماری کسی مشکل میں ہونے سے تکلیف پہنچتی ہے تو ہم اپنے آپ کو بھی مشکل میں ڈالنے سے گریز نہیں کرتے، یہی وہ وجہ ہے کہ انسانی زندگی کی مشکلات کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی جا رہی ہیں حالانکہ جس طرح کے وسائل انسان کو آج کل کے جدید دور میں دستیاب ہیں ان کے ہوتے ہوئے انسان کی راحت کا ہر سامان موجود ہے مگر ہم نے اس راحت کو اپنے اوپر حرام کر رکھا ہے اور زندگی کو مشکل تر بنادیا ہے، ایک دوڑ لگی ہوئی ایک سراب کے پیچھے سب بھاگے جا رہے ہیں اور یہ سراب ہے کہ اور دور ہوتا جا رہا ہے، اتنا دور کہ کوئی اس تک کبھی بھی پہنچ نہیں سکتا، اس کے باوجود اس کا تعاقب جاری ہے۔ خواہشات کا ایک لامتناہی سمندر ہے جس میں ہم سب ڈوبے ہوئے ہیں اور ان خواہشات کو پورا کرنے کے چکر میں مزید ڈوبتے جا رہے ہیں بلکہ اس حد تک کہ ہمیں ان سے نکالنے والا بھی کوئی نہیں کہ ہر ایک اپنی اپنی ہوس کا شکار ہو چکا ہے اور دنیا کو اپنے اوپر عذاب کر بیٹھا ہے۔

قیامت کا منظر اور اس کے بارے میں پیش گوئیاں کرنے والے کا کہنا ہے کہ نفسا نفسی کا دور ہو گا ہر ایک انسان اپنی ہی فکر اور پریشانی میں گم ہوگا۔ وہ وقت ہم سب دیکھ رہے ہیں اور ہم اسی دور میں زندہ ہیں اور انسانی نفسا نفسی کا مشاہدہ بھی کر رہے ہیں اور خود اس کا شکار بھی ہیں۔ ایسا زمانہ آگیا ہے جس کے بارے  میں ہم صرف سنتے آئے تھے اور اب اس زمانے کے حوادث کا خود شکار ہو رہے ہیں۔ ہر انسان اپنی ہی ذات میں مگن ہے اور دوسروںکے لیے آسانیاں فراہم کرنے کے بجائے پریشانیاں بڑھانے میں پیش پیش ہے۔ رزق سے برکت ختم ہو گئی ہے کہ رزق حلال ہماری اولین ترجیح نہیں رہی جس کی وجہ سے پریشانیاں ہی پریشانیاں ہیں۔روز بروز معاشرتی برائیوں میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے مگر ہمیں یہ سمجھ نہیں آرہی کہ اللہ تبارک تعالیٰ ہم سے کیوں ناراض ہیں اور یہ بھی اللہ کی ناراضگی ہی ہے کہ اس نے ہمارے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم کر دی ہے اور اسی وجہ سے ہم میں سے برے بھلے کی تمیز ختم ہو گئی ہے اور برائی کو ایمان کے سب سے نچلے درجے کے مطابق دل میں بھی برا کہنے سے گریز کرتے ہیں۔ یہی ہمارے زوال کی بڑی وجہ اور نشانی ہے۔ بیشک انسان خسارے میں ہے صرف ان لوگوں کے علاوہ جو ایمان لائے اور اس پر عمل بھی کرتے رہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔