ہم امریکی نہیں پاکستانی ہیں

عبدالقادر حسن  ہفتہ 28 اکتوبر 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

بد معاش امریکا نے ایک بار پھر دھمکی کے ذریعے پاکستان کو اپنے دام میں لپیٹنے کی کوشش کی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن نے اپنے ہنگامی دورے میں پاکستان کی قیادت کو دہشتگردی کے خلاف سویلین اور فوجی قیادت کے مشترکہ اجلاس میں مزید اقدامات کرنے پر زور ہی نہیں دیا بلکہ حکم دینے کی کوشش کی جس کو فی الفور ہماری ملکی قیادت کی جانب سے مسترد کر دیا گیا ہے۔

امریکا بہادر نے ہمیشہ پاکستان کو اپنے زیر اثر رکھ کر مطالبات منوائے ہیں۔ پاکستان، اس کی حکومتوں اور پاکستانی سرزمین کو اپنی مرضی سے استعمال کیا ہے اور دعویٰ یہ کیا کہ ہم اتحادی اور دیرینہ دوست ہیں جب کہ عمل اس کے اُلٹ کیا۔ ہر دفعہ امریکا نے پاکستان کو بھارت کا طفیلی بنانے کی ناکام کوشش ہی کی۔ باوجود بہت ساری غلطیوں کے پاکستان ابھی تک اس پوزیشن میں ہے کہ وہ اپنی خود مختار حیثیت کو منوا رہا ہے۔

حالانکہ امریکا نے بارہا یہ کوشش کی ہے کہ پاکستان کو اس خطے میں بھارت کے زیر دست رکھا جائے کیونکہ ایک کمزور پاکستان ہی امریکا کی ضروریات کو پورا کر سکتا ہے اور وہ بھی اس صورت میں کہ بھارت کے زیر اثر ہو۔ وہ تو بھلا ہو ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے بعد آنے والے حکمرانوں کا جنہوں نے ہمارے سائنسدانوں کو ڈاکٹر قدیر خان کی سربراہی میں ہر ممکن سہولت فراہم کی اور ہم اس قابل بن گئے کہ اپنے آزاد وجود کو برقرار اور اس کا دفاع کر سکیں۔ یہی وہ بنیادی وجہ جو کہ مغربی دنیا اور خاص طور پر امریکا اور ہمارے ہمسائے بھارت کو پاکستان کے خلاف کسی بھی مہم جوئی سے باز رکھے ہوئے ہے۔

اگر ایٹم بم نہ ہوتا تو پاکستان کا حشر بھی اب تک افغانستان والا ہو چکا ہوتا۔ ایک بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ امریکا کو ہمارا ایٹم کسی بھی صورت میں قبول نہیں اور جب تک وہ ہمارے ایٹمی پروگرام کو اپنے مطلب کے مطابق ختم نہیں کر لیتا ہم اندرونی طور پر مشکلات میں ہی گھرے رہیں گے کیونکہ امریکا کو ایک مستحکم پاکستان کسی بھی صورت میں قبول نہیں اور وہ اس کوشش میں رہتا ہے کی پاکستان کو عدم استحکام کا شکار رکھا جائے تا کہ امریکا اس خطے میں اپنی مرضی کے فیصلے کر سکے۔

امریکی وزیر خارجہ کا حالیہ دورہ بھی امریکی بالادستی کے دراز ہوتے سلسلے کی ایک کڑی ہی تھا۔ امریکی وزیر نے بڑا واضح پیغام دیا کہ پاکستان جو بھی کہتا رہے اس کو وہی کرنا ہو گا جو امریکا چاہے گا۔ لیکن اس بار امریکیوں کو مختلف حالات سے پالا پڑا ہے۔ پہلے تو وزیر موصوف کو وہ پروٹوکول ہی نہیں ملا جو کہ ان کو ہمیشہ سے ملتا آیا ہے اس کو ہمارے ایک عام سے افسر نے ائر پورٹ پر خوش آمدید کہا جو کہ اس بات کا پاکستان کی جانب سے بڑا واضح پیغام تھا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی راہیں اب بدل رہی ہیں اور نئے راستے اور نئے دوست تلاش کیے جا رہے ہیں تا کہ امریکا دوستی کا جو طوق گلے میں ڈالا ہوا ہے اس سے نجات حاصل کی جا سکے۔

پاکستان کی سیاسی حکومت جو کہ اپنے نازک ترین دور سے گزر رہی ہے اس نے حکومت کے آخری سال میں کل وقتی خارجہ وزیر کا تقرر کر کے مثبت کام کیا حالانکہ یہ مثبت کام انھیں حکومت کے شروع میں ہی کر لینا چاہیے تھا تا کہ جو خرابیاں کل وقتی وزیر خارجہ کے نہ ہونے سے پیدا ہو ئی ہیں وہ نہ ہوتیں اور پاکستان جس کو خارجی محاذ پر مدلل اور مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے اس ضرورت کا ادراک کر لینا ہی دانشمندی تھی۔ لیکن ہمارے حکمران اپنی شاہی حکومت کو اپنے نو رتنوں میں رکھنے کے قائل تھے جس کا نقصان ملک نے اٹھایا اور اب جب کہ کہ وزیر اعظم تبدیل ہو چکا ہے ایک واضح تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے اور وہ مسائل جن پر فوری توجہ کی ضرورت تھی وہ اب ترجیحی بنیادوں پر حل کیے جا رہے ہیں۔

ہمارے وزیر خارجہ نے امریکا کو کھڑک کر جواب دیا ہے کہ امریکا کو افغانستان میں اپنی شکست کو تسلیم کر لینا چاہیے اور پاکستان اب مزید اپنی خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ کرنے کے موڈ میں نہیں جن افراد کے خلاف پاکستان کو کارروائی کا کہا گیا ہے ان میں سے ایک کا بھی تعلق پاکستان سے نہیں اس لیے پاکستان کو ماضی کی طرح دھمکیاں نہ دی جائیں اور کسی ایک دھمکی پر ہم ڈھیر نہیں ہو ں گے۔ پاکستان کو امداد اور اسلحہ نہیں چاہیے بلکہ ہم برابری کی سطح پر آیندہ کے تعلقات چاہتے ہیں اور بھارتی بالادستی کو قبول کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

خارجہ پالیسی میں تبدیلی کے اشارے پاکستان کی جانب سے بہت پہلے سے ہی دیے جا رہے تھے اب بڑی وضاحت کے ساتھ حکومت نے اس بات کا اعلان بھی کر دیا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اب کسی امریکا کے مرہون منت نہیں اور ہم اپنے خطے میں خود مختار حیثیت میں وہ فیصلے کریں گے جو ہمارے لیے فائدہ مند ہوں گے۔ دیر آید درست آید کے مصداق یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ ہم بالاخر اپنی ترجیحات کو واضح کرتے جا رہے ہیں تا کہ دنیا کو یہ باور کرا سکیں کہ ہم ایک خود مختار اور ذمے دار ایٹمی طاقت ہیں۔

ہمارے اپنے مسائل ہیں جن کو ہم کسی ملک کی مداخلت کے بغیر خود ہی بہتر طور پر حل کر سکتے ہیں۔ لیکن ہوتا یہ رہا کہ ہمیں اس طرح کے مسائل میں الجھا دیا گیا کہ ملکی استحکام کی جانب وہ توجہ نہ دی جا سکی جس کی ہمیں ضرورت تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام ہی رہا اور ہمارے ملک کی تقدیر کے بارے میں فیصلے کہیں اور ہوتے رہے جن کا ہمیں نقصان ہی ہوا۔

خدا کرے کہ ہم اب اپنے کہے پر قائم رہیں کیونکہ نہ تو ہمارے ہمسائے تبدیل ہو سکتے ہیں اور نہ ہی روز روز نئے دوست بنائے جا سکتے ہیں۔ بھارت ہمارا دشمن تو ہے ہی ہمارا ہمسایہ بھی ہے اسی طرح افغانستان جیسے ہمسائے ملک میں جب تک سیاسی استحکام نہیں آتا ہمارے ملک میں شورش جاری رہے گی۔

ہمیں انھی ہمسائیوں کے ساتھ زندہ رہنا ہے اور اس کے لیے بڑی ہوشیاری کی ضرورت ہے کیونکہ ہم پہلے ہی ان ہمسائیوں کے چکر میں اپنا نقصان کرا بیٹھے ہیں اور اب مزید نقصان ہمارے سلامتی کے لیے خطرہ بن  جائے گا اس لیے فیصلے کہیں اور کرنے کے بجائے پاکستان میں بیٹھ کر ہی کرنے ہوں گے کیونکہ بھارت امریکا کا فطری اتحادی اور امریکا اس کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔