مظلوم کشمیریوں کا یومِ سیاہ

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 27 اکتوبر 2017
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

پورے 70سال قبل، 27اکتوبر1947ء کو ، بھارت نے جعلسازی کرکے کشمیر پر قبضہ کر لیا تھا۔ پاکستان کو بنے ابھی دو ڈھائی ماہ ہی ہُوئے تھے اور کشمیر جنّت نظیر کا فیصلہ ہونا باقی تھا کہ نہرو اور پٹیل نے کشمیری مہاراجہ (ہری سنگھ) سے ساز باز کرکے اور اُس پر بے پناہ فوجی اور سیاسی دباؤ ڈال کر کشمیر پر قبضہ کر لیا۔ اس سے پہلے ہندو قیادت نے انگریزوں سے مل کر ضلع گورداسپور کو بھی بھارت میں شامل کر لیا تھا حالانکہ اصولاً گورداسپور پر پاکستان کا حق تھا۔ گورداسپور پر قبضہ بنیئے کے وسیع تر منصوبے کا حصہ تھا کہ اِسی ضلعے کے ذریعے کشمیر تک پہنچا جا سکتا ہے۔ ستائیس اکتوبر کی رات بھارت نے سری نگر میں ، ڈکوٹا ہوائی جہازوں کے ذریعے، اپنی فوجیں اُتار دی تھیں۔

بھارت کا دعویٰ ہے کہ کشمیری مہاراجہ نے کشمیر کو بھارت میں شامل کرنے کی باقاعدہ درخواست کی تھی۔ اس ضمن میں بھارت دنیا کو مہاراجہ کی دستخط شدہ ایک دستاویز بھی دکھاتا ہے لیکن سب جانتے ہیں یہ جعلی ہے ۔27اکتوبر سے ایک دن پہلے مہاراجہ تو سری نگر سے فرار ہو کر اپنے خاندان سمیت جموں آچکا تھا۔ کشمیری لیڈرشیخ محمد عبداللہ کی لکھی گئی ’’آتشِ چنار‘‘ سمیت جتنے بھی منصف مزاج لوگوں نے کشمیر کے موضوع پر کتابیں لکھی ہیں، سب گواہی دیتے ہیں کہ بھارت نے فوجی طاقت اور فراڈ سے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کیا تھا۔بھارت مگر ڈھٹائی سے مانتا نہیں۔ وہ مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے از خود اقوامِ متحدہ بھی گیا کیونکہ اُس وقت وہ کشمیر میں شکست کھا رہا تھا۔ مگر جونہی دباؤ کم ہُوا ، وہ کشمیر پر بات چیت سے مُکر گیا۔ اب تک مسلسل مُکرتا اور کشمیریوں سے دغا بازیاں کرتا چلا آرہا ہے ۔

مظلوم کشمیری پچھلے سات عشروں سے مسلسل غاصب ہندوؤں کے خلاف یومِ سیاہ مناتے چلے آرہے ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ کشمیریوں پر تنی سیاہ رات کا سویرا نہیں ہو رہا۔ اُن کے لیے تو دن کے اُجالے بھی دھندلے ہیں۔ گذشتہ دو تین برسوں کے دوران مقبوضہ کشمیر میں بھارتی غاصب افواج نے اہلِ کشمیر کے جوانوں، خواتین، بچوں اور عمررسیدہ افراد پر پیلٹ بندوقوں سے اتنی گولیاں چلائی ہیں کہ سیکڑوں کشمیری آنکھیں کھو بیٹھے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ، پیلٹ بندوقوں سے مجروح ہو کر بینائی سے محروم ہونے والے کشمیریوں کی تعداد تین ہزار سے تجاوز کر چکی ہے(بھارتی حکومت یہ تعداد 1600بتاتی ہے) بینائی سے محروم ہونے والے اِن مظلوم اور مقہور کشمیریوں کے لیے اب ہر دن اور ہر رات ایک مستقل تاریکی کا نام ہے۔ اور دُنیا ہے کہ ان کشمیریوں کی بیچارگی اور بھارت کی ستمرانیوں پر مہر بلب ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں جنم لینے والے نئے انتفادہ نے، بھارتی ظلم وجَور کے خلاف، ایک بغاوت کی شکل اختیار کر لی ہے۔ کشمیری مجاہد برہان مظفر وانی کی(بھارتی فوج کے ہاتھوں) شہادت کے بعد تو ایک ایسی بے مثال لہر اُٹھی ہے جس نے قابض بھارتی فورسز کو بھی ششدر کردیا ہے۔

نوجوان کشمیری جان ہتھیلی پر رکھ کر نکلتے ہیں اور نہائیت بے  سروسامانی کی کیفیت میں غاصبوں ، قابضوں اور ظالموں سے بھِڑ جاتے ہیں۔ نریندر مودی نے اپنے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ اور مشیرِ سلامتی اجیت ڈوول کے مشوروں پر عمل کرتے ہُوئے سوچا تھا کہ کشمیریوں کا مزید خون بہا کر آزادی کی سرکش لہر کو بآسانی دبایا جاسکے گا۔ مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی سے بھی بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے بار بار اعلان کروایا کہ کشمیر میں بھارت کے خلاف بندوق اُٹھانے والوں کی تعداد محض دو تین سو رہ گئی ہے جن کا خاتمہ کوئی بڑی مہم نہیں ہے۔

ساڑھے تین سال کا عرصہ گزرنے کے بعد اب بھارتی اسٹیبلشمنٹ، بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور بھارتی حکمرانوں کو یہ دیکھ دیکھ کر ہَول اُٹھ رہا ہے کہ کشمیر میں بھارت سے آزادی کا مطلق مطالبہ کرنے والوں کے بارے میں اُن کے لگائے گئے سارے اندازے غلط ثابت ہُوئے ہیں۔ یہ کشمیریوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ تین دن پہلے بھارت کو کشمیری حریت پسندوں سے مذاکرات کے لیے اپنا نیا نمایندہ(دینشور شرما) مقرر کرنا پڑا ہے، حالانکہ مودی حکومت پچھلے ساڑھے تین سال سے مسلسل کہتی چلی آرہی تھی کہ آزادی پسند کشمیریوں سے مذاکرات ہو ہی نہیں سکتے۔

اب تو بھارت کے اندر ہی سے آوازیں اُٹھنے لگی ہیں کہ نریندر مودی کی قیادت میں کشمیریوں کے خلاف جو بھی اقدامات کیے گئے ہیں، وہ سب چونکہ متعصبانہ تھے، اس لیے ان کے نتائج بھی یہی نکلنا تھا جو نکل رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ممتاز بھارتی اخبار’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ کی معروف تجزیہ کار ، ساگا ریکا گھوش، نے اپنے مفصل آرٹیکل میں یہ لکھا ہے کہ ’’ کشمیر اس وقت عملی معنوں میں بھارتی فوجوں کا کنٹونمنٹ بن چکا ہے۔

مودی کی قیادت میں بھارت اس وقت خالصتاً ایک ہندو ریاست ہے اور سیکولرازم کا پرندہ بھارتی سرزمین سے پرواز کر چکا ہے۔ موجودہ حالات میں (مقبوضہ)کشمیر جس طرح جوش کھا رہا ہے،یہ حالات دراصل ثابت کررہے ہیں کہ محمد علی جناح کا دوقومی نظریہ ٹھیک تھا ۔‘‘ایک اور بھارتی ا خبار نویس، سنتوش بھارتیہ، نے اخبار ’’رائزنگ کشمیر‘‘ میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے نام لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ’’(مقبوضہ) کشمیر اگرچہ ارضی اور جغرافیائی طور پر بھارت کے ساتھ ہے لیکن کشمیری عوام بھارت کے ساتھ نہیں ہیں۔‘‘

بھارتی خفیہ ادارے’’را‘‘ کے سابق سربراہ اے ایس دُولت نے کشمیریوں کی جدوجہد اور بھارتی فوج کے مقابل اُن کی تازہ ترین سرفروشیوں کے پس منظر میں یوں اعتراف کیا ہے :’’کشمیری نوجوانوں کا (بھارت کے خلاف) غصہ اُبل رہا ہے۔ وہ ہم سے بہت دُور جا چکے ہیں۔ اب کشمیری نوجوان (بھارتی تشدد اور ظلم سے) ڈرتے ہیں نہ موت سے خوف کھاتے ہیں۔ کشمیر کے دیہاتی، شہری، طلبا وطالبات،اور حتیٰ کہ خواتین بھی (بھارت کے خلاف) سڑکوں اور گلیوں میں نکل کر دیوانہ وار مظاہرے کررہے ہیں۔اِس طرح کے مناظر ماضی میں کبھی ظہور پذیر نہیں ہُوئے تھے۔‘‘بھارتی خفیہ ادارے کے سابق سربراہ کا یہ اعترافِ حقیقت بھی اس امر کا مظہر ہے کہ کشمیری تو ہر روز ہی بھارت کے خلاف یومِ سیاہ منا رہے ہیں۔ یہ صرف 27اکتوبر کا نام نہیں رہ گیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔