جمہوریت کی برکتیں

رئیس فاطمہ  ہفتہ 2 مارچ 2013

کیا یہ المیہ نہیں ہے کہ تقسیم کے کچھ ہی عرصے بعد لوگ انگریز کے دور کو یاد کرنے لگے تھے؟ اور آج برملا سنجیدہ حلقوں میں یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کیوں بنایا گیا تھا؟ آج ایک طرف مولانا ابوالکلام آزاد کا خطبہ زیر بحث ہے تو دوسری جانب برطانوی وزیر اعظم سر ونسٹن چرچل کی تقریر کے بعض اقتباسات بھی سامنے ہیں۔ ذرا اس اقتباس پر غور کیجیے۔

’’پاکستان کے تمام لیڈر انتہائی معمولی صلاحیتوں کے حامل ہوں گے اور ان کے دماغوں میں بھس بھرا ہوگا، ان کی زبانیں میٹھی لیکن دلوں میں زہر ہو گا، وہ اقتدار کے حصول کی خاطر ایک دوسرے سے گتھم گتھا رہیں گے، دونوں ملکوں کے درمیان سیاسی جھگڑے ہوتے رہیں گے، ایک دن وہ بھی آئے گا جب ہوا اور پانی پر بھی ٹیکس عائد کر دیا جائے گا۔‘‘

ایسا لگتا ہے جیسے چرچل نے پاکستان کا مستقبل پڑھ لیا تھا، اس اقتباس کا ایک ایک حرف درست ہے۔ کیسی بدقسمتی ہے کہ انگریز نے جب برصغیر میں اقتدار سنبھالا تو اس نے تعمیری کام کیے۔ ریلوے، ڈاک کا نظام، سڑکیں، اسپتال، تعلیمی ادارے اور سب سے بڑھ کر انصاف اور قانون کی حکمرانی، میرٹ پر عملدرآمد۔ انگریز کے دور میں قابل آدمی اپنی ذاتی صلاحیت اور قابلیت کی بنا پر کوئی بھی نوکری حاصل کر سکتا تھا جب کہ آزاد پاکستان میں سفارش اور رشوت کے بغیر کسی بھی ادارے میں نوکری ملنا محال ہے۔ ہماری حکومتوں نے کیا کیا؟ ہے کوئی جواب کسی کے پاس؟ سوائے ذاتی تشہیر، اقربا پروری اور میرٹ کے قتل عام کے ؟ غالبؔ نے کہا تھا:

بنا ہے عیش تجمل حسین خاں کے لیے

پتہ نہیں یہ تجمل حسین خاں کون تھے جن کے عیش پر غالبؔ کو رشک آتا تھا جب کہ آج پاکستان میں اقتدار کے ایوانوں میں نجانے کتنے ایسے تجمل حسین خاں ہیں جو شہہ کے مصاحب بنے پھرتے ہیں اور سر پر ہما کے پر کی کلغی بھی لگاتے ہیں۔ جن کے شاہانہ جلووں اور جلوسوں کے لیے شاہراہیں بند کر دی جاتی ہیں، ان کی آمد و رفت پر شہر میں سناٹا چھا جاتا ہے، پرندہ پر نہیں مار سکتا، اس عارضی اور دکھاوے کے نقلی انتظامات پر ان کے اندر کا چنگیز اور ہلاکو پھولے نہیں سماتا، لیکن جونہی سر پر لگا نقلی پر اور کلغی چھین لی جاتی ہے تو شہرت کے غبارے میں سے بھی ہوا نکل جاتی ہے ’’پھرتے ہیں میرؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں‘‘ والی کیفیت ہو جاتی ہے۔ انھیں اپنے اپنے دور اقتدار میں یہ بھی خیال نہیں آتا کہ کوئی ایسا کام کر کے چلیں کہ بعد میں لوگ انھیں اچھے الفاط میں یاد کریں، خواجہ میر دردؔ نے کیا خواب کہا ہے کہ:

بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو
ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو

لیکن یہاں ایسی کوئی روایت نہیں ہے،۔ ایک دفعہ دوران لیکچر میری ایک اسٹوڈنٹ نے سوال کیا کہ اگر برصغیر میں انگریز نہ آتے تو کیا ہوتا؟ تب میں نے کہا تھا کہ تاریکی ہمارا مقدر ہوتی، ریلوے نہ ہوتی، ہوائی جہاز اور پانی کے جہاز نہ ہوتے، کاریں نہ ہوتیں، سلائی کی مشینیں نہ ہوتی، صوفہ سیٹ اور ڈائننگ ٹیبل نہ ہوتی، کالج نہ ہوتے، یونیورسٹیاں نہ ہوتیں، اسپتال نہ ہوتے، سائیکل نہ ہوتی، چھاپہ خانہ نہ ہوتا، کتابیں نہ ہوتیں، دوائیں نہ ہوتیں۔ آج ہم آزادی کی نعمت سے اس طرح مالا مال ہیں کہ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

ہم نے کبھی کوئی ایسا لیڈر اس عرصے میں نہ دیکھا، جس نے تخلیقی ذہن رکھنے والوں کی پذیرائی کی ہو، انجینئروں اور سائنس دانوں کی حوصلہ افزائی کی ہو تا کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر کچھ کر کے دکھا سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے بعد بھی ہم انھی یہود و نصاریٰ کے ہر میدان میں محتاج ہیں۔ اسپرین سے لے کر DNA تک اور پیراسیٹا مول سے لے کر دل کے پیچیدہ آپریشن تک سب انھی کا دیا ہوا ہے۔ ان کے لیے ڈی این اے بھی پرانی بات ہو گئی اور ہم ابھی تک پولیو کے قطروں کی افادیت کو تسلیم کرنے کے بجائے معذور نسلیں پیدا کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔

کل تک کوئی سوچ سکتا تھا کہ کمپیوٹر اور موبائل فونز چنوں کی طرح دکانوں پر بکیں گے؟ ہم ان سے استفادہ تو کرتے ہیں، لیکن انھیں تسلیم نہیں کرتے کہ ضد، ہٹ دھرمی اور تعصب ہمیں برباد کر رہا ہے، ہم بڑے فخر سے ان غیر مسلموں کے نام اور حالات زندگی اخبارات میں شائع کرتے ہیں جو اپنا آبائی مذہب تبدیل کر کے مسلمان ہو گئے، لیکن کیا ہم ان مسلمانوں کا ذکر بھی اسی طرح کریں گے جنھوں نے اپنا مذہب یا مسلک اپنی مرضی سے بدلا ہو؟ کبھی نہیں۔ہو سکتا ہے میری یہ بات بہت سے لوگوں کو بہت بری لگے، لیکن میں معذرت کے ساتھ یہ پوچھنے پر مجبور ہوں کہ اس تضاد کا کیا جواز ہے؟ شاید اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ سوائے یہ کہنے کے کہ ’’الحمد اللہ ہم مسلمان ہیں‘‘ مگر کیسے مسلمان؟ جو اپنے نفع کے لیے اپنے ہی ہم مذہبوں کو گلی سڑی اشیاء بیچتا ہے، ایکسپائری ڈیٹ کی دوائیں نیا لیبل لگا کر دھڑلے سے بیچتا ہے۔

خوش قسمت تھی وہ نسل جس نے انگریز کا دور دیکھا، انصاف دیکھا، میرٹ پر عملدرآمد دیکھا۔ آج ان میں سے چند ایک ہی بچے ہوں گے، لیکن ان کے بچے زندہ ہیں جنھوں نے اپنے والدین سے اس دور کے حالات سنے کہ جب کسی کی مجال نہ تھی کہ دودھ میں پانی ملائے، آج تو پانی کے علاوہ کیا کچھ ملایا جا رہا ہے، یہ کوئی پوشیدہ راز نہیں۔ کہتے ہیں کہ الیکشن ہوں گے، ہونے چاہئیں، لیکن پھر کیا ہو گا؟ کیا فرشتہ صفت لوگ آ کر باگ ڈور سنبھالیں گے؟ کیا اس ملک کے دیمک زدہ سسٹم میں کسی مڈل کلاس ایماندار انسان کی گنجائش ہے؟ نام نہاد مڈل کلاس لیڈر شپ نے ملک کے سب سے بڑے شہر میں کیا گل کھلائے ہیں؟ ہلاکتوں کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو! یقیناً بعض کا پر شور جواب ’’نہیں‘‘ میں ہوگا۔ تو پھر بھول جائیے سب کچھ اور جمہوریت کی ڈگڈگی بجانے والوں پر بھی ترس کھایئے کہ ان کے بس میں صرف اتنا ہی ہے کہ جمہوریت کی ’’برکتوں‘‘ سے عوام کو گاہے گاہے آگاہ کرتے رہیں اور دماغوں میں یہ بٹھاتے رہیں کہ اگر الیکشن نہیں ہوئے اور جمہوریت کی بساط لپیٹ دی گئی تو اندھیرا ہو جائے گا۔

حسن بن صباح کی بنائی ہوئی جنت جس میں ہم سب سانس لے رہے ہیں وہ ہم سے چھن جائے گی۔ آج جو اصلی دودھ، دہی، اشیائے خورونوش ہم کو سستے داموں اور وافر مل رہی ہیں وہ غائب ہو جائیں گی، آج جمہوریت کی لاتعداد ’’برکتوں‘‘ کی بدولت جو ہم روشنیوں میں جی رہے ہیں راجہ جی کی بدولت وہ سب پلک جھپکتے ختم ہو جائے گا۔ میرٹ کا جو پیمانہ آج ہے اگر الیکشن نہ ہوئے تو وہ بھی غائب ہو جائے گا۔ یہ جمہوریت ہی کی برکتیں ہیں کہ کوئی شخص آج بے روزگار نہیں ہے۔ شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پانی پیتے ہیں، لوگوں میں بھائی چارہ ہے، اخوت ہے، ایسی اخوت جس نے رسول اللہؐ کے زمانے کی یاد تازہ کر دی کہ مہاجر و انصار کا اتحاد اور محبت مثالی تھا۔ وہی آج بھی ہر جگہ نظر آ رہا ہے۔ ایک سکون، امن اور خوشحالی جس سے پاکستان آج دوچار ہے، صرف جمہوریت کا ثمر ہے اور ایسی ہی جمہوریت کا خواب ہمیں سفید محل والے نے بھی دکھایا ہے، جس پر قلعہ بند بادشاہ عمل پیرا ہے، جمہوریت زندہ باد!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔