میڈیا پر مغربی دانشوروں کی تنقید

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  جمعـء 27 اکتوبر 2017
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

میڈیا کے تمام ہی اداروںکا یہ موقف ہے کہ وہ بڑی شفافیت، غیرجانبداری اور صحافتی اصولوں کے مطابق عوام تک اطلاعات اور ہر قسم کے پروگرام پہنچا رہے ہیں۔ ماڈرن ورلڈ کے اس دور میں لوگ بھی بظاہر یہی سمجھتے ہیں کہ میڈیا بہت حد تک آزاد اور غیر جانبدار ہے اور میرٹ کے مطابق اپنے پروگرام پیش کررہا ہے۔

عموماً آزادی کے تصور سے یہ مطلب لیا جاتا ہے کہ کسی میڈیا کے ادارے پر حکومتوں کی جانب سے کوئی دباؤ وغیرہ تو نہیں ہے یا معاشرے کے مختلف پریشرگروپوں کی جانب سے کوئی ایسا دباؤ تو نہیں ہے کہ جس سے میڈیا عوام تک شفافیت اور آزادی کے ساتھ اطلاعات نہ پہنچا رہا ہو۔ دنیا بھر کے صحافی حضرات بھی اس سلسلے میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور جیسے ہی کسی بھی جگہ کوئی دباؤ محسوس ہو تو اس پر احتجاج بھی کیا جاتا ہے، لیکن میڈیا کی آزادی کا یہ وہ پہلو ہے جو سامنے کی جانب ہے۔

میڈیا کے کام کرنے کے عمل (پروسس) میں ایک ایسا چھپا ہوا جبر بھی ہے کہ جس سے میڈیا کی آزادی بہت حد تک متاثر ہورہی ہے اور اتنے مضبوط طریقے سے ہورہی ہے کہ مستند، نامور، ایماندار اور اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرنے والے صحافی بھی بے بس نظر آتے ہیں اور وہ کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔ کئی نامور صحافی اس کا اظہار بھی کرچکے ہیں۔ کیا ہماری نظر اس طرف بھی ہے کہ جہاں میڈیا کے اس سارے پروسس یا نظام میں خود میڈیا کی اپنی آزادی اور میرٹ بھی سلب ہوتی ہے اور وہ بھی ہنسی خوشی یا رضامندی کے ساتھ؟

مغرب کے بعض ماہرین اور دانشوروں کی رائے پر نظر ڈالیں تو وہ بھی میڈیا کے پروسس میں چھپے ہوئے اس جبر پر سخت نالاں نظر آتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ میڈیا آزاد نہیں ہے اور نہ ہی وہ معاشرے کے لیے کوئی اہم خدمت انجام دے رہا ہے۔ معروف دانشور نوم چومسکی اور ایڈورڈ ہرمن نے اپنی کتاب ’’Manufacturing Consent: The Political Economy of the Media ‘‘ میں اس جانب توجہ دلائی ہے کہ معاشرے کے طاقتور لوگ میڈیا کے ذریعے خیالات اور سنجیدہ گفتگو کا رخ متعین کرتے ہیں، ان کی مرضی سے ہی یہ طے کیا جاتا ہے کہ معاشرے کے رہنے والے عام لوگوں کو کس قسم کے موضوعات غور وفکر کے لیے دیے جائیں یا کیا دکھایا اور بتایا جائے۔

بڑے بڑے بینکس، تجارتی ادارے، صنعتیں اور اشتہاری ادارے وغیرہ سب کے سب میڈیا کے مشتملات (contents) کنٹرول کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں معاشرے کی ثقافت عامہ بھی ان ہی کی مرضی سے بنتی ہے۔ میڈیا کے ذریعے یہ ادارے رائے عامہ کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالتے ہیں۔ بقول نوم چومسکی اور ہرمن امریکن نیوز میڈیا حقیقت میں پروپیگنڈا مہم چلاتے ہیں، جب کہ بڑے اشتہاری ادارے لائسنس دینے والے ادارے کے طور پر کام کرتے ہیں۔

یوں دیکھا جائے تو نوم چومسکی اور ایڈورڈ ہرمن نے اپنی کتاب میں میڈیا کا پول کھول کر رکھ  دیا ہے کہ کس طرح یہ میڈیا معاشرے اور معیشت کو کنٹرول کیے ہوئے ہے، جس کا ایک عام امریکی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ کم و بیش یہی صورتحال پوری دنیا میں چھائی ہوئی ہے۔

میڈیا کا یہ پہلو جو نظروں سے اوجھل رہتا ہے برسوں سے چل رہا ہے۔ کچھ اسی قسم کے حقائق سے آگہی کے بعد کارل مارکس نے بھی میڈیا کے اس پہلو پر سخت تنقید کی تھی، کارل مارکس کے یہ خیالات ’’ذرایع ابلاغ کا مارکسی نظریہ‘‘ کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔ کارل مارکس کا کہنا ہے کہ دنیا میں سرمایہ داری کا نظام ایک ظالمانہ نظام ہے جس میں سرمایہ دار طبقہ، عام طبقے کا استحصال کرتا ہے اور میڈیا اس کا بھرپور ساتھ دیتا ہے۔ کارل مارکس کا خیال ہے کہ سرمایہ دار اس قدر مضبوط ہیں کہ میڈیا ان کے خلاف کچھ نہیں کرتا اور نہ ہی کچھ کرسکتا ہے، بلکہ وہ سرمایہ داروں کی فرمانبرداری کرتا ہے۔

کارل مارکس کا یہ بھی کہنا ہے کہ میڈیا کے مشتملات (contents) کو سرمایہ دار طبقہ اپنے کنٹرول میں رکھتا ہے، میڈیا اپنے آپ کو غیر جانبدار رکھنے کا دعویٰ کرتا ہے مگر حقیقت میں میڈیا سیاسی، معاشی اور معاشرتی مشتملات میں سرمایہ دارانہ طبقے کے زیر اثر ہے، چنانچہ میڈیا ایک ایسی سوچ کو بڑھاتا ہے جس سے استحصالی نظام کو تقویت ملتی ہے۔

مارکس کے ان نظریات کے بعد جدیدی مارکسی (Neo-Marxist) نے بھی میڈیا پر تنقید کی اور میڈیا کے بعض پہلوؤں پر اور بھی سخت تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میڈیا ایک ایسی ثقافت پیدا کرتا ہے جو اعلیٰ ثقافت کے معیار پر منفی اثر ڈالتی ہے۔ پھر ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ دنیا میں جو روشن خیالی پیدا ہونا تھی، اسے بھی میڈیا نے بربریت (Bardarsim) سے بدل ڈالا ہے، میڈیا مخالفانہ رائے کو دبا کر رکھتا ہے، میڈیا ایک خاص قسم کی ثقافت کو ثقافت عامہ کے طور پر پیش کرتا ہے جس کا تعلق سرمایہ دار طبقے کے فائدے سے جڑا ہوتا ہے۔ میڈیا ایسے خیالات اور افکار کو فروغ دیتا ہے کہ جس سے نئے خیالات و افکار کے راستے بند ہوجاتے ہیں۔

جدید مارکسی گروپ نے برطانیہ میں ٹریڈ یونین کی عوام میں مقبولیت کم ہوجانے کی وجہ جاننے کے لیے ایک تحقیق کی۔ اس تحقیق کے نتائج سے معلوم ہوا کہ ٹریڈ یونین کی عوام میں مقبولیت میں کمی کی ایک بڑی وجہ میڈیا پر جانبدارانہ انداز میں پیش کی جانے والی خبریں تھیں۔

نوم چومسکی، ایڈورڈ ہرمن اور کارل مارکس وغیرہ کے میڈیا کے بارے میں مذکورہ خدشات و خیالات اپنے اندر بے حد وزن رکھتے ہیں۔ نوم چومسکی، ایڈورڈ ہرمن کا یہ کہنا کہ میڈیا معاشرے اور معیشت کو کنٹرول کیے ہوئے ہے، میڈیا کے ’’مخروط خاموشی کا نظریہ‘‘ (Spiral of Silence Theory) سے بھی مطابقت رکھتا نظر آتا ہے جس کے تحت جس رائے کو زیادہ تعداد میں لوگ درست سمجھ لیں وہ رفتہ رفتہ حاوی ہوتی چلی جاتی ہے اور اس کے مخالف رائے کمزور ہوتی چلی جاتی ہے، یہاں تک کہ لوگ اس کمزور رائے پر مکمل خاموشی اختیار کرلیتے ہیں، گویا کمزور رائے رکھنے والوں کی ہمت ہی نہیں ہوتی کہ وہ مخالف رائے کا اظہار بھی کرسکیں۔ اس طرح یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جدید مارکسی کی یہ بات بھی درست لگتی ہے کہ میڈیا مخالفانہ رائے کو دبا کر رکھتا ہے۔

غور کیا جائے تو میڈیا میں اشتہارات کے آجانے سے میڈیا کی غیر جانبداری واقعی متاثر ہوئی ہے، مثلاً یہ کہ اگر میڈیا کا کوئی ادارہ کسی بڑے سرمایہ دار کی کمپنی یا ادارے سے اشتہار حاصل کرکے اپنی آمدنی میں اضافہ کر رہا ہے اور اس ادارے سے متعلق کوئی ایسی معلومات سامنے آتی ہے جو ایک رپورٹر اپنی پیشہ ورانہ ذمے داری اور ایمانداری کے تحت اس معلومات کو خبری شکل دے کر میڈیا پر پیش کرنا چاہتا ہے تو اس بات کا قوی خدشہ ہوگا کہ جس ادارے کے خلاف خبر جاری ہوگی وہ ادارہ خبر دینے والے میڈیا کے ادارے کو آیندہ اشتہار نہیں دے گا۔ یوں اس مالی نقصان کو برداشت کرنے کے لیے میڈیا پر ایسی خبریں پیش کرنے کی جرات کون کرے گا؟ یہ ایک بڑا نکتہ ہے جس کو پہلے کارل مارکس اور پھر نوم چومسکی نے بھی سمجھا اور میڈیا کے اس پہلو پر کھل کر تنقید کی۔ اس قسم کی صورتحال دنیا بھر میں موجود ہے اور پاکستان میں بھی۔

ایک اور مفکر مارشل میکلوہنی کی بات بھی قابل غور ہے۔ مارشل میکلوہنی میڈیا کے کردار کے متعلق اپنی کتاب ’’انڈراسٹینڈنگ میڈیا: دی ایکسٹینشن آف مین‘‘ میں لکھتا ہے کہ آج کی دنیا میں لسانی اور سماجی جبریت سے بھی بڑا جبر یہ ٹیکنالوجی ہے۔ مزید آگے وہ لکھتا ہے کہ ذرایع ابلاغ پر جو خیالات اور طریقے ہائے وغیرہ نمایاں جگہ پالیتے ہیں وہی افراد اور معاشرے پر غلبہ بھی حاصل کر لیتے ہیں۔ یوں میڈیا جس نظر سے دنیا کو دکھانا چاہتا ہے لوگ اسی نظر سے دنیا کو دیکھتے ہیں۔ جو لوگ میڈیا سے بہت متاثر ہیں اور میڈیا کو اپنا آئیڈیل سمجھتے ہیں اور اس کو ہی ’فالو‘ کرتے ہیں، انھیں اس جانب بھی غور کرنا چاہیے کہ میڈیا ان کو کون سی دنیا دکھا رہا ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔