گفتم، شنیدم، برخواستم

فریدہ فرحت آغازئی  جمعـء 27 اکتوبر 2017

لاہور جانے کا اتفاق ہوا۔ کافی  برس  بیتے پہلے گئی تھی۔ اس لیے شہر پورا ہی بہت مختلف لگا۔ خوبصورت سڑکوں کے جال پھیلے ہوئے تھے اور دونوں اطراف رنگ برنگے پھولوں سے سارا ماحول سجا ہوا تھا اور کوئی ایک علاقہ نہیں سارا ہی شہر منہ سے بول رہا تھا کہ خاصے فنڈ اس شہر کے لیے مختص ہیں۔ یعنی کرپشن بھی ہو رہی ہے مگر فلاح و بہبود پر بھی پیسہ لگ رہا ہے اور لاہور ہی کیوں سارا ہی پنجاب وفاق کی مہربانی سے خوب خوب نوازا گیا ہے اور قدرت نے بھی اپنا کرم شامل حال رکھا ہے وہاں کے حکمرانوں کی اس خوبی کی میں معترف ہوں کہ ہرا بھرا پنجاب کا وہ نعرہ ایسے ہی نہیں لگاتے۔ عملی اقدامات ہی ان کو کامیابی سے ہمکنارکرتے ہیں۔

پھر بات ہوتی ہے گریٹر پنجاب کی اور یہ وہی لوگ کرتے ہیں جنھوں نے کراچی کے لیے علیحدگی کے فتنے کی آبیاری کی۔ کراچی حقیقت میں عملی طور پر اکیلے پن کا شکارکر دیا گیا ہے۔ ملک کے سب سے بڑے شہر میں آپ داخل ہوں تو وہ تاثر مفقود ہے جو اتنے بڑے اور اہم شہرکا ہونا چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صوبائی حکومت اس بار کافی  اقدامات کر رہی ہے مگر پرانے سسٹم کی نااہلیت حالات کو حسب ضرورت رفتار سے لے کر نہیں چل رہی۔

ایئرپورٹ سے کراچی میں داخل ہوتے ہوئے یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ یہ ملک کا سب سے بڑا اور روشنیوں کا شہر ہے۔ کیا اس صوبے خاص طور پر کراچی کی تزئین و آرائش کے لیے ہمیں رقوم نہیں ملتی ہیں؟ کم یا زیادہ کی بحث سے ماسوا ہوکر بتائیں۔ سندھ گورنمنٹ اور وفاق کو مل کر اس کا کوئی معقول حل نکالنا ہوگا۔ وفاق کو تعصب کی عینک اتارنی ہوگی اور صوبائی حکومت کو اپنے شہر اور صوبے کا حق لینا ہوگا۔ گریٹر پنجاب کے بجائے گریٹ پاکستان کا نعرہ بلند کرنا ہوگا۔ نہ صرف وفاق سے بلکہ اندرونی طور پر بھی صوبائی کمائی اور فنڈز کو صحیح مد میں نہ صرف خرچ کیا جائے بلکہ وہ نظر بھی آئے۔

لوگ آواز تو اٹھا رہے ہیں اپنے اپنے طور پر ۔ مردم شماری کے ہی حوالے سے جو تحفظات عوام اور سیاسی پارٹیوں میں پایا جا رہا ہے کہ اگر کراچی کی آبادی کم ظاہر کی جائے گی تو کم آبادی کے حساب سے ہی فنڈزکا کوٹہ بھی مختص کیا جائے گا اور یہ بالکل درست بات ہے۔ علی رضا عابدی کے بیان پرکافی ردعمل سامنے آیا کہ کچرے سے کیسے آبادی کا تخمینہ لگایا جاتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ بات ان کی بالکل درست ہے بلکہ تشویش تو اس بات پر ہونی چاہیے کہ کچرے سے اگر آبادی کا حساب لگ سکتا ہے تب بھی لاہور اور اسلام آباد جیسے شہروں سے کراچی کا کیا مقابلہ کیوں کہ یہاں تو کچرا ڈھنگ سے اٹھایا بھی نہیں جاتا۔

لوگ بہرحال آواز اٹھا رہے ہیں۔ اس آواز کو اب سننے کی  ضرورت ہے۔ وفاق اگر نظر کرم نہیں کرتا تو سندھ گورنمنٹ عملی اقدامات کرے۔ مراد علی شاہ کے حوالے سے بہت پاور فل کابینہ بنی ہے اور وہ لوگ کام بھی کر رہے ہیں۔

سندھ گورنمنٹ سے میری مودبانہ گزارش ہے کہ اس دھرتی کی طرف خاص توجہ دیں۔ یہ بھی پاکستان کا ہی حصہ ہے۔ اس کی ترقی اور خوشحالی کو یقینی بنائیں۔ ابھی اکتوبر میں ہی تمام سیاسی جماعتوں نے مردم شماری کے حوالے سے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ پاسبان کا کہنا ہے کہ مردم شماری میں کراچی کے ساتھ کھلی دھاندلی ہوئی ہے۔ پاک سرزمین پارٹی نے نتائج مسترد کرتے ہوئے کہا کہ مشرف کے دور میں کراچی میں اٹھارہ ٹاؤن بنائے گئے تھے جن کے مطابق کراچی کی مجموعی آبادی 2 کروڑ سے زائد تھی۔ جب کہ نئے اعداد و شمار کے مطابق صرف ایک کروڑ 40 لاکھ بھی نہیں ایسا کس طرح ممکن ہے۔ عام لوگ اتحاد پارٹی، مہاجر قومی موومنٹ، مہاجر اتحاد تحریک، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم، سب ہی نے اس مردم شماری کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ تقابلی جائزہ بھی پیش کیا۔ اور 3 کروڑ کے لگ بھگ آبادی کا تخمینہ بھی لگایا گیا۔

کیا سیاسی جماعتیں اعتراض برائے اعتراض کرتی ہیں؟ یا اس میں کوئی سچائی بھی ہوتی ہے؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ ہمیں انفرادی طور پر بھی اعتراض کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ کیونکہ معاملات شفاف اور منصفانہ نہیں ہوتے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ حکمران طبقہ صوبے کے جائز حقوق حاصل کرنے میں یا تو ناکام رہتا ہے یا اس کی سعی نہیں کرتا۔ اور وفاق کے ترازو کے باٹ اتفاق ملز میں بنتے ہیں۔ تاریخ بہت سفاکی سے سب سچ لکھے گی۔ ہوسکتا ہے دولت کے بل پر اپنی مرضی کی تاریخ بھی لکھوا لی جائے۔ مگر ایک کاتب اور منصف اعلیٰ جو سب ہی کا حساب لکھ رہا ہے وہ سب سچ سچ ہی لکھتا ہے۔

2017ء کی مردم شماری کے مطابق اگر رقبے اور آبادی کا جائزہ لیا جائے تو وکی پیڈیا کے مطابق لاہور کا کل رقبہ (212 Sq Miles) 550 KM اور مکمل آبادی 11,126,285 بتائی گئی ہے جب کہ کراچی کا کل رقبہ 3,780 KM یعنی 14603 SQ Miles ہے جوکہ لاہور شہر سے 6.8 یعنی تقریباً 7 گنا زیادہ ہے اور مردم شماری کے نتائج کے مطابق 14,910,352 ظاہر کیا جا رہا ہے جو پہلے کے اعداد و شمار سے بہت کم ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آبادی بجائے بڑھنے کے کم ہو رہی ہے؟ اور سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ لاہور سے 7 گنا بڑے شہر میں وہاں کے مساوی آبادی ظاہر کرنے کا مقصد کیا ہے؟ جب کہ کراچی ایک گنجان آباد شہر ہے جہاں روزانہ کی بنیادوں پر دوسرے صوبوں سے نقل مکانی کا سلسلہ جاری و ساری ہے کوئی روک تھام ہے نہ کوئی قانون۔ یہ شہر بلاتفریق ہر گوشۂ پاکستان کے لوگوں کا مسکن بن جاتا ہے۔ اور بڑے دل والے اس بڑے شہر کا وہ حال ہے کے دور بہت دور وفاق کو نہ یہاں کے مسائل سے سروکار ہے اور نہ اس کی بہتری اور ترقی سے کوئی لینا دینا ہے۔

کراچی کی آبادی تقریباً نصف دکھانے کا مقصد سب جانتے ہیں۔ صرف ایک علاقے کی بات کروں گی۔ کورنگی دنیا کی سب سے بڑی کچی آبادی بننے جا رہی ہے۔ وجہ؟ کیونکہ وہاں نہ تعلیم ہے نہ ہی لوگوں کو روزگار میسر ہے۔اور نہ ہی مناسب خوراک ان کو نصیب ہے۔ جب آبادی کم دکھائی جائے گی تو روز گارکے مواقعے بھی کم ہی ہوں گے اور باقی کے افراد روزگار کے بغیر یا تو بھیک مانگیں گے یا برائی کی راہ پر چل پڑیں گے۔

سوچنے کا مقام ہے بلکہ عبرت کا مقام ہے کہ جب آیندہ دس سال بعد پھر مردم شماری ہوگی تب ملک کی ایک پوری نسل تباہی کے گڑھے میں گر چکی ہوگی۔ اور اس خوش فہمی میں، میں اور آپ نہ رہیں گے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا اور ہم بس آواز اٹھا کر اپنے فرض سے بری الذمہ ہوجائیں گے۔ جی نہیں! بلکہ آج جو لوٹ مار اور گن پوائنٹ پر وارداتیں ہو رہی ہیں اس سے دس بیس گنا زیادہ بری صورتحال ہوگی اور نہ جانے کس کس کو اس صورتحال کا شکار بنائے گی۔ بہت بربادی دیکھ لی عوام نے بھی اور ارباب اقتدار نے بھی۔ اب بھی نہیں سنبھلے تو بہت بڑی تباہی کا سامنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔