فراہمی آب کا منصوبہ K-IV کے فیز 1 کی تعمیراتی لاگت 25 سے 53 ارب تک پہنچ گئی

سید اشرف علی  اتوار 29 اکتوبر 2017
منصوبہ سست روی کا بھی شکار، پانی کے بحران سے نبردآزماکراچی کے شہریوں کو بنیادی سہولت ملنے تک مزید انتظار کرنا ہوگا۔ فوٹو: ایکسپریس/فائل

منصوبہ سست روی کا بھی شکار، پانی کے بحران سے نبردآزماکراچی کے شہریوں کو بنیادی سہولت ملنے تک مزید انتظار کرنا ہوگا۔ فوٹو: ایکسپریس/فائل

کراچی: واٹر بورڈ کے فراہمی آب کے میگا منصوبے کے 4 فیز ون کی تعمیراتی لاگت میں ہوشربا اضافہ ہوچکا ہے، تعمیراتی لاگت 25.5 ارب روپے سے بڑھ کر 48.325 ارب روپے تک پہنچ گئی ہے۔

کراچی میں پانی کی قلت پر قابو پانے کے لیے260 ملین گیلن یومیہ پانی کی فراہمی کے لیے KIVفیز ون واٹربورڈ کی زیر نگرانی تعمیرکیا جارہا ہے، منصوبے کے سنگ بنیاد کے موقع پرتعمیراتی لاگت 25.5ارب روپے تھی جس کے لیے وفاقی وصوبائی حکومتوں نے مساوی 50فیصد فنڈز کے اجرا کی منظوری دی ہے، منصوبہ کی تعمیرکینجھر جھیل سے کراچی تک 120 کلومیٹر کی جارہی ہے، منصوبہ کے لیے درکار زمین 8ہزار 327ایکڑ پر محیط ہے جس میں ضلع ملیر کے دیہہ اللہ فئی، دیہہ شاہ مرید، دیہہ کونکر، دیہہ گھگھر ، دیہہ چھوریجی اوردیہہ دھابے جی کے علاقے شامل ہیں۔ اس اراضی کیلیے سندھ حکومت نے الگ سے 5 ارب روپے جاری کیے۔

ذرائع کے مطابق KIV پروجیکٹ کی منصوبہ بندی درست اور بروقت نہیں کی گئی اس لیے اب اضافی لاگت کے مسائل کا سامنا ہے، منصوبہ کا سنگ بنیاد وزیر اعلیٰ سندھ کے ہاتھوں 2016ء میں رکھا گیا تاہم فنڈز کی عدم فراہمی اور دیگر مسائل کی وجہ سے عملی طور پرتعمیراتی کام جون 2017ء میں شروع ہوا، اس منصوبے کو 2018ء میں مکمل کیا جانا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ اضافی لاگت کی منظوری کے لیے متعلقہ اداروں کی طویل دفتری کارروائی کی وجہ سے منصوبے میں غیرمعمولی تاخیر کا اندیشہ ہے، واضح رہے کہ منصوبہ کے تعمیراتی کام کا ٹھیکہ فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن ( ایف ڈبلیواو) کو ملا ہے، واٹر بورڈ اور ایف ڈبلیو او کے معاہدے کے موقع پر کینجھر جھیل سے کراچی تک بلک واٹر سپلائی سسٹم کی تعمیراتی لاگت 25.5ارب روپے تھی تاہم اب ایف ڈبلیو او نے اس پر اضافی 15فیصد طلب کرلیے ہیں جو تقریباً 3.8  ارب روپے بنتے ہیں، بجلی کی فراہمی کے لیے ٹرانسمیشن نظام کی تنصیب اور کے فور فیز ون کو واٹر بورڈ کے ڈسٹری بیوشن نظام سے منسلک کرنے کے لیے 19 ارب روپے درکار ہیں۔

پروجیکٹ ڈائریکٹر کے فورسلیم صدیقی کا کہنا ہے کہ ایف ڈبلیو او نے قانون کے دائرے میں رہ کر 15فیصد اضافے کا مطالبہ کیا ہے جس کے لیے وفاقی وصوبائی حکومتوں سے منظوری لینا لازمی نہیں ہے، وفاقی پلاننگ کمیشن کے مروج قوانین کے تحت منصوبے کی منظورکردہ لاگت میں 15 فیصد اضافہ کیا جاسکتا ہے، انھوں نے کہا کہ دیگر 19ارب روپے اضافی کاموں کی وجہ سے خرچ کیے جانے ہیں، بجلی کی فراہمی کے لیے ٹرانسمیشن لائن حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کاپوریشن سے74کلومیٹر طویل براستہ حیدرآباد، ٹھٹھہ، مکلی سے کنیجھر جھیل اور مارو ہل تک منسلک کی جائے گی جبکہ دو پاور گریڈ اسٹیشن بھی تعمیرکیے جائیں گے، اس منصوبے پر 7ارب روپے لاگت آئے گی۔

سلیم صدیقی نے کہا کہ بقیہ 12ارب روپے کراچی کے اندرونی علاقوں میں ڈسٹری بیوشن نظام کی تعمیر میں خرچ ہوں گے جس کے ذریعے 260ملین گیلن پانی کی فراہمی شہریوں تک پہچانی ممکن ہوگی، سلیم صدیقی نے کہا کہ حالیہ بارشوں کی وجہ سے تعمیراتی کام متاثر ہوا تھا تاہم اس وقت تمام رائٹ آف وے پر ترقیاتی کام جاری ہے، پروجیکٹ ڈائریکٹر نے تسلیم کیا کہ منصوبہ مقررہ مدت پر تعمیر نہ ہوسکے گا، انھوں نے کہا کہ منصوبہ کی تکمیل میں کچھ تاخیر ہوسکتی ہے تاہم اب ترقیاتی کام تیز رفتاری سے جاری ہے۔

پروجیکٹ ڈائریکٹر نے کہا کہ منصوبہ کی اضافی لاگت کے لیے دستیاب فنڈز کے لیے دفتری کارروائی میں تاخیر نہیں ہوگی، 10ارب سے زائد لاگت کا منصوبہ وفاقی حکومت سے منظور کرانا ہوتا ہے جبکہ اس سے کم لاگت کا منصوبہ صوبائی حکومت منظور کرسکتی ہے، اس لیے واٹر بورڈ نے فیصلہ کیا کہ وقت کی بچت کے لیے صوبائی حکومت سے منظوری حاصل کی جائے، اس ضمن میں واٹر بورڈ نے تین پی سی ون بناکر صوبائی حکومت کو ارسال کردی ہیں، وزیر اعلیٰ سندھ اس منصوبہ میں خصوصی دلچسپی لے رہے ہیں اس لیے توقع ہے کہ پی سی ون کی منظوری میں تاخیر نہیں برتی جائیی گی اور فنڈز بھی بروقت جاری ہوجائیں گے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔