میں ٹیکس کیوں ادا کروں ؟

شیریں حیدر  اتوار 29 اکتوبر 2017
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

نصف شب کو بے چینی سے آنکھ کھل جائے اور آپ عمر کے اس حصے میںہوں کہ یوں آنکھ کا کھل جانا دل کے کسی روگ نہیں بلکہ واقعی طبیعت کی خرابی کا باعث ہو… درد اور وہ بھی دانت کا، خیر درد تو جو بھی ہو برا ہے- خیر جناب کروٹیں بدلنے سے کوئی بہتری نہ ہوئی تو بستر چھوڑنا پڑا اور بتی نہ جلائی کہ درد تو جاگا ہے مگر کوئی اور نہ جاگ جائے- غسل خانے میں جا کر پہلے تو الماری سے ہر طرح کی دوا کو نکال کر دیکھا، پھر اپنے فون پر Google سے رابطہ کیا اور پھر باورچی خانے میں جا کر لونگ کا تیل روئی پر ڈال کر بلکہ روئی کو تیل میں اچھی طرح بھگو کر متاثرہ دانت پر رکھا- میں تو اس سوچ میں تھی کہ منہ میں تیل والی روئی رکھتے ہی معجزہ ہو جائے گا مگر درد تو کیا کم ہوتا الٹا منہ میں لونگ کے تیل نے اور بھی بدمزگی پیدا کر دی- رات جاگ کر گزری، صبح اٹھ کر اسپتال جانے کا ارادہ کیا اور چیک کرنے لگی کہ کون سے اسپتال جا سکتی ہوں-

ہمارے اریب قریب تو کوئی اسپتال نہیں ہے، انتہائی ایمرجنسی میں بھی نزدیک ترین اسپتال تک پہنچنے میں بھی معمول کے دنوں میںآدھا گھنٹہ کم از کم لگتا ہے- سرکاری اسپتالوں کی حالت نا گفتہ بہ ہے… راولپنڈی کے ایک سرکاری اسپتال اور اسلام آباد کے اہم ترین سرکاری اسپتال کی حالت زار اور اپنے ذاتی تجربے کے باعث اللہ سے یہی دعا کرتی ہوں کہ اللہ کسی دشمن کو بھی وہاں کا مریض نہ کرے- صفائی کا انتہائی ناقص انتظام، اور ڈاکٹروں کی عدم موجودگی، ڈیوٹی پر موجود نچلے عملے کا مریضوں کے ساتھ ناروا سلوک ، ایمر جنسی میں ضرورت کی دواؤں کی عدم موجودگی، وہیل چئیر اور اسٹریچر کی کمی، مشینوں کا خراب ہونا اور زیر استعمال اوزاروں کا صاف نہ ہونا… ایسے مسائل ہیں کہ جنھیں دیکھ کر کوئی وہاں نہیں جانا چاہتا-

سسک سسک کر بندہ وقت گزار لے مگر ایسے اسپتالوں میں جانے کا تصور تو پہلے ہی مار دیتا ہے- اللہ ہمیں کسی ایسی صورت حال سے محفوظ رکھے- یقین کریں کہ کوئی اور بھی زیر علاج ہو اور صرف اس کی عیادت کو بھی جانا پڑے توعام انسان یہ سب دیکھ کر پریشان ہو جاتا ہے، جو نہیں پریشان ہوتے وہ حکمران کہلاتے ہیں –

اسی لیے تو ہمارے حکمران، وزراء اور مشیران اپنے سر درد کے علاج کے لیے بھی بیرون ممالک جاتے ہیں، جناب کہ وہ اس ملک کی مشینری کے اہم کل پرزے ہیں جو ان اسپتالوں میں علاج کروا کے وہ مزید بیمار پڑ جائیں تو ہمیںلوٹے گا کون؟ اس ملک میں ہزاروں اسپتال بنوانے یا موجود اسپتالوں کا انتظام بہتر کرنے کا خرچہ بہر حال ان کے بیرون ملک جا کر علاج کروانے سے کم ہے- یہاں ان اسپتالوں میں اس ناگفتہ بہ حالت کے باوصف مجبور اور بے آسرا لوگ رلتے ، ڈاکٹروں کے سامنے ہاتھ باندھتے، دوائیں خریدنے کے لیے وہیں موجود لوگوں سے ہاتھ پھیلا کر بھیک مانگتے، ڈاکٹروں کی لاپروائی کے باعث اپنے مریضوں کو تڑپتے ہوئے دیکھتے، ٹیسٹوں کے لیے قطاروں میں کھڑے، ایمرجنسی وارڈوں میں بھی اخوت اور بھائی چارے کے تحت ایک ایک بیڈ پر تین چار اکٹھے پڑے ہوئے، اسپتالوں کے کاریڈوروں میں فرشوں پر دریاں اور گدے بچھا کر لیٹے ہوئے، وہیں ڈرپیں لگی ہوئی ہیں، وہیں آپریشن کے بعد لا کر لٹا دیے جاتے ہیں،( یہ پوسٹ آپریٹو کئیر ہے)- درد سے تڑپتی ہوئی عورتیں، برآمدوں، صحنوں اور کاریڈوروں میں بچوں کو جنم دیتی ہوئیں، ایسی شرم ناک صورت حال ہے اس ملک میں، جسے دنیا ہمارے میڈیا کے ذریعے دیکھتی اور ہمیں جاہل اور پسماندہ کہتی ہے… یہ سب جان کر کیا آپ ایسے کسی اسپتال میں جانا چاہیں گے؟

خیرمیں بتا رہی تھی کہ میرے دانت میں درد تھا… کوئی سرکاری سہولت میسر نہ ہونے کے باعث اور یہ سوچ کر کہ سرکاری اسپتال سے علاج کروانے پرناقص اور غلیظ اوزاروں کے استعمال کے باعث جانے اور کتنے روگ لگ جائیں، پرائیویٹ ڈاکٹر سے جب علاج کروا کر دانت کے درد سے نجات پا کر گھر لوٹی تو بٹوہ بھی کافی ہلکا ہو چکا تھا- حساب کیا تو علم ہو اکہ اگر میں اپنے پورے بتیس دانتوں کے علاج کے لیے اسی طرح رقم دیتی رہی تو بہتر ہے کہ میں ابھی سے کمیٹی ڈال لوں اور کوئی پلاٹ خرید کر رکھ لوں ، کوئی شئیر وغیرہ خرید لوں یا سونا خرید کر رکھ لوں ورنہ تو کباڑا ہو جائے گا-

ہم اس ملک میں ہر قدم پر، ہر سانس پر ٹیکس کیوں دے رہے ہیں اگر ہمیں فقط اتنی سی سہولت بھی میسر نہیں؟ تعلیم، علاج اورسر پر چھت… ہر اسلامی اور غیر اسلامی معاشرے میں عوام کا حق ہے- اگر ہم ٹیکس دیں مگر ہمار ے بچوں کی تعلیم کے لیے سرکاری اسکولوں میں بہترتعلیم کا انتظام نہ ہو، ہمیں حکومت کی طرف سے سر چھپانے کا کوئی آسرا نہ ہو اور ہم اپنا علاج بھی خود ہی اپنے خرچے پر کروائیں تو پھر ہمارے ٹیکس کہاں جاتے ہیں ؟ ایک ٹیکس تو وہ ہے جو اس ملک کا تنخواہ دار طبقہ ادا کرتا ہے اور اس ٹیکس کی کٹوتی میں نہ کوئی چھوٹ ہے نہ دھوکہ کہ وہ ہر تنخواہ دار کی تنخواہ میں سے جبری کٹ جاتا ہے- پھر اس ملک کا وہ طبقہ ہے جن کے اپنے کاروبار ہیں، اس میں سے بھی لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں، کچھ پوری دیانتداری کے ساتھ اور کچھ اس میں دھوکہ کرتے ہیں، بددیانتی کے مرتکب ہوتے ہیں- با ضمیر ٹیکس ادا کرنے والے صرف کڑھتے ہیں اور سوچ کر رہ جاتے ہیں کہ وہ بھی ٹیکس چوری کریں –

ہم کپڑے، جوتے، دواؤں، سامان تعیشات و ضروریات، اشیائے خورونوش کی خریداری میں، بجلی، فون اور گیس کے کنکشن لینے اور ان کے بلوں کی ادائیگی میں، ہر طرح کے زمینی، سمندری اور فضائی سفر میں، گھر بنانے کے دوران ہر چیز کی خریداری میں، پھر گھر پر، پھر کرایے پر دیں تو کرائے پر- گاڑی خریدیں تو ٹیکس ادا کریں، اس کی رجسٹریشن کروائیں، اس میں پٹرول ڈلوائیں اس کی سروس کروائیں تو ٹیکس ادا کریں… غرض قدم قدم پر اتنے ٹیکس ہیں کہ گنوانا مشکل ہے- لگتا ہے کہ اس ملک میں ٹیکس ادا کرنے والوں سے زیادہ وہ لوگ بہتر ہیں جو ٹیکس نہیں دیتے، کم از کم ان کے پاس کڑھنے کی کوئی وجہ تو نہیں ہے- اس ملک کے وزیر اعظم کا ٹیکس بھی میرے جیسے عام لکھاری، کسی استاد، کسی نرس کے اعزازئیے یا تنخواہ کی ادائیگی سے پہلے کٹ جانے والے ٹیکس کے لگ بھگ ہو گا-

آپ کسی صرافہ بازار میں چلے جائیں، ظاہر ہے کہ ہم سب کو کبھی نہ کبھی زیورات کی خریداری کرنا ہوتی ہے- وہاں پر دکاندار آپ سے کریڈٹ کارڈ یا چیک وصول نہیں کرتا بلکہ نقد کا مطالبہ کرتا ہے، اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ ٹیکس ادا نہیں کرنا چاہتا- لاکھوں روپے یوں جیبوں میں ڈال کر تو کوئی بازاروں میں نہیں جاتا نہ ہی ایسا کرنا محفوظ ہے- یہ تو وہ دکاندار ہیں جن کی کمائی شاید سب سے زیادہ ہوتی ہو گی- ملک کے چھوٹے سے چھوٹے شہروں کی ڈربہ نما دکانوں میں بیٹھے ہوئے دکانداروں سے لے کر بڑے شہروں کے مہنگے ترین علاقوں میں  اربوں روپے کے زیورات بیچنے والے … کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتے، ان سے سوال کرو تو کہتے ہیں ، ہم ٹیکس کیوں ادا کریں؟ حکومت ہمیں اس کے بدلے میں کیا دیتی ہے؟ ہم ٹیکس دیں تا کہ وہ اپنے اللے تللوں میں خرچ کریں، اپنے ماتھوں پر تاج سجانے کے لیے سڑکوں پر سڑکیں بنواتے ہیں کہ وہ نظر آتی ہیں اور پلوں میں ان کی فیکٹریوں کا لوہا کھپتا ہے، ان منصوبوں میں وہ اربوں کا کمیشن کھا جاتے ہیں- ہمارے پیسوں سے اپنی انتخابی مہم چلاتے ہیںاور جیتنے کے بعد چار چار سال تک اپنے حلقے میں نظر تک نہیں آتے-

میں بھی سوچتی ہوں کہ میں ٹیکس کیوں دیتی ہوں ۔ کیا اس کے بدلے میں میرے پاس کوئی ایسا کارڈ ہے جس پر لکھا ہو کہ میں اس ملک کی ایک ذمے دار اور ٹیکس ادا کرنے والی شہری ہوں- میں جہاں کچھ خریدنے کے لیے جاؤں وہاں وہ کارڈ پیش کروں اور اس کے بدلے میں مجھے اس خریداری پر مکمل یا کچھ فیصد چھوٹ مل جائے؟ مانا کہ سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والوں بچوں کے والدین اور ان اسپتالوں میں علاج کے لیے وہ لوگ رل رہے ہوتے ہیںجو بظاہر کسی نوعیت کا ٹیکس ادا نہیں کرتے، مگر بہت سے ٹیکس تو وہ بھی ادا کرتے ہیںجو کہ خرید و فروخت میں ادا ہوتے ہیں، بلوں کی مد میں ا ورٹیلی فونوں کے استعمال سے ادا ہوتے ہیں… کیا اس ملک میں سرکاری اسکولوں اور اسپتالوں کے علاوہ کوئی ایسا نظام بھی چل سکتا ہے جس سے وہ طبقہ مستفید ہو جو ایمانداری سے باقاعدہ ٹیکس ادا کرتا ہے؟

ہمارے حکمران کشکول لیے بھیک کے نام پر ہمیں مزید مقروض کیے ہوئے ہیں تو پھر بد دیانتی اور کرپشن کے سوا کیا وجہ ہے کہ اس ملک میں بہتری نہیں آ رہی؟ ہم ترقی کی راہ پر ایک قدم آگے بڑھاتے ہیں تو دو قدم پیچھے پھسل جاتے ہیں- لالچیوں، چوروں اور ڈاکوؤں کو چن کر اپنے سروں پر مسلط کرلیں گے تو اس کے سوا ہمارے ساتھ کیا ہو گا- ہمارے جیسے بے حس، غیر ذمے دار اور پڑھے لکھے جاہلوں کے لیے اس کے سوا اور کوئی آپشن بھی نہیں ہے اور یہی ہمارے ہر درد کا علاج ہے !!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔