ایک حکومت اور دو بھائی

عبدالقادر حسن  اتوار 29 اکتوبر 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

میاں شہباز شریف کی یہ بڑی صائب تجویز ہے کہ ملک کے اہم اداروں کے درمیان بات چیت ہونی چاہیے تا کہ ترقی کا عمل جاری رہ سکے اور پاکستان کی ترقی کی خاطر گفتگو کرنا تمام اسٹیک ہولڈرز کے مفاد میں ہے۔ عدلیہ، فوج اور سیاستدانوں کے درمیان اس بارے میں گفتگو ہونی چاہیے یہ پاکستان کے لیے بہتر ہے اور جب تمام اکائیاں مل کر ترقی کریں گی تو یہ پاکستان کی ترقی ہو گی۔

میاں شہباز شریف کے بارے میں عمومی تاثر ایک صلح جو شخص کا ہے جو کہ ہر حال میں پاکستان کی ترقی کا خواہاں ہے اور اس کے لیے پاکستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل جل کر کام کرنا چاہتا ہے۔ میاں شہباز شریف اس سے قبل بھی کئی بار اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ پاکستان کی ترقی کی رفتار مطلوبہ معیار کے مطابق نہیں اور کرپشن کا ناسور ابھی بھی بے قابو ہے۔

شہباز شریف کی ہمہ جہت شخصیت کو ان کے انقلابی خیالات کی وجہ سے تنقید کا بھی سامنا رہتا ہے اور کئی دفعہ یہ تاثر بھی قائم کرنے کی کوشش کی گئی کہ وہ اپنے بڑے بھائی نواز شریف کے مخالف چل رہے ہیں، حالانکہ اگر دیکھا جائے تو یہ شہباز شریف کی ذات ہی ہے جس کی وجہ سے مسلم لیگ نواز کا پنجاب کا قلعہ مضبوطی کے ساتھ ابھی اپنی جماعت کے ساتھ کھڑا ہے، ورنہ اس سے پہلے تو ہم یہ دیکھتے آ رہے ہیں کہ جیسے ہی حکومت غیر مستحکم ہوئی تو اس کے اپنے ہی اراکین اسمبلی تتر بتر ہو گئے اور نئے آشیانوں پر جا کر بیٹھ گئے۔ مگر اس دفعہ کمال ہوشیاری سے نواز لیگ نے اپنے اراکین کو ابھی تک اپنے ساتھ جوڑ رکھا ہے اور لگ یہی رہا ہے کہ وہ اس میں آنے والے وقت میں بھی کامیاب رہیں گے۔

اداروں کے درمیان گفتگو کی شہباز شریف کی تجویز کو معنی خیز کہا جا سکتا ہے۔ ان کے خاندان کے اہم ترین افراد جن میں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بچے شامل ہیں اپنی ہی حکومت میں احتساب کے چکر میں پیشیاں بھگت رہے ہیں اور ان کی کوئی بھی استدعا نہیں مانی جا رہی۔ روز روز کی یہ پیشیاں ان کی پریشانی میں اضافہ ہی کر رہی ہیں۔

اس موقع پر شہباز شریف کی جانب سے عدلیہ، فوج اور سیاستدانوں کے درمیان ملکی مفاد کے بارے میں مشترکہ لائحہ عمل کی قابل عمل تجویز کا اظہار ملکی اداروں کے درمیان بہتر اور مضبوط تعلقات کی جانب پہلا قدم بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ یہ تاثر عام ہے کہ شہباز شریف مقتدر حلقوں میں مقبول بھی ہیں اور ان کو قبول بھی کیا جاتا ہے اس لیے شاید ان کی اس تجویز کا خیر مقدم کیا جائے۔ اس کے لیے اور اسے قابل عمل بنانے کی جانب پیش رفت ممکن بنانے کے لیے تمام اداروں کو مل کر بیٹھنا پڑے گا اور ملک کو موجودہ سیاسی اور عالمی طور پر درپیش گھمبیر صورتحال سے نکالنے کے لیے کوئی ایسا لائحہ عمل بنانا پڑے گا جو کہ سب کے لیے قابل قبول بھی ہو اور قابل عمل بھی۔

اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ نواز لیگ کی مرکزی قیادت میں شہباز شریف اور چوہدری نثار ہی وہ دو اہم شخصیات ہیں جن کی وجہ سے ابھی تک نواز لیگ کی حکومت قائم ہے اگر ان دونوں صلح کن اور صلح جو حضرات کو نواز لیگ سے الگ کر دیا جائے تو یہ بات بھی روز روشن کی طرح کی عیاں ہے کہ نواز لیگ کی حکومت اپنے اقتدار کے پہلے سال میں ہی پہلے دھرنے میں ہی رخصت ہو جاتی۔ نواز لیگ کا ووٹ بینک تو بہرحال میاں نواز شریف کی ذات سے ہی منسلک ہے لیکن وہ خود چونکہ ضدی طبیعت کے واقع ہوئے ہیں اس لیے ان کی مختلف اداروں کے بارے میں لچک نہ ہونے کی وجہ سے معاملات ان کے کنٹرول میں نہیں رہے۔

یہ شہباز شریف ہی تھے جنھوں نے رات کے اندھیروں اور دن کے اجالوں میں مقتدر حلقوں میں اپنی راہ و رسم کو استعمال کرتے ہوئے اپنی حکومت کو بچایا اور اب جب کہ لبِ بام والی صورتحال رہ گئی ہے تو شہباز شریف ایک بار پھر متحرک ہیں جس میں وہ اپنی حتیٰ المقدور کوشش کر رہے ہیں کہ ان کی پارٹی بر سر اقتدار رہے اور سینیٹ کے الیکشن خیر خیریت سے ہو جائیں جس میں ان کی جماعت کو واضح اکثریت مل جائے گی۔ اور اگر آئندہ الیکشن میں وہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں بھی آ سکتے تب بھی ایوان ِ بالا میں بیٹھ کر وہ اپنا کردار بھر پور طریقے سے ادا کر سکتے ہیں، جیسا کہ اس وقت پیپلز پارٹی کر رہی ہے۔ مگر کیا حالات اس بات کی اجازت دیں گے کہ آئندہ مارچ تک ملک کی سیاسی صورتحال جوں کی توں رہے۔

یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے اور اس کے بارے میں ابھی سے کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ لیکن فی الوقت کوئی ایسی صورت بھی نظر نہیں آ رہی کہ سینیٹ کے الیکشن نہ ہو سکیں کیونکہ ٹیکنو کریٹ حکومت کے قیام کے بارے میں افواہوں کو فوج کی جانب سے پہلے ہی رد کیا جا چکا ہے۔ ہاں قومی حکومت کی بات الگ ہے لیکن قومی حکومت کی قیادت کے لیے بھی سب اسٹیک ہولڈرز کا متفق ہونا ضروری ہے۔

شہباز شریف کہتے ہیں ملک میں کمزور سیاسی حکومتیں عوام کی صحیح خدمت نہیں کر سکیں اور فوجی حکومتیں بھی اس مشن میں بری طرح ناکام ہی رہی ہیں۔ وہ ایک بار پھر ملک میں ہیجانی کیفیت ہی دیکھ رہے ہیں۔ یہ ہیجانی صورتحال کیوں بن گئی اس کی اصل وجوہات کیا ہیں۔ اگرچہ اس بار بھی نواز لیگ کی حکومت کو واضح اکثریت حاصل ہے لیکن اس کے باوجود ماضی کی طرح وہ حکومت کرنے میں ناکام ہی نظر آئی۔ وہ کون سے عوامل اور غلطیاں ہیں جن کو نواز لیگ کی حکومت بار بار دہراتی ہے اور ہر بار اپنے لیے مشکلات کھڑی کر لیتی ہے۔

اس کے بارے میں نواز لیگ کی قیادت کو خود احتسابی کی اشد ضرورت ہے، ان کے تمام سوالوں کے جواب اسی خود احتسابی میں پنہاں ہیں۔ اگر وہ یہ عمل کر لیتے ہیں تو پھر شہباز شریف یہ نہیں کہیں گے کہ سیاسی حکومتیں عوام کی صحیح خدمت نہیں کر پائیں ان کے برادر خورد کو بھی اپنے سوال کا جواب مل جائے گا اور اپنے ہی ملک کے اداروں سے ڈائیلاگ کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔