حوا کی بیٹی تشدد کا شکار کیوں؟

روحیل ورنڈ  ہفتہ 28 اکتوبر 2017
عورتوں کے خلاف تشدد روکنے کےلیے پورے معاشرے کی سوچ بدلنا بہت ضروری ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

عورتوں کے خلاف تشدد روکنے کےلیے پورے معاشرے کی سوچ بدلنا بہت ضروری ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

عورتوں کے خلاف بیہمانہ تشدد ایشیا میں پیدائش سے پہلے، نوعمری میں، بچپن میں، جوانی اور بڑھاپے تک جاری رہتا ہے۔

گھر ہی وہ جگہ ہوتی ہے جہاں انسان پیار، خیال اور ایک سائے کا متلاشی ہوتا ہے۔ پاکستان میں عورتوں کو لڑکیوں کی پیدائش پر، چولہے پھٹنے کی جھوٹی کہانیوں میں، تیزاب سے جلا دینے، عصمت فروشی، شوہر کے تشدد، زبردستی حمل ضائع کروا دینے اور گھریلو تشدد سے دو چار رہنا پڑتا ہے۔

بد قسمتی سےکمزور عدالتی نظام اور عورت کی آزادی نہ ہونے کے باعث بہت سے جرائم رپورٹ بھی نہیں ہو پاتے۔ معاشرے کا یہ خوفناک پہلو مذہب اور ثقافت کے نام پر عورتوں پر مظالم اور مردوں کے معاشرے پر غلبے کی عکاسی کرتا ہے جبکہ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے ہمیشہ عورتوں کو عزت دی، ان پر کبھی تشدد نہیں کیا اور ہمیں بھی یہی حکم دیا۔

دنیا ایک نئے دور میں داخل ہوچکی ہے لیکن مہذب معاشرے کا سورج طلوع ہونے کے بعد بھی کچھ معاشروں میں خواتین کو دبایا جاتا ہے اور مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔ خواتین کمزور، منحصر اور جنسی استحصال کا شکار ہیں۔ جنسی استحصال جو عورتوں کے حقوق کی پامالی کرتا ہے وہ معاشرتی، معاشی اور ثقافتی حدود سے ماورا ہے۔ 70 فیصد خواتین اپنے شوہروں کے جسمانی اور جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہیں جبکہ 93 فیصد خواتین کو عوامی مقامات پر جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

یہ شماریات مددگار قومی ہیلپ لائن 1098 کے بانی اور قومی کمشنر برائے اطفال ضیاء احمد کی جانب سے تصدیق شدہ ہیں۔ انہوں نے اس کا ذکر مارچ 2017 میں اپنے دفتر میں ہونے والی ایک پریس کانفرنس میں کیا۔

کچھ گھروں میں عورتوں کی زندگیاں خطرات سے گھری اور مظالم کی دھول میں اٹی نظر آتی ہیں۔ تشدد کا ارتکاب اکثر وہ مرد کرتے ہیں جن پر اعتبار یا قریبی تعلق ہو جیسے باپ، بھائی، شوہر، سسر، بیٹے یا دیگر ایسے تعلقات۔

پاکستان میں 2004 تا 2016 میں درج شدہ جرائم 15222 ہیں۔

انسانی حقوق کمیشن کی 2016 کی رپورٹ کے مطابق اس بارہ سالہ عرصے میں عورتوں کے خلاف تشدد کی 15222 رپورٹیں درج ہوئیں جو ملک میں عورتوں پر تشدد کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

ہم بھی چاہیں تو اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اپنے پرتشدد دوستوں کےلیے عذر ڈھونڈنے سے پہلے یہ یاد رکھیے کہ تشدد کا انتخاب انسان خود کرتا ہے۔ دماغی حالت کا درست نہ ہونا، غصے کا قابو میں نہ ہونا، الکحل، منشیات اور دباؤ تشدد کرنے کی بظاہر کوئی وجہ نہیں اور نہ ایسا کہہ کر اس کی حمایت کی جاسکتی ہے۔

لڑکیوں کے بیان کردہ تشدد پر اعتبار کیجیے اور ان کی حمایت کیجیے۔ کسی خاتون کےلیے بدسلوکی اور جنسی زیادتی کی جھوٹی کہانی بنانا مشکل ہے۔ ہوسکتا ہے آپ ہی وہ پہلے اور آخری انسان ہوں جس سے وہ یہ بات کرے۔ اس کا یقین کیجیے اور اس کے کردار کا فیصلہ کیے بغیر اس کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں اور ان کی جتنی بھی مدد ہوسکے، کیجیے۔ آپ عورتوں پر تشدد کےلیے آگہی مہم شروع کرسکتے ہیں۔ اس کے حل کےلیے پروگراموں کا انعقاد کیجیے۔

محققین کے مطابق تشدد کو ختم کرنے کےلیے انسان کو پرتشدد بننے سے روکنا ضروری ہے۔ مزید اس بارے میں کہا جاتا ہے کہ بچے تک رسائی اسکول اور والدین کے ذریعے حاصل کی جاسکتی ہے اور ان کےلیے پروگرامز کا انعقاد کرکے یہ سکھایاجانا چاہیے کہ مردوں کو خواتین کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا چاہیے اور اپنے جذبات کا اظہار کیسے کرنا چاہیے۔

ہمیں اپنے مرد حضرات اور لڑکوں کی تربیت اس انداز میں کرنی چاہیے کہ انہیں اس بات کا احساس رہے کہ کمزور محسوس ہونا صرف عورت کےلیے مخصوص نہیں۔ مرد بھی آنسو بہاسکتا ہے اور یہ ایک قابلِ قبول احساس ہے۔

دنیا کے مختلف گوشوں میں ہر روز کہیں نہ کہیں عورتوں پر تشدد اور جرائم ہورہے ہوتے ہیں؛ اور کچھ معاشرتی و ثقافتی اثرات کی وجہ سے انہیں سزا نہیں دی جاتی کیونکہ ان کے بارے میں بات کرنا ناقابلِ قبول سمجھا جاتا ہے جیسا کہ جنسی زیادتی، عورتوں کے مخصوص اعضاء کو مسخ کرنا اور بچوں کی شادی کرنا۔

زیادتی کے واقعات میں مظلوم ہی کو قصور وار ٹھہرا کر عزت کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے۔ یہ مسائل معاشرے میں ناسور کی طرح پھیل چکے ہیں جنہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکنا اشد ضروری ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

روحیل ورنڈ

روحیل ورنڈ

بلاگر بین الاقوامی ایوارڈ یافتہ سماجی کارکن اور سوشل اینٹریپرینیور ہیں۔ ٹائمز آف یوتھ میگزین کے سی ای او ہیں جبکہ ورلڈ سمٹ ایوارڈ کے جیوری ممبر اور سفیر ہیں بھی ہیں۔ ان سے www.Rohayl.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔