ہماری جمہوریت

جاوید قاضی  جمعرات 26 اکتوبر 2017
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

جمہوریت کی کئی اقسام ہوتی ہیں۔یہ اپنی تاریخ، اپنے ادوارکا عکس ہوتی ہے۔ مختلف اقوام کے مختلف مزاجوں سے جمہوریت بنتی ہے جو چیزمختلف مزاج کی جمہوریتوں میں یکساں ہوتی ہے وہ یہ کہ ’’رائے کا احترام‘‘ کیا جائے۔ جس رائے سے اکثریت بنے وہ حکومت کرے اور جو رائے اقلیتی ہو،اس کو بھی نگل نہیں سکتے بلکہ اس کے حقوق آئین میں محفوظ ہوتے ہیں، اسی طرح جمہوریت کی گاڑی چلتی جائے۔ سماج اگرکمزور ہو تو جمہوریت بھی مستحکم نہیں ہوتی۔ مشکل یہ ہے کہ جمہوریت کے روح رواں وہ ہیں جو خود اپنی سیاسی پارٹیوں میں جمہوریت کے اقدار کی نفی کرتے ہیں۔ ایسی پارٹیاں بالخصوص پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) خاندانوں کے گرد گھومتی ہیں اور ان خاندانوں کو اتنی بڑی طاقت کسی اور نے نہیں لوگوں نے دی ہے۔ ایسی روایتیں مغرب کی جمہوریتوں میں نہیں پائی جاتیں۔ تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مغرب میں ایسی جمہوریتیں کیوں نہیں اور یہاں ایسی کیوں ہیں؟ فرق ووٹرکی سوچ سے پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے ووٹر اورمغرب کے ووٹر میں معیارکا تضاد ہے۔اس کی سوچ اور اس کا ارتقاء صدیوں پر محیط ہے، وہ ووٹ اپنے بیانیے کی بنیاد پر دیتا ہے نہ کہ ہماری طرح ذات پات، پنچائیت اور برادری کی بنیاد پر۔

مسئلہ ہماری قیادت میں نہیں، ہمارے ووٹرکی سوچ، ہمارے ووٹرکی معاشی حیثیت، اس کی ذات پات اور اس کا برادری رویہ اور اگر زیادہ گہرائی میں جائیں تو شاید مسئلہ ووٹرکا بھی نہیں بلکہ مسئلہ ہمارے معاشر ے اوراس کے طریقہ پیداوار میں ہے جس کو کال مارکس Mode of Production یا Means of Production کہتے تھے۔ ہماری سوسائٹی Homogenic  نہیں بلکہ Hetrogeneous  ہے۔ مختلف زبانوں، ثقافتوں کے لوگ یہاں آباد ہیں ۔ یہ ملک وفاقی اکائیوں پر مبنی ایک ملک ہے اوراس خاص پوائنٹ کی تفصیل میں نہ جاتے ہوئے صرف یہ کہوں گا کہ ہماری جمہوریت دراصل اپنے منطق اور تھیوری کے اعتبار سے وفاقی جمہوریت ہے اور یہی بات ہمارے آئین سے بھی ظاہر ہے۔ وہ ایک الگ عندیہ ہے کہ زمینی حقائق کچھ اور نظر آتے ہیں، لیکن گاڑی چلتی جائے۔

پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں اب کی بار ایک نیا موڑ آیا ہے کہ مارشل لاء تاریخ ہوئی۔ یہاں ہمارے معاشرے کے خدوخال اب بھی مارشل لاء لانے کے لیے واضح گراؤنڈز رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر عزیز ہم وطنو ہو جائے ٹرپل ون بریگیڈ وہ ہی کچھ کرے جو 12 Oct 1999 کوکیا گیا تھا توکیا لوگ سڑکوں پر آئیں گے جس طرح ترکی کے لوگ جمہوریت کو بچانے کے لیے نکلے تھے؟ جواب ہے نہیں، مگر پھرکیا وجہ ہے کہ مارشل لاء پاکستان میں لاگو نہیں ہو رہا ہے، جب کہ سول و ملٹری ریلیشنز میں جو عدم توازن، مشرف کے جانے بعد اب پیدا ہوا ہے، اس کی مثال ہی نہیں۔ مارشل لاء نہ آنے کی ایک وجہ تو یہ بھی ہے کہ ملک میں جو لوگ مارشل لاء لاسکتے ہیں، ان کی سوچ ماضی کے جرنیلوں کی طرح Adventurous نہیں۔ وہ تاریخی اعتبار سے کافی تجربہ کار ہیں۔ ان کے لیے ماضی کے تجربے کافی ہیں جنہوں نے ملکی ساخت کو بے حد نقصان پہنچائے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں مارشل لاء نافذ کرنے میں ہمارا پارٹنر تھا یعنی امریکا۔ اب ہمارے تعلقات ان سے ماضی کے مقابلے میں زیادہ گہرے نہیں اور اب وہ دنیا کا Sole Super Power بھی نہیں اور ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دنیا اب مہذب ہو چکی ہے، جہاں مارشل لاء کو پذیرائی اب نہیں ملتی۔ مارشل لاء اگر پاکستان میں لاگو ہوا تو شاید پاکستان اب دنیا سے Isolate ہوجائے اور پاکستان پر معاشی پابندیاں بھی لگ جائیں۔ 1998 ء کے زمانے میں مانا کہ جرنیل بہت مہم جو تھے جس طرح کہ کارگل کا سانحہ انھوں نےHandle  کیا، مگر مارشل لاء اس وقت بھی نہیں لگا،جب کہ اس وقت مارشل لاء نافذکیا گیا کیونکہ مارشل لاء لگانے والوں سے زیادہ جمہوریت کے رکھوالوں کا قصور تھا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اس وقت جو جمہوریت کمزور نظر آرہی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ جمہوری قیادت ہے جو بہت ہی کمزور ہے، شرجیل میمن سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ عمران خان صحیح کہتے ہیں زرداری نے سندھ حکومت کو ایک مافیا کے انداز میں چلایا ہے۔

متحدہ نے کراچی میں کس انداز سے حکومت کی یا خادم اعلیٰ کی خدمات کا بھی جائزہ لیں تو ماڈل ٹاؤن کا واقعہ سامنے آتا ہے یا SECP کے سابق چیئرمین، میاں نواز شریف کے لیے ریکارڈز میں ردو بدل کررہے تھے وہ کیا تھا؟ جمہوریت کا منشور یہ ہے کہ اداروں کو مضبوط کیا جائے تو جمہوریت کے رکھوالے ہونے کی حیثیت سے میاں نواز شریف اور زرداری نے اداروں کو مضبوط کیا یا ان کو مزید برباد؟ کیا وجہ ہے کہ اس ملک میں آمریت اور جمہوریت اپنی گورننس میں ایک ہی جیسی ہیں کل جو وڈیرے اور سرمایہ دار آمریت کے ساتھ تھے آج وہ ہی سرمایہ دار اور وڈیرے جمہوریت کے ساتھ ہیں۔ ووٹر ہیں کہ ان کا معیار زندگی پست سے پست ہے وہ ہی Mode of Production ہے اور وہ ہی Means of Production ہے جوکال مارکس کہتے تھے۔

مسئلہ سول وملٹری ریلیشنزکا بنیادی طور پر نہیں کیونکہ اگر ریاست ارتقاء کرے گی، سماج میں تبدیلی آئے گی، لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہوگا تو اسٹیبلشمنٹ ثانوی حیثیت اختیارکرے گی اور سول حکومت مضبوط ہوگی۔

فرض کرلیجیے موجودہ سول ملٹری ریلشنزکا Equilibrium  اگر ٹوٹ کر سول حکومت کو مضبوط کردیتا ہے تو کیا ہوگا؟ تو آئین کے دو بڑے ستون پارلیمنٹ اور عدلیہ آپس میں ٹکراؤ میں آجائیں گے جس کی چھوٹی سے مثال ہمیں جنرل جہانگیر کرامت کے دور میں ملتی ہے۔ جس طرح آج کل بنگلہ دیش میں ہو رہا ہے۔ وہاں سول ملٹری ریلیشنزکا کوئی مظہر ہی نہیں۔ وہاں پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو معزول کردیا ان کے ساتھ وہ ہی کچھ ہوا جو یہاں جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ ہوا تھا، ان کے اپنے ججز ہی بغاوت کر بیٹھے، بنگلہ دیش کے بارے میں ایک بات اور بھی کہتا چلوں کہ وہاں کی سوسائٹی Homogenic ہے اور وہاں وفاقی جمہوریت کا وجود نہیں۔ وہاں کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے آئین کے بنیادی ڈھانچے کی بات کی، بنگلہ دیش کا آئین دنیا کا واحد آئین ہے جس میں بنیادی ڈھانچہ Expressly  موجود ہے، جب کہ امریکا، پاکستان اور ہندوستان کے آئین میں بنیادی ڈھانچہ Impliedly  موجود ہے۔

ہماری جمہوریت کے رکھوالے آج بھی یہ کہتے ہیں کہ ہمارے نظام میں آئین سپریم نہیں بلکہ پارلیمنٹ سپریم ہے۔ ہماری جمہوریت کے سب سے بڑے لیڈر پاکستان کی تین اکائیوں میں زیرو اور پنجاب میں بھی سینٹرل پنجاب میں ہیرو ہیں۔ سینٹرل پنجاب میں بھی انھوں نے ایک مخصوص بیانیہNarrative  بنایا ہے۔ ان کے لیے مشکل یہ ہے وہ وہاں سے بھرپور ووٹ تو لے سکتے ہیں مگر اگر تحریک چلائیں تو شاید اتنے لوگ بھی جمع نہ ہوں جتنے وکلاء نے اپنی تحریک میں جمع کیے۔ ملٹری ریلیشنز میں اپنا پلڑا بھاری کرنے کے لیے اتنا بڑا Adventure کرنے کی کیا ضرورت تھی جب لوگوں کو اکٹھا نہیں کرسکتے تھے، الٹا لینے کے دینے پڑگئے۔ بیٹھتے ہیں پیرزادوں کے ساتھ اور باتیں کرتے ہیں چی گویرا جیسی۔ ان کی سمجھ کے لیے اتنا کافی ہے کہ جمہوریت مضبوط ہوگی معاشرے کی ارتقاء سے، ووٹرکی سوچ کی تبدیلی سے، ان کے معیار زندگی بلند ہونے سے، ووٹ کے بیانیے کی بنیاد سے غرض یہ کہ Mode of Production  اور Means of Production  کے معیار بہتر کرنے سے جس طرح کارل مارکس کہتے تھے۔

اور گاڑی چلتی جائے…

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔