کرپشن کی گنگا

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 26 اکتوبر 2017
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

پاکستان کی سیاست پر چند خاندانوں کا قبضہ ہے جب تک پاکستان کو ان چند اشرافیائی خاندانوں سے نجات نہیں دلائی جاتی پاکستانی سیاست میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی ۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت کی گاڑی دولت کے پہیوں پر چلتی ہے اور سرمایہ دارانہ نظام نے اشرافیہ کے لیے حصول دولت کے دروازے چوپٹ کھول دیے ہیں۔ آج احتساب کے نام پر جو نیم دلانہ کارروائیاں کی جا رہی ہیں اس کا کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو ایک فائدہ یہ ضرور ہو رہا ہے کہ عوام قومی دولت کے لٹیروں سے آشنا ہو رہے ہیں بلاشبہ پاناما لیکس کے حوالے سے جو احتسابی کارروائیاں ہو رہی ہیں وہ مثبت سمت میں ایک قدم ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک بھر میں کرپشن کا ارتکاب صرف ایک خاندان ہی کر رہا ہے؟ ایسا نہیں ہے بلکہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ہر خاندان نے کرپشن کی گنگا میں جی بھرکے اشنان کیا ہے اور کرپشن سے حاصل ہونے والی دولت کو مختلف ذرایع سے باہر بھیج کر محفوظ کر لیا ہے خاص طور پر اربوں روپوں کی جائیدادیں مختلف ترقی یافتہ ملکوں میں خرید رکھی ہیں۔

سرمایہ دارانہ نظام میں کرپشن کی بھاری رقوم رکھنے کا پورا پورا اہتمام کیا جاتا ہے، اس حوالے سے سوئس بینکوں کی خدمات کا چرچہ عام ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کی اشرافیہ نے ان بینکوں میں دو سو ارب جمع کر رکھے ہیں ان دو سو ارب روپوں کا ذکر میڈیا میں بار بار آرہا ہے لیکن اب تک اس حوالے سے کسی تحقیقی کارروائی کا میڈیا میں کوئی ذکر آیا نہ احتسابی اداروں کی طرف سے اس بھاری رقم کی واپسی کے حوالے سے کوئی خبر میڈیا میں آئی۔ حکومت اپوزیشن اور میڈیا کی طرف سے یہ آوازیں تو اٹھ رہی ہیں کہ پاکستان میں کرپشن کی گنگا بہہ رہی ہے اور اشرافیہ اس میں ہاتھ ہی نہیں دھو رہی ہے بلکہ نہا رہی ہے لیکن اللہ کے فضل سے یہ طبقات اب تک محفوظ ہیں، لے دے کر ایک خاندان کے خلاف احتساب کا آغاز ہوا ہے لیکن احتساب خاندانی رعب و دبدبے کی وجہ سے پھونک پھونک کر قدم اٹھا رہا ہے۔

بھاری کرپشن کے الزامات ملک کی نامور شخصیات پر لگ رہے ہیں اور اس حوالے سے اعلیٰ عدالتوں میں ریفرنسز بھی دائر ہیں۔ ہمارے قانونی نظام میں جس پر الزام لگایا جاتا ہے وہ ملزم ہوتا ہے مجرم نہیں ہوتا کسی کو مجرم اس وقت کہا جاتا ہے جب جرم ثابت ہوجائے اور سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں نے  نظام میں ایسے ایسے خلا چھوڑ رکھے ہیں کہ کسی ملزم کو مجرم ثابت کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ اس حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کیسزکے فیصلوں کی مدت کا تعین نہیں۔

یہ بات عام ہے کہ باپ کے کیس کا فیصلہ بیٹوں اور پوتوں تک دراز رہتا ہے، عدالتوں میں تاریخ لینا سب سے آسان کام ہے تاریخ پر تاریخ کا سلسلہ عشروں تک دراز ہوتا ہے جس کی وجہ سے کسی ملزم کو مجرم ثابت کرنے کا کام کھٹائی میں پڑا رہتا ہے۔ ہمارے دو سابق وزرائے اعظم پر بھی کرپشن کے الزامات میں ریفرنس دائر ہیں لیکن برسوں بعد بھی کارروائی روز اول بنی ہوئی ہے۔ ہوسکتا ہے یہ الزامات غلط ہوں اور الزامات ثابت ہونے تک ملزم کو بے گناہ تو سمجھا جاتا ہے لیکن الزامات لگنے سے ملزم بدنام تو ہوجاتا ہے، اس صورتحال کا ازالہ اس طرح ہی ہوسکتا ہے کہ ہر ریفرنس کے فیصلے کا ایک وقت متعین کیا جائے اور  مقررہ مدت میں فیصلہ سنا دیا جائے اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ملزم اور مجرم کے درمیان جو لامحدود فاصلہ ہے وہ ختم ہوجائے گا۔

کہا جاتا ہے کہ کینسر کا کوئی حتمی علاج اب تک دریافت نہیں ہوا لیکن کینسر کے ماہر ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اگر کینسر ابتدائی اسٹیج میں ہو تو اس کا علاج ممکن ہے۔ کرپشن کا بھی کینسر کی طرح کوئی علاج نہیں یہ دوا دارو سے ختم نہیں ہوتا اسے ختم کرنے کے لیے ایک سخت سرجری کی ضرورت ہے لیکن کرپشن قومی جسم میں اس طرح پھیلا ہوا ہے کہ سخت سے سخت سرجری بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی جسم کے اندر اس کی ایک بھی جڑ باقی رہ جائے تو کینسر دوبارہ پھوٹ پڑتا ہے پھر اس کا علاج ممکن نہیں رہتا۔

کرپشن محض ایک قومی مسئلہ نہیں ہے یہ ایک ایسا خطرناک عالمی مسئلہ ہے جو نہ صرف اقتصادی زندگی کو تہہ و بالا کردیتا ہے بلکہ قوموں کی زندگی گھن کی طرح کھا جاتا ہے۔ اس حوالے سے اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہے اس کا محور کون ہے؟ سرمایہ دارانہ معیشت کی بنیادیں ہی کرپشن پر استوار ہوتی ہیں اور یہ عفریت سرمایہ دارانہ نظام کے جسم میں خون کی طرح دوڑتا رہتا ہے۔ کیا اتنی گہری جڑیں رکھنے والے کینسر کو دوا دارو سے ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے سیاستدان کرپشن کے خلاف سخت اقدامات کی بات کرتے ہیں لیکن جہاں سیاستدان ہی کرپٹ ہوں تو کرپشن کے خلاف ان کا شور ایک عیاری کے علاوہ کچھ نہیں۔

پاناما لیکس میں کئی ملکوں کے سربراہوں کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے پاکستان میں کرپشن کے دیوتاؤں کی تعداد چار سو سے زیادہ ہے لیکن احتساب کو ایک ایسے خاندان تک محدود کردیا گیا ہے جو اس الزام کے جواب عدالتوں میں دینے کے بجائے یہ  موقف اختیارکیے ہوئے ہیں کہ سپریم کورٹ کی طرف سے وزیر اعظم کی نااہلی کو عوام نے مسترد کردیا ہے۔ اس ایک خطرناک کھیل کو جاری رہنے دیا جائے تو ہرکرپٹ سیاستدان  عوام کو سڑکوں پر لاکر یہی موقف دہرائے گا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو عوام نے مسترد کردیا ہے اگر یہ روایت جاری رہتی ہے تو پھر عدالتوں کی ضرورت ہی باقی نہیں رہے گی، کرپشن کے بڑے بڑے کیسوں کے فیصلے سڑکوں پر ہجوم کرنے لگیں گے۔

پاناما لیکس کے شکارکئی ملکوں کے سربراہوں نے نہ عدالتوں کے فیصلوں کو جھٹلایا نہ ایک مجمع اکٹھا کرکے یہ حیران کن اعلان کیا کہ عدالت کے فیصلے کو عوام نے مسترد کردیا ہے۔ اس کھلی  دھاندلی کے بجائے ان سربراہوں نے اپنے عہدوں سے استعفے دے کر قانون اور انصاف کی برتری کو تسلیم کرلیا ہے۔

برسر اقتدار جماعت کے اکابرین کھلے بندوں  فیصلے کو سازش کہتے رہے، یہ الزام ایسا جرم ہے جس کا ارتکاب مسلم لیگ (ن) کے علاوہ کسی جماعت نے نہیں کیا۔ اسے اتفاق کہیں یا حسن اتفاق کہ فیصلے کے خلاف مسلم لیگ (ن) نے ہی باغیانہ روش اختیار کی، اسی جماعت کے دور حکمرانی میں سپریم کورٹ پر حملہ کیا گیا۔ ہماری حکمران جماعت کے اکابرین ہمیشہ قانون اور انصاف کی سربلندی کی باتیں تو کرتے رہے ہیں لیکن عملاً عدلیہ کی توہین اسی جماعت کی طرف سے کی جاتی رہی ہے۔ آج ملک میں کوئی ایسا قومی ادارہ موجود نہیں جس پر اربوں کی کرپشن کے الزامات نہ لگے ہوں۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج تک کسی قومی ادارے کے خلاف ایسی کارروائی نہیں کی گئی جو دوسرے اداروں کے لیے باعث عبرت ہو۔

بڑی کرپشن جن حوالے سے کی جاتی ہے ان میں ایک ترقیاتی کام ہیں دوسرے غیر ملکی امداد اور غیر ملکی بھاری قرض ہے۔ ہمارے ملک میں ہر حکومت ترقیاتی کام کرنے کے دعوے کرتی آرہی ہے لیکن اول تو بجٹ کے مطابق کہیں بھی کوئی کام ہوتا نظر نہیں آتا دوسرے غیر ملکی امداد اور قرض میں بہت بڑے پیمانے پر کرپشن کی جاتی ہے تیسرے غیر ملکی ساز و سامان کی اربوں روپوں کی خریداری میں بھاری کک بیک کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ بھارت میں بھی فوجی ایکوئپمنٹ کی خریداری پر بڑے پیمانے پرکرپشن کی گئی بوفرز توپوں کی خریداری کا اسکینڈل بھارت میں کرپشن کا بہت بڑا اسکینڈل مانا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں جہاں کرپشن کی وبا موجود نہ ہو لیکن پاکستان واحد ملک ہے جہاں اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کو سازش اور عدلیہ پر جانبداری کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔